عالمی سپر پاور کون؟

چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف

ندیم خان / بارہمولہ کشمیر

1935ء میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنی نظم ساقی نامہ میں چینیوں کی ترقی کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
اُس وقت اس کو صرف شاعرِ مشرق کا ایک خواب قرار دیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ واقعی چینی نہ صرف سنبھلنے لگے بلکہ چینیوں کے بے مثل عزم و استقلال نے معاشی و عسکری طور پر خود کو منواتے ہوئے عالمی سوپر پاور امریکہ کو ہر میدان میں مات دینا بھی شروع کر دیا ہے۔ بلا شبہ بیجنگ آج عالمی سوپر پاور کا منصب سنبھالنے کو تیار ہے اور تاریخ میں علامہ اقبال سرخرو ہو چکے ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رواں صدی میں چین کا علاقائی اور عالمی سطح پر کردار مسلمہ حیثیت اختیار کر چکا ہے اور امریکی پسپائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ نام نہاد سوپر پاور، جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے ایران کا خوف دلا کر مشرق وسطیٰ میں تباہی مچائے رکھی تھی، افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنانے کے لیے اپنی فوجیں وہاں اتاریں اور پھر دو دہائیوں کی جنگ لڑنے کے باوجود شکست کھانے کے بعد وہاں سے اپنا بوریا بستر گول کیا‌۔  فلسطین میں اسرائیل امریکی پشت پناہی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بے شک انسانیت کو تباہ کرنے میں امریکہ کا بڑا کردار رہا ہے اور اس نے اپنی طاقت کے زعم میں دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈے قائم کیے۔ اس وقت دنیا کے 120 ملکوں میں اس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ اس نے اپنے عالمی سوپر پاور کے منصب کو طول دینے کے لیے پوری دنیا کو جنگ میں جھونک رکھا ہے جبکہ دوسری جانب چین کی سب سے بڑی خاصیت یہ رہی کہ وہ عسکری محاذ پر الجھنے کے بجائے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ معیشت و دفاع کو مضبوط بنانے کی راہ پر گامزن رہا۔ دنیا بھر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں چین امریکہ اور یورپ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا اور 2035ء تک وہ دنیا کا واحد سوپر پاور بن چکا ہو گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین سرمایہ کاری، تجارت اور سفارت کاری کو بہترین انداز میں استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع اور آمد و رفت کا ایسا جال بچھا رہا ہے کہ جس سے تجارت کو اس طرح تقویت ملے گی کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے گا۔ لہٰذا اسی معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے اور ایشیا پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لیے امریکہ اپنے اتحادیوں کے ذریعے چین کے لیے نت نئے مسائل پیدا کر رہا ہے اور اسے گھیرنے کی تدابیر کر رہا ہے۔ بیجنگ کے بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک گریٹ گیم جاری ہے۔
امریکی پالیسیوں کے برعکس چین دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط تر بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔ جن ممالک کی معیشت کمزور ہے وہ چین سے مدد لے رہے ہیں۔ جن وسائل سے وہ اپنے طور پر مستفید ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ان سے مستفید ہونے میں وہ چین کا سہارا لے رہے ہیں۔ دراصل چین کی دنیا بھر میں کی گئی سرمایہ کاری سے امریکہ خوفزدہ ہے۔ چین نے افریقی ممالک میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جن میں نائیجیریا، سوڈان، جبوتی اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ اسرائیل کئی برسوں سے ایتھوپیا میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ یہاں اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ دریائے نیل جیسے عظیم دریا کا منبع ایتھوپیا ہی میں ہے جو یہاں سے پہلے سوڈان میں داخل ہوتا ہے اور پھر مصر کا راستہ لیتا ہے۔ اسی وجہ سے دریائے نیل کے پانی کی تقسیم  پر پہلے مصر اور سوڈان میں اختلافات پیدا کیے گئے اور پھر ایتھوپیا کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ سوڈان اور مصر کو پانی بند کرنے کی دھمکی دے۔ یقینا ایسا کرنا افریقہ میں خطے کی ایک بڑی جنگ کا بگل بجانے کے مترادف ہے اور اگر آگے چل کر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ علاقائی ممالک پانی کی تقسیم پر ایک دوسرے سے عسکری طور پر الجھ پڑتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان چین ہی کو ہو گا جس نے افریقی ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ خطے میں جنگ سے اس کی معاشی سرگرمیاں رک جائیں گی۔ ماضی قریب میں امریکہ نے چین اور روس کے اوپر ڈالر کی تلوار اس لیے لٹکائی ہوئی تھی کہ اگر یہ دونوں ملک عالمی اقتصادیاتی نظام میں ڈالر کو دبانے کی کوشش کریں تو امریکہ اور اس کے صیہونی اتحادی مشرق وسطیٰ کے شمال اور افریقہ کے اہم ممالک میں جنگی کیفیت پیدا کر دیں۔ روس اور چین امریکی ڈالر کے بجائے اب چینی کرنسی یوآن میں تیل کی خرید و فروخت کے علاوہ اپنے دیگر متعلقہ مالیاتی اداروں کے درمیان امریکی ڈالر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ایک نیا مالیاتی نظام قائم کرنے کے لیے بھی بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ لاطینی امریکی ریاستوں میں بھی چین کی کرنسی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے کیونکہ کورونا کے بعد اقتصادی بحران سے نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق واشنگٹن میں بیروزگاری کی شرح 7.9 فیصد سے بھی بلند ہو چکی ہے جبکہ مہنگائی بھی 8.4 فیصد کی شرح پر پہنچ گئی ہے جو گزشتہ کئی برسوں میں بلند ترین شرح ہے۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کے لیے اپنا وجود بر قرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بل کلنٹن کے دور حکومت میں امریکہ کا مجموعی قرضہ 5.7 ٹریلین ڈالر تھا لیکن جب امریکہ مسلم ممالک کو فتح کرنے کے جنون میں مبتلا ہوا تو عراق اور افغان جنگ کے نتیجے میں اس کے قومی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا جو بڑھتے بڑھتے 14.46 ٹریلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ 2003 کے بعد سے امریکہ پر قرضوں کے بوجھ میں تقریباً پانچ سو ارب ڈالر سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق 2008 میں امریکی قرضوں میں ایک ٹریلین ڈالر، 2009 میںدو ٹریلین ڈالر 2010 میں 1.7 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ جون 2019 تک امریکہ کے واجب الادا قرضوں کا حجم مجموعی طور پر 16.46 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اس وقت امریکہ کا مجموعی قومی قرضہ 33.76 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ جبکہ بیرونی قرضہ سات ہزار ارب ڈالر سے بھی زائد ہے۔
1974 میں جب سوویت یونین سے کئی گنا امیر اور زیادہ پیداواری صلاحیت کا حامل امریکہ اپنے دفاع پر سالانہ 85 ارب ڈالر خرچ کر رہا تھا تو سوویت یونین دفاع پر 109 ارب ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ اسی عرصے میں ایک ارب سے زائد آبادی کا حامل چین دفاع پر صرف 29 ارب ڈالر، برطانیہ 9.7 ارب ڈالر، فرانس 9.9 ارب ڈالر اور جرمنی 13.7 ارب ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ ٹیکسوں میں منظم کمی، وال اسٹریٹ کے لامتناہی بیل آؤٹ پیکیجز اور ریکارڈ عسکری اخراجات کے نتیجے میں 2023 میں امریکی بجٹ کا خسارہ دگنا ہو کر ایک ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر دو ٹریلین ڈالر ہو گیا ہے۔ چین ہی وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کو عالمی نمبر ون کی حیثیت سے گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چینی فوج بھی اب تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحریہ، تیسری سب سے بڑی فضائیہ، میزائلوں کی بڑی کھیپ اور سائبر اسپیس میں طاقت کے علاوہ خلا میں بھی جنگی سامان موجود ہے۔ اس رپورٹ میں روس اور چین کے درمیان سرحد کے بغیر دوستی کو حقیقی اتحاد میں تبدیل کرنے کے حوالے سے بھی خبردار کیا گیا ہے۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں ممالک مزید قریب آئیں گے۔ دی اکنامسٹ نے اشارہ دیا کہ عالمی معیشت میں امریکہ کا وزن نسبتاً کم ہو رہا ہے۔ امریکہ کی جی ڈی پی دوسری عالمی جنگ میں اپنے حریفوں، جرمنی اور جاپان اور سرد جنگ میں سوویت یونین اور چین سے بہت زیادہ رہی تاہم، ان دنوں چین کی جی ڈی پی امریکہ سے زیادہ پیچھے نہیں۔ امریکہ کے پاس ایشیا میں چین کے خلاف نیٹو جیسا کوئی اتحاد بھی نہیں جو چین کے بڑھتے قدموں کو روک سکے۔ عالمی معیشت میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن امریکہ، یورپ اور دیگر اتحادی ممالک کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ چین کو گھیرنے کے لیے امریکہ کے اس خطے میں متعدد اتحاد اور معاہدے اس کا واضح مظہر ہیں۔ خطے میں "را” کو کھلی چھوٹ کا مقصد بھی چینی منصوبوں کو زک پہنچانا ہے تاکہ اقوام عالم میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب امریکہ کثیر قطبی نظام کی واپسی اور اپنی مطلق العنان برتری کے کھو جانے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب امریکہ کا نہیں، چین کا وقت ہے۔ ڈالر کا دور ختم ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی عالمی بالا دستی بھی۔

 

***

 عالمی معیشت میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن امریکہ، یورپ اور دیگر اتحادی ممالک کے لیے پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ چین کو گھیرنے کے لیے امریکہ کے اس خطے میں متعدد اتحاد اور معاہدے اس کا واضح مظہر ہیں۔ خطے میں "را” کو کھلی چھوٹ کا مقصد بھی چینی منصوبوں کو زک پہنچانا ہے تاکہ اقوام عالم میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب امریکہ کثیر قطبی نظام کی واپسی اور اپنی مطلق العنان برتری کے کھو جانے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اب امریکہ کا نہیں، چین کا وقت ہے۔ ڈالر کا دور ختم ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی عالمی بالا دستی بھی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023