شہری ہلاکتوں کے بعد ناگالینڈ اسمبلی نے شمال مشرق سے AFSPA کو منسوخ کرنے کی قرارداد منظور کی
نئی دہلی، دسمبر 21: ناگالینڈ اسمبلی نے پیر کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مرکز شمال مشرق اور خاص طور پر ناگالینڈ سے آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کو واپس لیا جائے۔
یہ قرارداد اس ماہ کے شروع میں ریاست کے مون ضلع میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 14 شہریوں کی ہلاکت کے بعد منظور کی گئی۔ پہلی معلوماتی رپورٹ میں ناگالینڈ پولیس نے کہا تھا کہ فوج کی 21 پیرا اسپیشل فورس نے شہریوں کو ’’قتل اور زخمی کرنے‘‘ کے ارادے سے گولی چلائی تھی۔
پیر کو ناگالینڈ اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کی، جس کا مطلب ہے کہ ریاست کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل ایز نے بھی اس کی حمایت کی۔ ناگالینڈ حکومت کی قیادت نیشنلسٹ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کر رہی ہے، جو بی جے پی کی اتحادی ہے۔
قرارداد میں حکام سے ہلاکتوں پر معافی مانگنے اور انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی مانگی گئی۔
The following resolution was passed during the 10th session of the Thirteenth Nagaland Legislative assembly:@dipr_nagaland pic.twitter.com/JEhzB1jLKy
— MyGov Nagaland (@MyGovNagaland) December 20, 2021
معلوم ہو کہ 4 دسمبر کی شام کو فوج کی 21 پیرا اسپیشل فورس نے ناگالینڈ کے مون ضلع میں ترو سے اوٹنگ تک کوئلے کی کان کنوں کو لے جانے والی پک اپ وین پر فائرنگ کی تھی، جس میں سوار چھ افراد مارے گئے تھے۔ انھوں نے بظاہر کارکنوں کے گروپ کو باغی سمجھ لیا تھا۔
ہلاکتوں سے ناراض مظاہرین کے ایک ہجوم نے پھر فوج کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ جس کے بعد انھوں نے دوبارہ فائرنگ کی جس سے مزید سات شہری مارے گئے۔
تشدد اتوار کی دوپہر تک پھیل گیا جب مقامی لوگ مون کے ضلع ہیڈکوارٹر میں آسام رائفلز کے کیمپ میں داخل ہوئے۔ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر جوابی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک اور شخص ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد سے کئی سول سوسائٹی گروپس اور قبائلی اداروں نے اے ایف ایس پی اے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ قانون فوج کو تلاشی لینے، گرفتار کرنے اور گولی چلانے کے اختیارات دیتا ہے، اگر وہ ’’امن عامہ کی بحالی‘‘ کے لیے ضروری سمجھیں۔ فوج کے اہلکار استغاثہ سے کچھ حد تک استثنیٰ کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔
2015 میں تریپورہ کے اس وقت کے وزیر اعلی مانک سرکار کی کابینہ نے ریاست سے اس قانون کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرکار نے کہا تھا کہ ریاست کے 74 پولیس اسٹیشنوں کے دائرہ اختیار میں سے 26 کے لیے ’’پریشان کن علاقے‘‘ کے نوٹیفکیشن کی تجدید کرنے کی ضرورت نہیں تھی جو اس وقت AFSPA کے دائرۂ کار میں تھے۔
AFSPA کی دفعہ 3 کے تحت قانون کو لاگو کرنے کے لیے کسی علاقے کو مرکزی یا ریاستی حکومت کی طرف سے پریشان کن قرار دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نوٹیفکیشن ہر چھ ماہ بعد جائزہ لینے کے بعد تجدید کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں مرکز ریاستی حکومت کے مشورہ پر اس پر فیصلہ لیتا ہے۔
دریں اثنا آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے پیر کو کہا کہ ریاست AFSPA کے تحت کام کرتی رہے گی۔
سرما نے میڈیا سے کہا ’’آسام حکومت کا خیال ہے کہ اگر اس طرح کی پرامن صورت حال بعد کی تاریخ میں جاری رہی تو ہم اس بات پر فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا ہمیں پورے آسام میں اس قانون کی ضرورت ہے یا ہمیں صرف کچھ حصوں میں اس کی ضرورت ہے۔‘‘