عالمی سیاست کی پیچیدگیاں

حماسکے ہاتھوں میں امریکی اسلحہ کیسے پہنچا؟

ممتاز میر

 مسلمانوں کی طرح عیسائیوں میں بھی فرقے ہیں، ۷۲ تو نہیں ہیں مگر کچھ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، وہی ویٹیکن والے۔ ان کے علاوہ پروٹسٹنٹ ہیں، باپٹسٹ ہیں اور ایوانجلیکل وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کے سب فرقے یہودیوں کے غلام ہیں سوائے رومن کیتھولک کے۔ رومن کیتھولک نہ صرف یہ کہ یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں بلکہ انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہی سب باتیں آج سے پندرہ سال پہلے ہم نے بھی اور ہمارے دوست، استاد و مربی محترم عالم نقوی نے بھی اپنے مضامین میں لکھی تھیں کہ اب یہودی امریکہ کو برباد کر دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی کیتھولک امریکہ کے تخت اقتدار پر بیٹھتا ہے تو یہودیوں کی حالت خراب ہونے لگتی ہے۔ اس سے پہلے جان ایف کینیڈی جو کیتھولک تھے ۶۰ کی دہائی میں امریکہ کے صدر بنے تھے اور اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ انہیں یہودیوں نے چین کو سپاری دے کر قتل کروایا تھا۔ اسی سپاری کے نتیجے میں چین کو اٹامک پاور بھی بنانا پڑا تھا۔ اسی دن یہودیوں کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اگر وہ چین ہی کو اپنا Base بنا لیں تو کیسا رہے گا؟ کیونکہ چین کا تعلق کسی آسمانی مذہب سے نہیں ہے، یعنی چین انہیں کم سے کم مذہب کی بنیاد پر تو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ مگر یہودیوں کی سرشت ہی یہ ہے ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ سازشیں کرتے رہنا ان کے خمیر میں شامل ہے۔انہوں نے دھیرے دھیرے اپنا سرمایہ چین منتقل کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف انہوں نے امریکہ کو برباد کرنے کے بھی جتن کیے۔ جب امریکہ کے تخت اقتدار پر ان کا غلام جارج بش متمکن ہوا تو انہوں نے خود امریکی ایجنسیوں کی مدد سے ۱۱؍۹ ایجاد کیا۔ لالی پاپ یہ دیا گیا کہ اس طرح مسلم ممالک کو برباد کر کے ان کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ اس دوران افغانستان پر امریکہ کے ہی پرورش کردہ طالبان قبضہ جما چکے تھے۔ غالباً یہودیوں نے ہی افغان سرزمین میں دفن قیمتی معدنی ذخائر کی طرف بھی امریکہ کو متوجہ کیا تھا۔ امریکہ نے سستے داموں ان ذخائر کو حاصل کرنے کی کوشش کی جسے طالبان نے ماننے سے انکار کردیا۔ وہ اڑ گئے اور امریکہ کی تمام دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر مار دیا۔ اس طرح یہودیوں نے امریکہ کو افغانستان کی اس دلدل میں دھکیل دیا جہاں سے آج تک کوئی سپر پاور سرخ رو ہوکر نکل نہیں سکا۔ پھر جو ہوا دنیا نے دیکھ لیا۔ اس طرح امریکہ کی سپر پاوری بھی گئی اور وہ آج دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے۔
   پچھلی دو دہائیوں میں امریکہ کا جو بھی نقصان ہوا کیا وہ امریکیوں نے نوٹس نہیں کیا ہوگا؟ یہودی دنیا کی چالاک ترین قوم سہی مگر عیسائی بھی کیا کم ہیں؟ کیا امریکہ کی سپر پاوری مجرد یہودیوں کی رہین منت تھی؟ امریکہ میں ہزاروں تھنک ٹینکس ہیں، تو کیا سب یہودیوں کے دَم پر چل رہے ہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چاند پر کمندیں ڈالنے والوں نے سوچا ہی نہ ہو کہ دنیا کی دو عظیم جنگیں کیوں ہوئیں؟ دونوں جنگوں میں مرنے والے کروڑوں لوگ کون تھے اور جنگ کی یہ آگ کس نے بھڑکائی تھی؟ ہٹلر یا جرمنوں کو اس طرف کیوں دھکیلا گیا تھا؟ کیا وہ نہیں سمجھ سکتے کہ کروڑوں عیسائیوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے والے اب مسلمانوں کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کو اب عقل آئی ہے۔ اس لیے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی رومن کیتھولک ہیں اور ہٹلر کے جرمنی میں بھی سب سے بڑی تعداد کیتھولک فرقے کی ہی ہے اسی لیے جرمنی بھی موجودہ تنازعے میں زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے ۔جو بائیڈن اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں اگلی ٹرم کا صدر نہیں بننا ہے، اس لیے جو ہونا ہے اسی ٹرم میں ہونا ہے۔ پھر اس سے اچھا موقع پھر کہاں؟ پچھلے ۱۶ سالوں سے اسرائیل نے غزہ کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ کئی سالوں سے مسلسل مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی جاری ہے۔ فلسطینی روز لاشیں اٹھا رہے تھے۔ بنجامن نتن یاہو اسرائیلی تاریخ کے غیر مقبول ترین حکمراں ہیں۔ عوام و خواص کیا فوج بھی ان کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔ اور یہی وہ موقع تھا جس کا بائیڈن انتظار کر رہے تھے۔ نتن یاہو اپنی گفتگو میں بائیڈن کے لیے بھی توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرتے رہتے تھے جنہوں نے حماس کو ہتھیار اور ٹریننگ دے کر اسرائیل پر چھوڑ دیا ہے سارے اگلے پچھلے بدلے چکانے کے لیے ورنہ مجاہدین کے ہاتھوں میں امریکی اسلحہ کا پہنچنا کیسے ممکن تھا؟ کچھ باخبر کہتے ہیں کہ یہ طالبان کو مال غنیمت میں ملنے والا اسلحہ ہے جبکہ افغانستان میں امریکہ نے چھوٹا اسلحہ چھوڑا ہی نہیں، صرف وہی ہتھیار چھوڑے ہیں جنہیں فوری طور پر وہاں سے ہٹانا ممکن نہیںتھا۔ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ افغانستان تو Land Locked ملک ہے غزہ تک وہاں کا اسلحہ کیسے پہنچا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مجاہدین کے ہتھیاروں کا افغانی امریکی ہتھیاروں سے کوئی تعلق نہیں۔یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکہ عراق و شام سے اسرائیل کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غزہ پہنچاتا رہا اور وہیں کہیں حماس کے مجاہدین کو تربیت بھی دیتا رہا، ورنہ بحر وبر اور فضا سے حملہ اتنا آسان تو نہیں تھا۔ مصر کا حکمراں چونکہ یہودی ماں کا بیٹا اور اسرائیل کا غلام ہے اس لیے اس ذریعے سے بھی اسلحے کا غزہ پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ گزشتہ عشرے کے دوران امریکی بیانات گفتار سے زیادہ کچھ نظر نہیں آرہے ہیں۔ معلوم نہیں کتنے بحری بیڑے امریکہ سے روانہ کیے جا چکے ہیں مگر وہ غزہ و اسرائیل کے پانیوں میں آکر نہیں دیتے۔
   گزشتہ دس دنوں میں ہمیں جو کچھ نظر آیا وہ یہ ہے کہ پوری دنیا اب یہودیوں سے بلکہ صیہونیوں سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ اس لیے حماس کے کاندھے کے استعمال سے سب خوش ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ ہم گیدڑ بھپکیاں دیتے رہیں گے تم فکر نہ کرنا۔ شاید اب دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ بچے ہیں سرفروش اور ایمان فروش۔ غالباً دنیا میں دو چار ہی ملک ہوں گے جو خدا کو نہ مانتے ہوں۔ اب تو روس بھی انکار خدا سے توبہ کرکے آرتھوڈوکس عیسائی بن گیا ہے۔ تو ساری دنیا کو چاہیے کہ خدا کے نافرمانوں سے انبیاء کے قاتلوں سے بزعم خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے والوں سے اس زمین کو پاک کریں۔ مگر حماس سے لاکھوں گنا زیادہ طاقت رکھنے والے حماس کی آڑ سے تیر چلا رہے ہیں، آخر کیوں؟ وہی وہن کی بیماری جس سے حضور (ﷺ) نے مسلمانوں کی متنبہ کیا تھا مگر آج ساری دنیا اس میں مبتلا ہے۔
آئیے اب عالم اسلام کی صورتحال پر بھی کچھ گفتگو کرلیں۔ حماس کے حالیہ اقدام سے سب سے زیادہ کسی کے ہوش اڑے ہیں تو وہ سعودی عرب کے سب سے زیادہ طاقتور شخص محمد بن سلمان کے ہیں۔ اور وہ اڑے ہوئے ہوش آج دس دن گزر جانے کے بعد بھی واپس نہیں آئے ہیں۔ وہ بس آئیں بائیں شائیں کرکے کام چلا رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جن کے پیروں میں گر کر اپنے باپ کے جانشین بنے ہیں، انہوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے۔ وہ منزل بس آنے ہی والی تھی کہ حماس نے کمند توڑ دی۔ اب دوبارہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں معلوم نہیں کن کن ذلتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ان کے تو ہوش ٹھکانے آنا مشکل ہے۔ ہمیں ان سے کچھ غرض بھی نہیں۔ حضور (ﷺ) کی پیش گوئی کے مطابق ہم ان کی بربادی طے سمجھتے ہیں۔ہماری اصل شکایت تازہ تازہ بنے امیر المومنین جناب رجب طیب اردگان سے ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ نہ صرف ترکی کی اپوزیشن کو بلکہ پورے یورپ کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ وہ ترکی کی طاقتور فوج کو بیرکوں میں پہنچا چکے ہیں۔ کمالزم کا بھرکس نکال چکے ہیں۔ فتح اللہ گولن (جو کبھی ان کے دوست تھے) امریکی اسپانسرڈ فوجی بغاوت کو اپنے صرف ایک پیغام سے ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ کردوں کی دہشت گردی کو بھی بڑی کامیابی سے کاؤنٹر کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ان کے بڑے کارناموں میں سے ہیں مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اسرائیل کو اپنی تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار کسی سے معافی مانگ کر اموات کا معاوضہ دینا پڑا تھا۔اور اس کا سہرا جناب رجب طیب اردگان کے سر جاتا ہے۔ یہ کامیابی آج تک امریکہ کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ فریڈم فلوٹیلا میں تو صرف ۹ ترک شہید ہوئے تھے، اور اب؟ تو کیا صرف ترکوں کے مفاد کی خاطر جناب امیر المومنین بننے چلے ہیں۔ اسرائیل نے اب تک فلسطین کے تعلق سے اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کو ٹھوکر میں اڑایا ہے اس کے علاوہ ICC کے احکامات کو بھی وہ نہیں مانتا۔ان کو بنیاد بنا کر مسلم ممالک کو اس پر حملے کا جواز حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے مودی کی طرح اردگان کے بھی کچھ بھونپو اخبار ہیں جو ان کا گن گان کرتے رہتے ہیں۔ ڈیلی صباح کا مطالعہ کریں، روزانہ کی خبریں کچھ اس طرح ہوتی ہیں۔ پچھلی شش ماہی میں اتنے ٹورسٹ بڑھ گئے۔ پچھلی سہ ماہی میں برآمدات اتنی بڑھ گئیں۔ اب سعودی اور امارات کے ساتھ ساتھ فلاں فلاں یورپین ممالک بھی ترکی کا ڈیفنس سسٹم خرید رہے ہیں۔ فلاں فلاں ممالک ترکی کے ڈرون درآمد کر رہے ہیں۔ اچھا ہوا کہ حماس نے اس نام نہاد ترقی کی پول کھول دی ورنہ ان خبروں کی بنیاد پر تو ہم خوش فہمیوں کے آسمان پر جا بیٹھتے۔
   اب بھی وقت ہے ترکی چاہے تو اسرائیل کو اس کی اوقات یاد دلا کر مسلم امت میں اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرسکتا ہے۔ آج تو اسے ہر ہندوستانی مسلم نو جوان گالی دے رہا ہے۔ جب امیدیں خوب پل کر سخت ہوجائیں اور پھر وہ ٹوٹنے لگیں تو یہی ہوتا ہے۔ انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہم ہندوستانی ہی تھے جن کی خواتین نے خلافت کی بقا کے لیے اپنے جسموں سے زیور اتار کر دے دیےتھے۔ یہ بہترین وقت ہے جب ساری دنیا ہی صیہونیت سے تنگ نظر آرہی ہے مگر کوئی بھی گفتار سے آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
 اب چین پر بھی بات کر لیں۔ فی الوقت یہودیوں کا سب سے زیادہ پیسہ چین میں لگا ہوا ہے، پھر چین کیوں فلسطینیوں کی حمایت میں بیان دے رہا ہے؟ پہلے تو یہ کہ بدھ ازم کو دیس نکالا دینے والے یہودیوں کے بھائی بند برہمن تھے۔ اسی لیے شی جن پنگ مودی کو گلے لگانے کے باوجود زمین ہڑپنا نہیں چھوڑتا۔پھر شی جن پنگ کا تعلق کسی آسمانی مذہب سے تو ہے نہیں جو وہ ان صیہونیوں کو chosen people of god سمجھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان یہودیوں کا پیسہ استعمال کر کے جن پنگ دشمن کے ساتھ کیوں ہے اور آخر یہودی چپ کیوں ہیں؟ شاید وہ شی جن پنگ کو دوسرا ہٹلر نہیں بنانا چاہتے اور آخر وہ کب تک اور کہاں تک بھاگتے پھریں گے؟ ساری دنیا ہی چہرے پہ مسکراہٹ سجا کر دل سے ان کے خلاف ہے ۔
ہمارے نزدیک اس دنیا کے کم و بیش سارے ہی حکمراں کوئی غیر انسانی مخلوق ہیں۔ یہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے حماس کے چند لاکھ کیا کروڑوں انسانوں کو کٹوا سکتے ہیں۔ اس محل پر ہمیں جمال خشوگی کی یاد آرہی ہے ۔یہ ایک سعودی امریکی صحافی تھا جسے ترکی کے سعودی سفارت خانے میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ امریکہ، ترکی اور بہت سے ممالک کو یہ خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر جمال خشوگی نے سفارت خانے میں قدم رکھا تو اسے مار دیا جائے گا مگر کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی کیوں؟ کیونکہ ہر سربراہ حکومت کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اس کا قتل درکار تھا اس کی زندگی نہیں۔ اسے قتل ہونے دیا گیا پھر ہر ایک نے اپنے اپنے حساب سے محمد بن سلمان کا بازو مروڑنا شروع کیا۔ بالکل اسی طرح ان غیر انسانی حکمرانوں کو ایک دوسرے سے دشمنی نکالنے کے لیے بھی کسی کمزور فرنٹ مین کی تلاش رہتی ہے جس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنی دشمنی نکالی جائے۔ یہ نہ اپنی دوستی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں نہ اپنی دشمنی سے۔ عیسائی ممالک کو وہ کمزور فرنٹ مین حماس کی شکل میں ملا۔ اب اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو فتح طاقتوروں کی ہوگی اور اگر ناکام ہوتا ہے تو شکست تو کمزور کی ہوگی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023