پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
چاول کی قیمت اگست میں صارف اشاریے پر 9.8 فیصد تھی جو 15سالوں میں سب سے زیادہ ہے
جولائی میں شرح افراط زر 7.44 فیصد تھی جو اگست میں کم ہو کر 6.83 فیصد پر آگئی ہے اور یہ اب بھی 6 فیصد سے اوپر بنی ہوئی ہے جسے آر بی آئی قوت برداشت کے اوپری زمرے میں رکھتا ہے۔ ملک میں افراط زر پر کنٹرول 2016 سے ہی مانیٹری پالیسی کا ہدف ہے جو صارف قیمت اشاریے (سی پی آئی) کی بنیاد پر افراط زر کو دو تا چھ فیصد کے درمیان رکھنا ہوتا ہے اور گزشتہ ایک سال میں ایسا ساتویں مرتبہ ہوا ہے۔ اب افراط زر کو کم کرنے کے لیے بازار میں کرنسی کی رقیقیت اور پھیلاو کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مگر آر بی آئی نے مسلسل کئی نشستوں کے بعد بھی شرح سود میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی اور خواہش ہے کہ افراط زر خود بخود کم ہوجائے۔ آر بی آئی مسلسل کہتی آرہا ہے کہ شرح مہنگائی میں کمی آنے میں وقت لگے گا۔ گزشتہ ماہ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے دلی اسکول آف اکنامکس میں اپنے اظہار خیال میں کہا کہ سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جولائی میں افراط زر 7.44 فیصد ہوگئی تھی۔ افراط زر میں کمی کے باوجود سپلائی کے جھٹکے اب زیادہ ہی لگ رہے ہیں جو افراط زر کے نظم کو متاثر کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ صارف قیمت اشاریے (سی پی آئی) تقریباً 450 مختلف اشیا کی اوسط قیمت کی بنیاد پر متعین کیے جاتے ہیں جو دیہی اور شہری علاقوں کے لیے مختلف ہوا کرتا ہے جن میں سے تقریباً 49 فیصد خوردنی اشیا اور اس سے تعلق رکھنے والے اجناس کے ہوتے ہیں اس لیے خوردنی اشیا جب مہنگی ہوں گی تو مہنگائی بھی زیادہ ہی ہوگی۔ مثلاً تیل، دال، دودھ سبزی اور غذائی اشیا کی اونچی قیمتوں کی وجہ سے غذائی اشیا کا افراط زر 10 فیصد پر پہنچ گیا ہے اور اسے قابو میں کرنے کے لیے گیہوں، چاول، چینی، پیاز وغیرہ زرعی پیداوار کے برآمد پر پابندی یا ضرورت سے زیادہ ٹیکس لگانے جیسا انتظام کیا گیا ہے۔ اگرچہ خوردنی اشیا کی برآمدات سے کسانوں کو اضافی فائدہ ہوتا ہے جس کے لیے وہ آس لگائے رہتے ہیں۔ 2022 میں 75 لاکھ ٹن ابالا ہوا چاول برآمد کیا گیا تھا لیکن فی الحال اس پر 20 فیصد برآمداتی ٹیکس لگاکر اسے عوام کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔ ویسے ہمارا ملک دنیا بھر میں 40 فیصد چاول برآمد کرتا ہے۔ اس پر جزوی قدغن لگانے کی وجہ سے دنیا بھر میں غذائی اجناس کی قلت ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک کے ایسے اقدام سے انڈونیشیا، بنگلہ دیش، فلپائن، چین اور نائجیریا جیسے درآمداتی ممالک پر اثر پڑنا فطری ہے۔ بعض ممالک میں چاول کی قیمت زیادہ ہونے پر وہاں کے وزرا کو استعفیٰ بھی دینا پڑا ہے۔
مذکورہ تمام تر انتظامات کے باوجود اندرون ملک چاول کی مہنگائی میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ ٹوٹے ہوئے چاول کا استعمال ایتھانول (الکوحل) کی تیاری میں ہورہا ہے۔ اگرچہ ملک کی بڑی آبادی چاول سے الکوحل بنانے کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اور بیرون ملک غذائی قلت کا قہر منڈلا رہا ہے۔ چاول کی قیمت اگست میں صارف اشاریے پر 9.8 فیصد تھی جو 15سالوں میں سب سے اونچائی پر ہے۔ دراصل الکوحل پالیسی ڈالر بچانے کی بے جا کوشش ہے جس کی وساطت سے خام تیل خریدا جاتا ہے۔ ایتھانول تیار کرنے والوں نے 2022 میں تقریباً 430 کروڑ لیٹر ایتھانول سپلائی کیا ہے۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی طلب کے لیے اسے 1100 کروڑ لیٹر 2025 تک لے جانے کا مطالبہ ہے۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اس کے لیے غذائی ذخیرہ کو ایتھانول کی تیاری میں ضرورت ہوگی۔ ہمارے ملک کے 25 کروڑ عوام کو ایک وقت کھانا نصیب نہیں ہوتا، الٹا ان کے منھ سے مزید نوالہ چھیننے کی کوشش ہو رہی ہے، اس لیے اس پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہی حال رہا تو ملک میں غذائی اجناس کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔
فی الحال روس اور سعودی عرب کی طرف سے خام تیل کی پیداوار میں کٹوتی کی بات ہو رہی ہے جس کی وجہ سے خام تیل کی قیمت 85 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 100 ڈالر فی بیرل ہونے جارہی ہے جس سے ہمارے ملک کی درآمدات پر نامناسب اثر پڑنا فطری ہے جس کی وجہ سے ملک میں غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے اور روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے مزید کم ہوسکتی ہے۔ ہم سافٹ ویر اور آئی ٹی خدمات کی برآمدات سے اس کمی کی تلافی کرسکتے ہیں جو بہت آسان نہیں ہے کیونکہ عالمی معاشی سستی کے دور میں سافٹ ویر کی طلب میں سستی آرہی ہے۔ سافٹ ویر کی تنظیم نیسکام کے مطابق وسطی اور طویل مدت میں بھارتی سافٹ ویر خدمات کا مستقبل خوشنما نظر آرہا ہے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی میں اضافہ کی وجہ سرکاری مالیاتی خسارہ کا حجم بھی ہے جو بہت بڑا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کی ہر طرح کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا وبا کے وقت خسارہ میں اضافہ تو قابل فہم تھا کیونکہ مفت غذا، رعایتی قرض اور بازار میں رقیقیت بنائے رکھنے کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا بھی سہارا لینا پڑا تھا اور گزشتہ چار سالوں سے جاری مفت راشن کی فراہمی سے سرکاری خزانے پر 4.5 لاکھ کروڑ روپے کا الگ سے بار پڑا ہے۔ اس طرح بی ایس این ایل کی حالت سدھارنے کے لیے 1.7 لاکھ کروڑ روپے کا راحتی پیکیج فراہم کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سرکاری بینکوں کے ذریعہ دیے گئے 15 لاکھ کروڑ روپے کے قرض کو این پی اے قرار دے کر معاف کرنا پڑا ہے۔ ہمارے ملک کی مالی حالت جتنی خوشنما دکھائی جاتی ہے، حقیقت میں ویسی نہیں ہے۔ اگر بڑھتے ہوئے قرض کے سود کو ادا کرنے میں ہونے والے سرکاری اخراجات کو سامنے رکھا جائے تو اس معاملہ میں ہمارا ملک تمام ملکوں کے اوسط سے بہتر ہے۔ بڑھتے ہوئے خسارہ کی وجہ سے شرح سود اونچائی پر بنی رہے گی جو رئیل اسٹیٹ، ہاوسنگ شعبے و دیگر صنعتی منصوبوں کے لیے مفید نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں مختلف گروپس اور خود غرض عناصر مختلف ناموں سے اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریوڑیاں مفت بانٹنے کی روایت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ہی نئے صنعتی منصوبوں کے تحت پیداوار کو مہمیز دینے والے پی ایل آئی اسکیم کے علاوہ درآمدات کے لیے بھی بہتر انتظام کیا جارہا ہے۔ مگر بہتر انتظامات سے سرکاری خزانے پر اثرات تو پڑیں گے ہی جس سے افراط زر کو قابو میں کرنے پر اچھا خاصا دباو بنے گا۔ اب تو مانیٹری پالیسی کے سخت رویے سے کام بنتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اس لیے افراط زر کا قابو میں کرنا ایک مشکل امر ہے۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او) کے مطابق 22 ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کے ساتھ 13ریاستوں میں اگست میں اوسط سے زیادہ شرح افراط زر درج کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ شرح افراط زر 8.6 فیصد راجستھان میں، اس کے بعد تلنگانہ اور ہریانہ میں 8.27 فیصد اور جھارکھنڈ میں 7.91 فیصد درج کی گئی ہے۔ پالیسی سازوں کے لیے افراط زر کا یہ ڈیٹا قابل تشویش ہے۔ آر بی آئی گورنر شکتی داس کے مطابق گزشتہ ماہ کے ضابطہ پالیسی کے جائزہ میں آر بی آئی نے ریپو کو 6.5 فیصد پر رکھا ہے جو ابھی بھی افراط زر کے آر بی آئی کے ہدف سے کافی اوپر ہے۔ امسال افراط زر ہدف سے اوپر ہی بنی ہوئی ہے۔
افراط زر بازار کی ایسی خصوصیت ہے جس کا اثر آمدنی کے کمی و بیشی پر منحصر ہوتا ہے۔ آمدنی بہتر ہوتی ہے تو مہنگائی کو لوگ آسانی سے جھیل جاتے ہیں مگر جب آمدنی کم ہوتی ہے تو مہنگائی اپنے تیور دکھانے لگتی ہے اور لوگوں کی زندگی مشکل کردیتی ہے۔ افراط زر کی شرح کے تازہ ڈیٹا سے بہتری کا اشارہ دیا جارہا ہے لیکن ادھار پر جینے والے عوام کے تجربے اس کے علی الرغم ہیں۔ ہمارے ملک میں سوال افراط زر کی شرح کا نہیں بلکہ اس شرح کے اثر کا ہوتا ہے اور پیسے کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوتا جارہا ہے۔
***
***
افراط زر بازار کی ایسی خصوصیت ہے جس کا اثر آمدنی کے کمی و بیشی پر منحصر ہوتا ہے۔ آمدنی بہتر ہوتی ہے تو مہنگائی کو لوگ آسانی سے جھیل جاتے ہیں مگرجب آمدنی کم ہوتی ہے تو مہنگائی اپنے تیور دکھانے لگتی ہے اور لوگوں کی زندگی مشکل کردیتی ہے۔ افراط زر کی شرح کے تازہ ڈیٹا سے بہتری کا اشارہ دیا جارہا ہے لیکن ادھار پر جینے والے عوام کے تجربے اس کے علی الرغم ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023