اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بحران، ذمہ دار کون؟

بنگال میں 31سرکاری یونیورسٹیاں 6ماہ سے مستقل وائس چانسلروں کے بغیر کام کر رہی ہیں

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ریاستی یونیورسٹیوں میں اختیارات کے تعلق سے گورنر ہاوس اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان فی الحال خاموشی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے 6؍ اکتوبر کے فیصلے میں گورنر اور ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلروں کے ذریعہ من مانی طریقے سے عبوری وائس چانسلروں کی تقرری پر روک لگادی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مقرر کردہ وائس چانسلروں کے اختیارات اور مالی فوائد پر بھی روک لگا دی ہے۔ سپریم کورٹ اس بات پر حیران ہے کہ تعلیم جیسے اہم معاملہ میں دو آئینی عہدیدار وزیر اعلیٰ اور گورنر بیٹھ کر اس مسئلے کو کیوں نہیں سلجھا پا رہے ہیں؟ ریاست اور گورنر ہاوس کے درمیان تنازع اور اختلافات سے تعلیمی اداروں کے کیمپس دو حصوں میں منقسم ہیں۔ اس پورے تنازع کا فلیش پوائنٹ 13؍ اکتوبر کو اس وقت نظر آیا جب ملک کی نامور یونیورسٹیوں میں سے ایک جادو پور یونیورسٹی (جادو پویونیورسٹی کے مالی بحران پر ہفت روزہ دعوت کے جنوری کے شمارے میں تفصیلی رپورٹ ملاحظہ کریں) کے کارگزار وائس چانسلر، رجسٹرار اور ایگزیکٹیو کمیٹی کے دیگر ممبران طلبا کے خلاف دو دنوں سے زائد وقفے تک احتجاج پر بیٹھے رہے۔ یہ واقعہ بھارت کی تعلیمی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اس واقعہ نے بنگال کے تعلیمی نظام کی بدحالی اور بحران کو اجاگر کر دیا ہے اور یہ سب ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کے نمائندے گورنر کے درمیان بالادستی کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ 31 ریاستی سرکاری یونیورسٹیاں 6 ماہ سے زائد عرصے سے مستقل وائس چانسلر کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات صرف بنگال میں نہیں، کیرالا، تمل ناڈو، راجستھان اور اپوزیشن کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں میں کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ گورنر وفاق کی علامت ہونے کے بجائے متوازی حکمرانی میں مصروف ہیں۔ ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی تقرری کو ریاست اور گورنر ہاوس دونوں نے اپنی انا کا سوال بنالیا ہے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین اور گورنر عارف محمد خان کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ ریاستی اسمبلی سے منظور کیے گئے آٹھ بلوں پر گورنر دستخظ نہیں کر رہے ہیں۔ کیرالا حکومت کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کیے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان بلوں میں ایک یونیورسٹی لا (ترمیمی) بل بھی شامل ہے۔ اس بل کو کیرالا اسمبلی نے 13 دسمبر 2022 کو پاس کیا تھا۔ گورنر کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کی تقرری کا پورا عمل رک سا گیا ہے۔ کم وبیش یہی صورت راجستھان میں بھی تھی۔ گورنر جو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں، ان کی من مانی اور یکطرفہ اختیارات کے استعمال کو روکنے کے لیے راجستھان اسٹیٹ فنڈڈ یونیورسٹیز بل اسمبلی سے پاس کیا گیا۔اس بل کا مقصد یہ تھا کہ وائس چانسلروں کی تقرری کا اختیار وزیر اعلیٰ کو منتقل کر دیا جائے اور گورنر کو چانسلر کے عہدہ کے بجائے تمام سرکاری یونیورسٹیوں کا وزیٹر بنایا جائے۔ مہاراشٹر میں پچھلی ایم وی اے حکومت نے وائس چانسلروں کی تقرری میں چانسلر کے کردار کو محدود کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کی تھی، حالانکہ موجودہ حکومت اس کے خلاف ہے۔ تلنگانہ میں بھی وائس چانسلروں کی تقرری کے اختیارات کے معاملے میں گورنر کے کردار پر تنقید ہو رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے گورنر کو یونیورسٹیوں کے چانسلر کے عہدے سے ہٹانے کا بل گورنر کی منظوری کے لیے راج بھون بھیج دیا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت ملک بھر کے تعلیمی ادارے بحران کے شکار ہیں۔اختیارات کی جنگ نے تعلیم کے شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ مگر بنگال میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی نوعیت میں بالکل الگ ہے۔ ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکر جب بنگال کے گورنر تھے اس وقت ہی یہ تنازع شروع ہوگیا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت 24 یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کی تقرری کے دوران مناسب طریقہ کار پر عمل نہیں کیا تھا۔ حکومت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بنگال اسمبلی میں بل پاس کیا جس میں گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کو ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ جگدیپ دھنکر نے نہ اس بل کو واپس کیا نہ صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا۔ اس درمیان دسمبر 2022 میں سپریم کورٹ نے وائس چانسلروں کے انتخاب کے لیے سرچ/سلیکشن کمیٹیوں میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ایک نامزد ممبر کو شامل کرنے کی ہدایت دی ۔اس کے بعد اس سال مارچ میں بنگال میں تمام ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں نے اپنی مدت مکمل ہونے کی وجہ سے اپنے عہدوں س استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت کے مشورے کے بعد گورنر نے وائس چانسلروں کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کردی مگر جون میں یہ مدت مکمل ہونے کے باوجود وائس چانسلروں کی تقرری کے طریقہ کار کا مسئلہ نہیں ہوسکا، چنانچہ ریاستی حکومت نے تمام وائس چانسلروں کی مدت میں 6 ماہ کی مزید توسیع کرنے کی سفارش کی لیکن گورنر نے اس سفارش پر عمل کرنے کے بجائے اپنے طور پر عبوری وائس چانسلروں کی تقرری شروع کردی۔ اس کے لیے نہ انہوں نے ریاستی حکومت سے مشورہ کیا اور نہ وائس چانسلر کے عہدہ کے لیے طے کے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل کیا۔ انہوں نے جواز پیش کیا کہ عبوری وائس چانسلر کے لیے اس ضابطہ اخلاق پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔
بنگال میں وائس چانسلر کے تنازع کا قانونی پہلو
سوال یہ ہے کہ آخر ریاستی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کی تقرری میں مسئلہ کیا ہے۔ دراصل تعلیم ریاست کا مسئلہ ہے۔ ریاستی حکومتیں چاہتی ہیں کہ جب وہ تعلیم کے اخراجات برداشت کرتی ہیں تو اختیارات بھی انہیں کو حاصل ہونے چاہئیں۔گزشتہ 12 سالوں میں ریاست میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے بجٹ کا 95 فیصد سے زیادہ حصہ فراہم کرتی ہے مگر ان یونیورسٹیوں کے چانسلر گورنر ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کی ذمہ داریاں گورنر پر نہیں ہوتیں مگر اختیارات ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عدم توازن ہے۔چنانچہ جب گورنر نے چانسلر کے عہدے کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے طور پر عبوری وائس چانسلروں کی تقرری کا عمل شروع کیا تو وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے دھمکی دی کہ وہ یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روک دیں گی۔
2014 سے قبل ریاستی یونیورسٹی کے وائس چانسلروں کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی میں تین ممبرز شامل ہوتے تھے۔ ایک ممبر چانسلر نامزد کرتا تھا، ایک متعلقہ یونیورسٹی نامزد کرتی تھی اور ایک یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نامزد کرتی تھی۔ 2014میں ریاستی حکومت نے مغربی بنگال یونیورسٹی لاز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یو جی سی کے نامزد کردہ ممبر کو ریاستی حکومت کے نامزد شخص سے تبدیل کر دیا۔ 2022میں سپریم کورٹ نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ایک نامزد ممبر کو سرچ کمیٹی میں لازماً شامل کرنے کی ہدایت دی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس سال مئی میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ریاستی حکومت نے وائس چانسلروں کی تقرری کے لیے تین رکنی کمیٹی کی جگہ پانچ رکنی کمیٹی تشکیل کا ضابطہ طے کیا۔اس کمیٹی کا چیرمین چانسلر کے نامزد کردہ ممبر کو بنانے کی تجویز پیش کی گئی، باقی ممبروں میں وزیر اعلیٰ کا ایک نامزد کردہ، یو جی سی کا ایک نامزد کردہ، ریاستی حکومت کا ایک نامزد، اور مغربی بنگال اسٹیٹ کونسل برائے اعلیٰ تعلیم کا ایک نامزد کردہ ممبر شامل ہونا تھا۔اس طرح وائس چانسلر کی تقرری میں ریاستی حکومت کی رائے اہم ہوجاتی لیکن گورنر نے اسے ابھی تک منظوری نہیں دی ہے جس کے نتیجے میں 31ریاستی یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلروں کے انتخاب کا عمل شروع نہیں ہوسکا ہے۔ گورنر نے اس بل پر دستخط کرنے یا ریاستی حکومت کو واپس بھیجنے کے بجائے اس فائل کو روک رکھا ہے اور اس کی وجہ سے وہ عبوری وائس چانسلروں کی تقرری کر رہے ہیں۔
گورنر اور حکومت کے درمیان رسہ کشی کی قیمت یونیورسٹیاں چکارہی ہیں
اس وقت پورا قضیہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے مستقل وائس چانسلروں کی تقرری کے لیے ریاستی حکومت، گورنر اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی سرچ کمیٹی کے لیے نام طلب کیے ہیں جس پر فیصلہ آنا باقی ہے مگر گزشتہ کئی مہینوں سے یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ اس وقت ریاستی یونیورسٹی میں انرول منٹ میں کمی، اساتذہ کی کمی، اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یونیورسٹی کا بانی ایکٹ وائس چانسلر کے دفتر میں بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے، وہ تمام قانونی کمیٹیوں کے چیئرپرسن ہیں اور تعلیمی اور انتظامی شعبوں میں قیادت کرتا ہے۔ لہٰذا سوال چاہے چھٹی کا ہو یا تدریسی عہدے کو پر کرنے کا یا نئے نصاب کی تشکیل کا یا مرمت اور دیکھ بھال کا، سب کچھ وائس چانسلر کے ذریعے ہوتا ہے۔ مستقل وائس چانسلر کے بغیر یونیورسٹیاں اتنے طویل عرصے سے بے حال ہیں۔
رابندر بھارتی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر بسوناتھ چکرورتی کہتے ہیں ریاست کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ کالج کی سطح پر طلبا کے داخلے کی شرح میں گزشتہ چند سالوں میں خطرناک حد تک کم آئی ہے۔ اگرچہ اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ہے۔ فزکس، کیمسٹری، ریاضی، سنسکرت، فلسفہ اور سیاسیات جیسے اہم مضامین میں اندراج میں 30 فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔ پروفیسر چکرورتی کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کا نظام گریجویٹس کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا نہیں کرتا نتیجہ میں ریاست کے ہونہار اور قابل طلبا چنئی، دہلی، پونے، ممبئی اور بھوبنیشور جا رہے ہیں۔ بنگال میں ایک زمانے میں بڑی تعداد میں دیگر ریاستوں کے طلبا آتے تھے مگر آج بنگال میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی مانگ میں بھی زبردست کمی آئی ہے۔ 1980کی دہائی میں شمال مشرقی علاقے کے طلبا کی ایک بڑی تعداد بنگال کے کالجوں میں داخلہ لیتی تھی، لیکن اب وہ کہیں اور جا رہے ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی میں گریجویٹ کو چار سالہ کر دیا گیا ہے اور بنگال سمیت ملک کی بیشتر ریاستوں نے اس کو تسلیم کرلیا ہے۔ چار سالہ کورس کرنے سے قبل ضروری تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹی میں انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جاتا۔ آل بنگال یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر پروفیسر ترون نسکر کہتے ہیں کہ چار سالہ انڈرگریجویٹ ڈگری کا نیا نظام خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔کالجوں میں سب انفراسٹرکچر اور اساتذہ کی تعداد میں بے انتہا کم ہے۔ اب ایک سال کا اضافہ بوجھ بڑھنے کی وجہ سے مزید بحران پیدا ہوگیا ہے۔ طلبا پیشہ ورانہ کورسز کی طرف جا رہے ہیں۔
بنگال میں 2011 تک یونیورسٹیوں کی تعداد محض 13 تھی لیکن گزشتہ 11 سالوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد 31تک پہنچ گئی ہے لیکن ان میں سے بیشتر یونیورسٹیاں مالی بحران اور فنڈز کی قلت سے پریشان ہیں۔ ان میں کئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں طلبا کی ناکافی تعداد ہے۔ بنگال کی یونیورسٹیوں میں ایک اور بڑا مسئلہ اساتذہ کی شدید کمی بھی ہے۔ ایک حالیہ مطالعہ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کلکتہ یونیورسٹی میں اساتذہ کے تقریباً 50 فیصد عہدے خالی ہیں (793 میں سے 398 عہدے) رابندر بھارتی یونیورسٹی میں 39 فیصد عہدے خالی ہیں۔جادو پور یونیورسٹی میں 28 فیصد (868 میں سے 243) ریاست میں اوسطاً دو تہائی سرکاری کالجوں میں کوئی مستقل پرنسپال نہیں ہے اور اساتذہ کی تقریباً ایک تہائی پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ سینئر اکیڈمک اور سابق ریاستی وزیر دیباسیش داس کہتے ہیں کہ اس وقت گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی ہے اس کی وجہ سے تعلیمی نظام بحران کا شکار ہے ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ یونیورسٹیاں نئی قومی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہیں، کل وقتی وائس چانسلروں کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماہر تعلیم اور آل انڈیا فیڈریشن آف یونیورسٹی اینڈ کالج ٹیچرز آرگنائزیشن کے نیشنل ایگزیکٹیو ممبر دیباسیش سرکار کہتے ہیں کہ تعلیمی نظام میں خرابی کا اندازہ اسکول کی سطح تک لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب پورے ملک میں طلبا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا تھا، بنگال میں دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات کے بعد لاکھوں طلبا نے تعلیم ترک کر دی تھی، اس کی عکاسی 12ویں جماعت کے اندراج سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے کووڈ کے دوران رونما ہونے والے حالات کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ سچی تصویر نہیں ہے۔ تعلیمی نظام میں ایک بیماری داخل ہو چکی ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تعلیم ریاستی حکومت یا مرکز ی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا فیصد پچھلے 10 سالوں میں کم ہو رہا ہے۔ 2013 میں یہ 3.95 فیصد تھا جو 2023 میں کم ہو کر 2.52 فیصد رہ گیا ہے۔ بنگال کے ماہرین تعلیم کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ نئی نئی یونیورسٹیوں کا قیام ایک سیاسی فیصلہ ہے۔اصل یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم اور انفراسٹکچر بہتر بنا کر کیمپس میں تعلیمی ماحول قائم کرنا ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
مرکزی وزارت تعلیم کے ذریعہ جاری کردہ نیشنل انسٹیٹیوٹ رینکنگ فریم ورک کے مطابق جادو پور یونیورسٹی ملک کی سطح پر ریکنگ 4 ہے۔ یہ بنگال کی واحد یونیورسٹی ہے جو ٹاپ 10 میں ہے۔ مشہور کلکتہ یونیورسٹی 12ویں نمبر پر ہے۔ 86ویں نمبر پر بردوان یونیورسٹی اور 97ویں نمبر پر مرکزی یونیورسٹی وشو بھارتی ہے۔ جادو پور یونیورسٹی اور کلکتہ یونیوریورسٹی جیسے تاریخی ادارے انفراسٹکچرکی قلت کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں یونیورسٹیوں میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جادو پور یونیورسٹی جس کے سالانہ بجٹ میں ریاستی حکومت نے نمایاں کمی کی ہے 60 کروڑ روپے بجٹ میں کٹوتی کرکے 21 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ فنڈنگ کی قلت کے باوجود جادو پور یونیورسٹی اپنی بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔ ایک طالب علم کی ریاگنگ کی وجہ سے موت کے بعد دائیں بازو، بی جے پی اور ترنمول کانگریس نے جادو پور یونیورسٹی کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ یہ سب اس لیے کہ یہاں طلبا کی سیاست پر بائیں بائیں بازو کے حامی طلبا تنظیموں کا غلبہ ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کے ذریعہ قائم کردہ قومی اہمیت کی حامل وشو بھارتی یونیورسٹی میں صورت حال کوئی بہتر نہیں ہے۔ مرکزی یونیورسٹیوں کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوششوں کی وجہ سے اس وقت بیشتر مرکزی یونیورسٹیوں میں حالات کشیدہ ہیں۔ وشو بھارتی یونیورسٹی میں بھی وائس چانسلر کے ذریعہ اس قسم کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ کے ایک بڑے حلقے نے وائس چانسلر کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ امرتیہ سین کے گھر کی زمین کو لے کر وائس چانسلر کے بیانات نے ماحول کشیدہ کر دیا ہے۔ یونیسکو کے ذریعہ وشو بھارتی یونیورسٹی کے بعض مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دینے کے بعد یادگار پتھروں پر وائس چانسلروں اور یونیورسٹی کے چانسلروں کی جانب سے وزیر اعظم مودی کے نام بڑے بڑے حروف میں لکھے گئے اور اس یونیورسٹی کے بانی رابندر ناتھ ٹیگور کا نام ہی غائب کر دیا۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ یونیورسٹی میں نظریاتی طور پر حاوی ہونے کی کوشش کس طریقے سے کی جارہی ہے۔

 

***

 سینئر اکیڈمک اور سابق ریاستی وزیر دیباسیش داس کہتے ہیں کہ اس وقت گورنر اور ریاستی حکومت کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی ہے اس کی وجہ سے تعلیمی نظام بحران کا شکار ہے ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ یونیورسٹیاں نئی قومی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہیں، کل وقتی وائس چانسلروں کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023