آزادی کی نعمت کو: ’کبھی الواداع نہ کہنا‘
اس نام نہاد امرت کال میں ہمارا ہوشیار اور خبردار رہنا بہت ضروری ہے ورنہ آزادی کی نعمت ہم سے چھن جائے گی
ڈاکٹر سلیم خان
کیوں بھائی کلن تم نے یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے ہمارے شیر کی دہاڑ سنی یا نہیں؟
کلن بولا یار للن سچ بتاوں مجھے تو پردھان سیوک کے تقریر سن کر فلم ’چلتے چلتے‘ کا ایک نغمہ یاد آگیا ۔
للن نے کہا بھیا تمہارے اعصاب پر تو بالی ووڈ سوار ہے۔ پردھان جی اتنی سنجیدگی سے دو ہزار سال کی بات کر رہے ہیں اور تمہیں فلمی نغمے سوجھنے لگے۔
دو ہزار سال؟ یار میں تو بار بار ایک ہزار کی گردان سن رہا تھا! کہیں تم اونچا تو نہیں سننے لگے؟
بھیا کلن، پچھلے ہزار سال جمع اگلے ہزار سال بولو کتنے ہزار سال؟
اچھا یعنی تیتر کے دو آگے تیتر، تیتر کے دو پیچھے تیتر، بولو کتنے تیتر؟
پھر وہی فلمی دنیا۔ خیر پردھان جی کی بات کریں تو آگے پیچھے تیتر اور درمیان میں فاختہ کہنا پڑے گا ۔
کلن نے چونک کر پوچھا یہ درمیان میں فاختہ کہاں سے آگئی کچھ سمجھ میں نہیں آیا؟
اوہو، امن کی فاختہ کو تم نہیں جانتے۔ فی الحال امنِ عالم کے حوالے سے ساری دنیا کی نظریں ہمارے پردھان سیوک پر ٹکی ہوئی ہیں؟
تم سے یہ بات کس احمق طوطے نے کہہ دی؟
للن نے حیرت سے پوچھا ارے! اب تم بیچ میں طوطا بھی لے آئے؟
کلن بولا طوطے کو لانا نہیں پڑتا۔ وہ از خود مان نہ مان میں تیرا مہمان کی مانند کہیں بھی وارد ہو کر تمہاری طرح مودی چالیسا پڑھنے لگتا ہے۔
کہیں تم مجھ پر اندھے بھکت ہونے کا الزام تو نہیں لگا رہے ہو؟
ارے بھیا انسان جو کرتا ہے اسی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ اب تم ہی بتاو پردھان جی کی تقریر کا حوالہ کون دے رہا تھا؟
جی ہاں میں دے رہا تھا مگر یہ اندھ بھکتی نہیں بلکہ پیشہ ہے۔ مجھے اس کے پیسے ملتے ہیں۔ اس سے میرا گھر چلتا ہے۔
کیا مطلب کل کو مودی کے بجائے راہل آجائے تو کیا تم ان کی تعریف و توصیف کرنے لگو گے؟
کیوں نہیں ہمیں پیسے سے مطلب ہے۔ راہل ہو یا مودی، کوئی بھی ہمارا ہمدرد نہیں ہے۔ ہم تو اپنا پیٹ پالنے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔
کلن نے سوال کیا اچھا! لیکن وہ فاختہ والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟
اس میں سمجھنے کا کیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے بہت جلد دلی میں جی-20 کا نفرنس ہونے والی ہے۔
جی ہاں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پردھان جی اس کے اجلاس کی صدارت کرنے والے ہیں۔
بہت صحیح سمجھے اور اس میں مودی جی اپنی لال آنکھوں سے روس اور امریکہ کو دیکھیں گے، اس طرح یوکرین میں امن قائم ہو جائے گا۔
کلن قہقہہ لگا کر بولا: یار لگتا تم کچھ زیادہ بول گئے ہو۔ پردھان جی کی لال پیلی آنکھوں میں اگر اتنا دم ہوتا تو کیا وہ منی پور میں امن قائم کیوں نہیں کروادیتے؟
ارے بھائی منی پور کی بات الگ ہے۔ وہاں امن قائم کرنے کے لیے تو شاہ جی کافی ہیں لیکن وہ پیچیدہ مسئلہ ہے۔
کلن نے پوچھا الگ مسئلہ؟ میں نہیں سمجھا؟
وہ ایسا ہے کہ کوکی تو پہلے ہی ہم سے ناراض ہوچکے ہیں اب اگر میتیوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ بھی بگڑ جائیں گے اور منی پور میں ہماری لٹیا ڈوب جائے گی۔
تو کیا تمہارا مطلب ہے کہ یوکرین کی جنگ کے بعد بھی منی پور کی آگ سرد نہیں ہوگی؟
للن نے موضوع بدلنے کے لیے کہا” یار کلن تم بلاوجہ منی پور میں الجھ گئے۔ یہ بتاو کہ پردھان جی کا بھاشن سن کر تمہیں کون سا نغمہ یاد آگیا تھا۔
وہی ٹائٹل سانگ ’چلتے چلتے میری تقریر یاد رکھنا، کبھی الوداع نہ کہنا، کبھی الوداع نہ کہنا‘۔
یار کلن تمہارا دماغ خراب ہے ۔ مودی جی تو پھر سے اقتدار میں آنے کی بات کر رہے تھے اور تم نے ان کے جانے کا راگ چھیڑ دیا۔
بھیا جس کو جانے کا ڈر ہوتا ہے وہی پھر سے آنے کا رعب ڈالتا ہے۔ یہ بتاو کہ کیا پردھان جی نے اس سے پہلے کبھی ایسی بات کہی تھی؟
کہی تو نہیں تھی لیکن کیا ضروری ہے کہ پہلے والی باتیں کہی جائیں وہ نئی بات بھی تو کر سکتے ہیں؟
جی ہاں، لیکن اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ پہلے انہیں یقین تھا کہ وہ انتخاب جیت جائیں گے لیکن اب نہیں ہے، اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں۔
للن نے سوال کیا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو کلن، تمہارا اندازہ غلط بھی تو ہوسکتا ہے؟
جی ہاں لیکن اس طرح کی بات پہلی بار نہیں کہی گئی۔ نریندر سے پہلے دیویندر بھی یہ کہہ چکا ہے۔
تم کس دلندر کی بات کر رہے ہو، میں نہیں سمجھا ؟
اوہو دلندر نہیں دیویندر، مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس بھی بار بار یہ دہرایا کرتے تھے اور تم نے دیکھا کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
ہاں بھائی اس بے چارے کی تو قسمت خراب ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں جیت کر بھی وہ وزیر اعلیٰ نہیں بن سکا لیکن وہ شرد پوار کی شرارت تھی۔
کلن بولا دیکھو بھائی شرد پوار کی شرارت سے قبل اس نے اجیت پوار کو ساتھ لے کر کوشش تو کی مگر ناکام رہا۔ اب یہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
اور پھر شرد پوار نے کھیل بگاڑ دیا۔ ٹھیک ہے؟
جی ہاں مان لیا، لیکن پھر شاہ جی نے پیسے کے زور پر شیوسینا کو توڑ دیا پھر بھی پھڈنویس کے اچھے دن نہیں آئے۔ اس کو وزیر اعلیٰ کے نائب کا عہدہ پکڑا دیا گیا۔
ہاں بھائی مرتا کیا نہ کرتا۔ وہ اگر امیت شاہ کی بات نہیں مانتا تو ای ڈی کی مدد سے اس کو بھی نواب ملک کے پاس پہنچا دیا جاتا۔
لیکن یار اب تو شندے کے دن بھر گئے مگر پھڈنویس کو پھر سے آنے سے روکنے کی خاطر اجیت پوار سوتن بن کر آگیا ہے۔
للن بولا ہاں بھائی میں نے بھی سنا ہے کہ شندے کی جگہ اجیت پوار کی تاج پوشی ہونے والی ہے۔
ہاں یار مجھے اس کا بے حد افسوس ہے۔امرت کال میں ایک نیکر والے سنگھ سیوک کے ساتھ یہ ناروا سلوک؟ میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ پھڈنویس سے عبرت پکڑ کر پردھان جی کو’پھر سے آنے‘ کا نعرہ نہیں لگانا چاہیے تھا۔
ہاں بھیا اب تو مجھے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ ویسے بھی وہ اگلے سال 74 برس کے ہو جائیں گے اور ایک سال بعد انہیں ریٹائر ہونا ہی پڑے گا۔
للن بولا بھیا، 75 کی حدود و قیود دوسروں کے لیے ہیں پردھان جی کے لیے نہیں، تم نے نہیں سنا وہ 2047ء کے بھی سپنے دیکھ رہے ہیں۔
یار اقتدار کی ہوس بھی کمال کی ہے۔ کیا 97 سال کی عمر تک وہ کرسی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں؟
بھیا کرسی کا لالچ ہی ایسا ہے کہ انسان اس کے ساتھ ہی قبر میں جانا چاہتا ہے۔
کلن نے چونک کر پوچھا، مودی جی کا قبر سے کیا لینا دینا۔
بھیا تم سمجھتے کیوں نہیں۔ قبر ہو یا چتا، اقتدار کی ہوس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کلن نے کہا یار مجھے تو لگتا ہے پردھان جی کے بس میں ہو تو اگلے ہزار سال تک جمے رہیں۔
اچھا اب سمجھا کہ وہ اگلے ہزار سال کی بات کیوں کر رہے تھے؟
جی ہاں للن یہ اگلے اور پچھلے ایک ہزار سال کی کہانی کے پیچھے وہی کرسی کا چکر ہے۔ کیا سمجھے؟؟
جی سمجھ گیا۔ یہ آئندہ ایک ہزار سال تک ہمیں پھر سے غلام بنائے رکھنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔
کلن نے تائید کی۔ اچھا! تو اسی لیے گیانواپی مسجد اور کرشن جنم بھومی کے گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں۔
جی ہاں بہت صحیح سمجھے۔ کلن صحیح بات یہی ہے۔ یہ لوگ آزادی کے ہزار سال کو غلامی بتا کر اس سے پہلے والا ذات پات کا نظام لانا چاہتے ہیں۔
وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے پردھان جی فرائض کی بات تو بار بار کرتے ہیں مگر حقوق کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
للن نے کہا اس لیے کہ غلاموں کی صرف ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے ۔
جی ہاں، انہیں تو صرف بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے اس لیے اس کی خاطر ہم لوگوں کو دن رات تیار کیا جا رہا ہے۔
یار کلن، تم نے میری آنکھیں کھول دیں ورنہ تو میں ہمارے پردھان جی کو چندرگپت موریا کے بعد ملک کا پہلا ہندو ہردیہ سمراٹ سمجھتا تھا۔
للن ہنس کر بولا، تم سے یہ کس نے کہہ دیا کہ چندر گپت موریا ہندو تھے؟
اس میں کہنے کی کیا بات ہے، نام ہی کافی ہے۔
اچھا تو اشوک کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کلن بولا وہ بھی ہندو شہنشاہ تھا۔ اس میں شک شبہ کی کیا بات ہے؟
یہی تو مسئلہ ہے بھیا۔ وہ دونوں ہندو نہیں بلکہ بودھ مت کے ماننے والے تھے۔
کلن نے کہا وہی تو۔ وہ مسلمان یا عیسائی تو نہیں تھے ناں۔ اس لیے ہندو ہی سمجھو۔
تمہارے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ بھی اپنے آپ کو ہندو سمجھتے ہیں؟
ہندو نہیں تو کیا مسلمان سمجھتے ہیں؟
ارے بھیا، مسلمان نہیں مگر ہندو بھی نہیں سمجھتے۔
کلن نے بگڑ کر پوچھا تب کیا سمجھتے ہیں؟
بودھ سمجھتے ہیں کیونکہ بودھی ہندو نہیں ہوتے۔
یار للن آج تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ بودھ اور ہندو میں کیا فرق ہے؟
بہت فرق ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اشوک کی طرح بابا صاحب امبیڈکر سناتن دھرم چھوڑ کر وہ مذہب کیوں اپناتے؟
ہاں بھائی یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ دونوں مذاہب اگر ایک ہوتے تو یہ مذہب کی تبدیلی ہرگز نہیں ہوتی۔
للن بولا بھیا! ہمارا بنیادی مسئلہ یہی کہ ہم سنتے ہیں اور مان جاتے ہیں۔ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اس سے سوچنے سمجھنے کا کام نہیں لیتے۔
جی ہاں بھائی ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر یہ سنگھ پریوار والے ہمیں مسلمانوں سے لڑا کر خود عیش کرتے ہیں۔
وہی تو اب مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کو دیکھو۔ ان پس ماندہ لوگوں کو ورغلا کر ان سے فساد کروا دیا۔ اب ان میں سے ایک فرار اور دوسرا گرفتار ہے۔
جی ہاں اور جن لوگوں نے انہیں اس کام میں لگایا وہ بلڈوزر چلا کر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔
للن نے کہا ارے بھائی ہمارے ہی کیوں؟ ان کے ایک امام کو مار کر ہم لوگوں نے بھی تو انتقام لے لیا ہے۔
تم اسے انتقام کہتے ہو؟ لیکن دیکھو اس قتل میں کن لوگوں کی گرفتاری ہو رہی ہے؟ کیا کسی برہمن پر سرکار نے ہاتھ ڈالا ہے؟ جبکہ سارے ہمارے آدمی اندر ہیں۔
ہاں یار سو تو ہے، مگر یہ بات عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے ان کو کیسے سمجھایا جائے؟
کلن بولا اس کا طریقہ سماجوادی پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریا سے سیکھ لو۔ تمہیں پتہ ہے اس نے گیانواپی مسجد کے بارے میں کیا کہا؟
ارے بھائی مجھ کو تو وہ پاگل لگتا ہے۔ پہلے بہوجن سماج پارٹی میں تھا پھر بی جے پی میں چلا گیا اور اب سماجوادی میں ہے۔ اس کا کیا اعتبار؟
میں نے اعتبار کرنے کے لیے تھوڑی کہا ہے؟ اس کی بات سنو اور اگر ٹھیک لگے تو آگے بڑھاو ورنہ چھوڑ دو۔ زبردستی تھوڑی ہے؟
للن نے پوچھا اچھا! خیر یہ تو بتاو کہ اس نے کیا کہا؟
وارانسی میں واقع گیانواپی مسجد کے سروے کا مطالبہ ہوا تو سوامی پرساد موریا نے کہا کہ اس سروے کو صرف گیانواپی مسجد تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔
اچھا تو کیا وہ متھرا کے ساتھ اور بھی مساجد پر تنازع کھڑا کرنا چاہتا ہے؟
جی نہیں اس کا مطالبہ ہے کہ ملک کے تمام ہندو مندروں کی بھی جانچ ہونی چاہیے کیونکہ زیادہ تر ہندو مندر بودھ مٹھوں کو گرا کر بنائے گئے تھے۔
ہاں یار مجھے یاد آیا۔ بابری مسجد کے نیچے ہندو مندر کے نہیں بلکہ بودھ مٹھ کے آثار ملے تھے اور سپریم کے مطابق مسجد کی تعمیر کے لیے اسے نہیں توڑا گیا تھا۔
کلن نے پوچھا وہی تو سوال ہے کہ اس مٹھ کو کس نے زمین بوس کیا؟
ارے بھیا سوامی پرساد تو یہاں تک کہتا ہے کہ آٹھویں صدی تک بدری ناتھ دھام بھی بودھ مت کا مٹھ تھا۔
اچھا اس وقت تو مسلمان شمالی ہندوستان میں آئے بھی نہیں تھے
للن بولا تو پھر یہ الزام کس کے سر ہے؟
کلن نے کہا، سوامی پرساد موریا کی مانیں تو آدی شنکراچاریہ نے اسے ہندو مندر بنا دیا۔
یار یہ تو بہت سنگین الزام ہے اس طرح بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
جہاں اس لیے سوامی پرساد موریا گڑے مردوں کو نہیں اکھاڑنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ ملک میں ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں مل جل کر رہیں۔
للن نے سوال کیا، یار یہ بتاو کہ مسلمانوں پر دھرم پریورتن کا الزام لگا کر مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کی گرفتاری کا کیا معاملہ ہے؟
بھائی للن تم کو تعجب ہوگا کہ اتفاق سے یہ سوال بھی کسی نامہ نگار نے سوامی پرساد موریا سے پوچھ لیا۔
اچھا! تو موریا نے اس کا کیا جواب دیا؟
ان کے مطابق مذہب کی تبدیلی کے پیچھے کوئی بین الاقوامی گروہ نہیں بلکہ مندروں میں بیٹھے پنڈت پجاریوں کا اتحاد اور سنڈیکیٹ کام کر رہا ہے۔
للن نے کہا، یار یہ تو الٹی بات ہے۔ یہ دھرماچاریہ کیوں اپنے لوگوں کو اپنا دھرم چھوڑنے کی ترغیب دیں گے؟
بالواسطہ تو نہیں مگر یہ لوگ پسماندہ ہندووں کو ذات پات کی بنیاد پر ذلیل کرکے بلکہ مار پیٹ اور اذیتیں دے کر مذہب چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
یار مجھے اس الزام پر یقین نہیں آتا۔ اپنے ہم مذہبوں سے ایسی بدسلوکی بھلا کوئی کیسے کرسکتا ہے؟
کیوں نہیں کر سکتا؟ دلی کے جگن ناتھ مندر میں صدر مملکت دروپدی مرمو اور پشکر کے برہما مندر میں سابق صدر رام ناتھ کووند کو روکنے کی بات کون نہیں جانتا؟
للن نے اعتراف کیا ہاں بھیا، یہ باتیں ہم لوگ اخبار میں پڑھتے تو ہیں مگر بھول جاتے ہیں۔
موریا کے مطابق اگر 95 فیصد دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہوتا رہے گا تو مذہبی تبدیلی جاری رہے گی۔
صحیح بات ہے۔ اگر ہم واقعی تبدیلی مذہب کو روکنا چاہتے ہیں تو ذات پات اور مذہب کے نام پر ان کی تذلیل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
موریا تو یہ بھی کہتا ہے کہ نام نہاد من گھڑت مذہبی کتابوں میں مذکور تضحیک آمیز باتوں کو نکالنا یا اس پر پابندی لگا کر انہیں کالعدم قرار دینا چاہیے۔
للن نے کہا، جی ہاں، مجھے یاد آیا کہ اس نے رام چرت مانس کی کئی باتوں پر بھی اعتراض کیا تھا۔
جی ہاں بھیا، مستقبل کی غلامی سے بچنے کی خاطر بابا صاحب امبیڈکر کی مانند منوسمرتی کو ناگپور میں جا کر جلانا ضروری ہے۔
جی ہاں کلن، ورنہ پردھان جی اپنی لفاظی سے آزادی کے نام پر پھر سے غلامی کا طوق ہماری گردن میں ڈال دیں گے۔
کلن نے کہا جی ہاں بھیا، اس نام نہاد امرت کال میں ہمارا ہوشیار اور خبردار رہنا بہت ضروری ہے ورنہ آزادی کی نعمت ہم سے چھن جائے گی۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023