کارکن ہرش مندر کے گھر اور دفاتر پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے چھاپہ مارا

نئی دہلی، ستمبر 16: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے آج صبح دہلی میں انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر سے متعلق جگہوں میں تلاشی شروع کی۔

وسندر کنج کے علاقے میں مندر کے گھر، شہر کے سرودیا انکلیو محلے میں سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز میں ان کے دفتر اور ’امید‘، مہرولی میں ان کے ذریعے چلائے جانے والے بچوں کے گھر کی تلاشی لی گئی۔

صورت حال سے واقف ایک شخص نے بتایا کہ یہ سرگرمیاں مندر کے جرمنی کے برلن روانہ ہونے کے ایک دن بعد ہوئی ہیں، جہاں وہ روبرٹ بوش اکیڈمی کے ساتھ نو ماہ کی طویل فیلوشپ کے لیے گئے ہیں۔

اسکرول ڈاٹ اِن کے مطابق اس شخص نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’وہ وہاں یہ مطالعہ کرنے گئے ہیں کہ جرمنی اپنے پرتشدد ماضی کو کیسے سمجھتا ہے۔‘‘

مندر کی بیٹی، سرور مندر اس وقت اپنے وسنت کنج کے گھر پر ہے کیونکہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکار اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کارکنوں اور ہرش مندر کے ساتھیوں نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے کی گئی اس تلاشی کو ’’وِچ ہنٹ‘‘ قرار دیا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے ایک ایکٹوسٹ اور پروفیسر اپوروانند نے کہا ’’یہ ہرش مندر اور ان کے ساتھیوں کو ہراساں کیے جانے کا ایک حصہ ہے۔ ہرش کو مخالف سی اے اے مخالف مظاہروں کے ایک واضح حامی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔‘‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مندر کے دفاتر اور گھر کی تلاشی لی گئی ہو۔

اس کے قبل دو بچوں کے گھر پر، جن سے یہ کارکن منسلک ہے، اکتوبر میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے چھاپہ مارا۔ مندر نے کہا تھا کہ چھاپے مرکزی حکومت کی جانب سے اسے بدنام کرنے اور ان لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوشش تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کیا تھا۔

بچوں کے گھروں نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق سے معائنہ رپورٹس کو منسوخ کیا جائے۔

چائلڈ رائٹس کمیشن نے مندر سے وابستہ تنظیموں میں مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا۔ پینل نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان گھروں سے بچوں کو احتجاجی مقامات پر لے جایا گیا تھا۔

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ سینٹر فار ایکویٹی اسٹڈیز نے، جہاں مندر ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، ’’بھاری فنڈز‘‘ حاصل کیے تھے جو کہ ’’مذہبی تبدیلی جیسی غیر قانونی سرگرمیوں‘‘ کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔

2020 میں دہلی پولیس نے مندر پر نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا تھا۔ 13 جولائی کو ہائی کورٹ میں دہلی پولیس کے حلف نامے میں ان کے ساتھ کئی دیگر افراد کے نام بھی شامل تھے۔