عالمی حدت ۔خطرہ کی ایک گھنٹی
شہروں کی توسیع، درختوں کی کٹائی، تالابوں اور آبی ذخیروں کی بھرائی سے گرمی کو جذب کرنے کے وسائل کا فقدان
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
تباہی نظر آنے کے باوجود حضرتِ انسان فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑترک کرنے پر آمادہ نہیں!
انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (IPCC) کی حالیہ رپورٹ برائے کرہ ارض کی گرمی اور تپش نے کہرام برپا کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین پر بنی نوع انسان کا جینا دوبھر ہورہا ہے۔ اس جامع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2030پر خطرزندگی گزارنے کا سال ہوگا۔ کیونکہ انسانوں کو گرین ہاوس گیسوں کو کم از کم نصف حد تک لازماً لانا ہوگا اور 2050تک اس کے اخراج کو کلی طور پر روکنا ہوگا۔ اب تو ساری دنیا طرح طرح کی تباہیوں کا سامنا کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی ٹائم بم ٹک ٹک کررہا ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح دو ہزار سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین موسمیات ہمیں بار بار خبردار کررہے ہیں کہ آنے والی تباہی سے محفوظ رہنے یا گلوبل وارمنگ کو 1.5ڈگری تک رکھنے کے امکانات کا اثر بھی کم ہوگا۔ اس لیے ہم ہر سال دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ گرمی کے ریکارڈ قائم ہوتےجارہے ہیں۔ لوگ سمجھیں یا نہ سمجھیں گلوبل وارمنگ میں اضافہ کئی طرح کے خطرات کا باعث ہوگا اور پھر اسے کم کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔ مثلاً آب و ہوا پر انحصار کرنے والی خوراک اور غذائی اشیا کاعدم تحفظ اور فراہمی میں عدم استحکام کا ہونا لازمی ہے۔ بڑھتے ہوئے گلوبل وارمنگ کی وجہ سے غیر موسمی خطرات کے پیدا ہونے کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شہروں کی زبردست وسعت، درختوں کی کٹائی، تالابوں اور آبی ذخیروں کی بھرائی سے گرمی کو جذب کرنے کے وسائل کا فقدان، وبائی امراض اور تنازعات کے بڑھنے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔
دنیا خوراک اور پانی کے تحفظ کے خطرات سے نبرد آزما رہی ہے۔ دنیا کی نصف آبادی کو موسمی اثرات کے امتزاج سے سال میں کئی ماہ پانی کی زبردست کمی کا سامنا رہتا ہے۔ اور2050تک دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پانی کی قلت کا سامنا کرے گی اور لوگوں تک قابل استعمال پانی کی فراہمی اور رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ دنیا کے بیشتر علاقوں میں شرح اموات میں اضافہ اصلاً خراب پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہوگی۔ پانی کی کمی اور بیماریوں کی کثرت دراصل تپش میں اضافہ کے باعث ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ تپش نقل مکانی پر مجبور ہونے والے بے گھر افراد کو اس جہنم تک پہنچانے کی ذمہ دار ہوگی۔ اس سے گرمی کی مرکب لہریں (Combined Heat Waves)اور خشک سالی کی متواتر آمد کا امکان بھی بڑھتا رہے گا۔ گلوبل وارمنگ میں تیزی کا ہر اضافہ خطرات کو مزید بڑھا دے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے تاخیر سے کیے گئے اقدامات کے باعث عالم انسانیت کی ابھی تک کی تمام ترجدوجہد رائیگاں جائے گی۔
واضح رہے کہ ماحولیات میں گرین ہاوس گیسوں کے اضافے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ تیزی سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا اندیشہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور موسمیاتی آفات آئے دن رونما ہورہے ہیں مثلاً جنگل میں آگ سمندری طوفان، قحط سالی اور سیلاب کے علاوہ بے موسم بارش کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ مثلاً آسٹریلیا اور کینیڈا کے جنگلوں میں آگ لگنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ جنگل تباہ ہوجاتے ہیں اور لاکھوں لوگ فضائی آلودگی کا شکار بنتے ہیں۔ چند دنوں قبل فضائی آلودگی اور دھویں سے لوگوں کا دم گھٹ رہا تھا۔ افریقہ میں خشک سالی کا بڑھنا اور پاکستان میں خطرناک سیلاب کا بے وقت آنا اس کی مثال ہے۔ ایسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’دی گارجین‘‘ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مغربی ترقی یافتہ طاقتیں اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیں ۔ ویسے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ٹھوس سائنسی معلومات کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی شفاف، محفوظ اور سستے توانائی کے متبادل کی کمی ہے جیسا کہ( Intergovernmental Panel on Climate Change (IPCC نے گزشتہ سال موسمیاتی تبدیلی کے ضمن میں کہا تھا کہ ہمیں حیاتیاتی ایندھن (Fossil Fuel) تیل، گیس یا کوئلہ پر انحصار کم کرتے ہوئے مہم کا آغاز کرنا ہوگا مگر رکاوٹ فوسل فیول کے مفادات پر منحصر ہے جو منافع کو عوام کے مفاد سے مقدم رکھتا ہے۔ بین الاقومی سطح پر اوپیک اور بڑی بڑی تیل کمپنیاں کئی دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے اثرات پر بات تو کررہی ہیں مگر نتیجہ صفر ہی رہا۔ دراصل تیل اور گیس کمپنیوں کے اربوں ڈالر کے کاروبار پر زد پڑنے کا اندیشہ ہے اس لیے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی کمائی بند ہو۔ وہ اس کے لیے رابطہ عامہ کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں فوسل فیول ہی محفوظ اور معقول ترقی کا ذریعہ ہے۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ مرحلہ وار فوسل فیول کی جگہ متبادل کے طور پر شفاف توانائی کو بطور ایندھن کام میں لگایا جائے۔ اسی وجہ سے سونوبل انعام یافتگان اور تین ہزار سے زائد سائنس داں فوسل فیول کی جگہ شفا ف توانائی کو کام میں لانے پر زور دے رہے ہیں۔
دوسری طرف انسان فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرنے سے بازنہیں آرہا ہے۔ وہ اپنی خود غرضی کے لیے قدرتی ذرائع و سائل بے دریغ کا استعمال کررہا ہے جو اس کے لیے وبال جان بنتا جارہا ہے۔ اگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آئے تو طوفان کی وجہ سے بھارت کے ساحل پر آباد شہروں میں لوگوں کی زندگی کو تباہی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی 2019میں ہونے والے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (IPCC)کے اجلاس کے ایک خصوصی اوشیئن اینڈ کرایو اسفیر ان چینجنگ کلائمنٹ کے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے سمندر 1970سے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج سے پیدا شدہ 900فیصد سے زیاہ درجہ حرارت کو جذب کرچکے ہیں جس کی وجہ سے سمندر کا مزاج گرما رہا ہے۔ اسی وجہ سے سائیکلون تواتر سے خطرناک اور بھیانک روپ میں آرہے ہیں۔ گزشتہ سال 2020میں نوار، طوفان سے قبل خلج بنگال میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندر کے پانی کا درجہ حرارت زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔ اس وقت سطح سمندر کا اوسط درجہ حرات 0.5تا ایک ڈگری زیادہ ہی تھا۔ یاد رہے کہ سمندر کے درجہ حرارت میں محض 0.1فیصد کے اضافہ سے طوفان کو زیادہ توانائی ملتی ہے۔
یوروپین یونینس کو پرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کا کہنا ہے کہ جون 2023میں درجہ حرارت میں اضافہ کا تمام تر ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔ امسال جون میں درجہ حرارت 1991اور 2020کے درمیانی سالوں کے مقابلے 0.5 ڈگری زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے لو، قحط ، سیلاب کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور سطح سمندر بھی بلند ہوگی جو منفی طور پر معیشت کو بھی متاثر کرے گی۔ گزشتہ ہفتہ کے چند دنوں کا اوسط درجہ حرارت اس قدر بڑھا ہوا دیکھا گیا جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پیر تین جولائی کو پہلی مرتبہ عالمی یومیہ درجہ حرارت 17ڈگری سے اوپر رہا۔ جو اس کرہ ارض پر گرم ترین دن درج کیا گیا۔ مگر منگل اور بدھ کو یہ درجہ حرارت بڑھ کر 17.8ہوگیا۔ یونیورسٹی آف مینس کلائمنٹ ری انالائیزر کے ڈیٹا کے مطابق یہ گرم ترین دن تھا یہ اوسط چین کے شہر جینرنگ کی سخت تپش اور انتارتیکا کے منفی درجہ حرارت کا اوسط ہے۔ تپش کا یہی حال رہا تو اس صدی کے اخیر تک 80فیصد ہمالیائی گلیشیئرز پگھل جائیں گے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین اور برف سے ڈھکے خطے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان پہاڑی علاقوں کے 200گلیشئر جھیلیں خطرات سے دوچار ہیں۔ اس لیے منصوبہ سازوں کو اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023