اعلیٰ تعلیم پانے والے مسلم طلباء کی تعداد میں گراوٹ

سال 2020-21 میں 8.5 فیصد کی کمی : رپورٹ

سماجی و اقتصادی عوامل اور دیگر رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لڑکیوں کی اسکولوں تک رسائی اور برقراری کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت
سال 21-2020  کے دوران  اٹھارہ سے تیئیس سال کی عمر کے مسلم طلباء میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد میں ساڑھے آٹھ فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس (UDISE+) اور آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن (AISHE) سے حاصل شدہ ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر تیار کردہ ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔
حال ہی میں ’’بھارت میں اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی صورتحال‘‘ کے زیرعنوان رپورٹ کے مطابق، 2019-20 میں اکیس لاکھ مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا  جبکہ 2020-21 میں ان کی تعداد کم ہو کر 19.21 لاکھ رہ گئی۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن، نئی دہلی کے سابق پروفیسر ارون سی مہتا نے یہ رپورٹ تیار کی ہے اور اس کا پیش لفظ نجمہ اختر، وائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے لکھا ہے۔
17-2016 میں 17,39,218 مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لیا تھا، 2020-21 میں یہ تعداد بڑھ کر 19,21,713 ہوگئی۔ تاہم، 2020-21 میں، اعلیٰ تعلیم میں مسلم  طلبہ کے داخلے 2019-20 کے دوران 21,00,860  سے کم ہو کر 19,21,713 رہ گئے، اس طرح مطلق طور پر 1,79,147 طلباء کی کمی کو ظاہر کیا گیا ہے۔
داخلہ لینے والے طلباء کی کل تعداد کے مقابلہ میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والے مسلم طلباء کے فیصد میں بھی معمولی کمی دیکھی گئی، جو کہ 2016-17 میں 4.87 فیصد سے کم ہو کر 2020-21 میں 4.64 فیصد رہ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اہم رجحان جو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دیکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں مسلم طلباء کے داخلے کا فیصد پچھلی کلاسوں کے مقابلے کم ہے۔ مسلم طلباء کی نمائندگی چھٹی کلاس سے بتدریج کم ہونے لگتی ہے اور گیارہویں اور بارہویں جماعت میں سب سے کم ہے۔
جبکہ اپر پرائمری سطح [کلاس VI-VIII] میں 6.67 کروڑ طلباء کے کل اندراج کا تقریباً 14.42 فیصد مسلمان ہیں، یہ ثانوی سطح [کلاس IX-X] پر 12.62 فیصد تک کم ہو کر اعلیٰ ثانوی سطح [کلاس XI-XII] پر 10.76 فیصد رہ گیا ہے” رپورٹ میں یہ بات کہی گئی۔
بہار اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں مسلم طلباء کے لیے مجموعی اندراج کا تناسب نسبتاً کم ہے، جس سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ان ریاستوں میں بہت سے مسلم بچے اب بھی تعلیمی نظام سے باہر ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ عمر کے لحاظ سے موزوں کلاسوں میں اسکول سے باہر بچوں کی شناخت اور ان کا اندراج ایک ترجیح ہونی چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ثانوی تعلیم میں داخلہ لینے والے 18.64 فیصد مسلم طلباء نے  اسکول ترک کیا جو کہ اسکول چھوڑنے والے بچوں کی مجموعی  شرح سے 12.6 فیصد سے زیادہ ہے۔ تعلیم ترک کرنے والے مسلم طلبہ میں آسام (29.52 فیصد) اور مغربی بنگال (23.22 فیصد) میں سب سے زیادہ شرح ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ جموں و کشمیر میں یہ شرح 5.1 فیصد اور کیرالا میں 11.91 فیصد ریکارڈ کی گئی  ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ بند تعاون اور جامع پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعہ سے اس فرق کو پر کرنے اور سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بہت سے مسلم طلباء کم آمدنی والے خاندانوں سے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مستحق طلبا کو مالی مدد اور تعاون فراہم کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وظائف، گرانٹس اور مالی امداد کے مواقع کی تعداد کو بڑھا کر اور واضح طور پر مسلم طلباء کو چن کر ان کے ساتھ تعاون کرکے مالی بوجھ کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے اس طرح زیادہ مستحق طلباء کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ترقی کے باوجود ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں مسلم طلباء کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے غربت جیسے مسائل سے نمٹنے، معیاری اسکولوں تک رسائی کو بہتر بنانے، مسلم خاندانوں کو مالی امداد فراہم کرنے اور مسلم کمیونٹیز میں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے ذریعہ سے ہم ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں تمام طلباء مذہب سے قطع نظر، قابلیتیں پیدا کر سکتے ہیں‘‘ رپورٹ میں یہ بات کہی گئی۔
اسکولی تعلیم کے حوالے سے اعداد و شمار مسلم طلبہ کے اندراج میں پیش رفت کو ظاہر کرتے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کا پچھلے چار سالوں میں پرائمری، اپر پرائمری اور ابتدائی سطحوں پر اچھا اندراج ہوا ہے۔ تاہم، ایک صنفی فرق اب بھی باقی ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ سماجی و اقتصادی عوامل، ثقافتی عقائد اور دیگر رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکولوں میں مسلم لڑکیوں کی رسائی اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ AISHE سروے 2020-21 نے اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلباء کی نمائندگی میں کمی کی طرف اشارہ کیا تھا، اس نے پایا کہ مسلم طلباء کا داخلہ دیگر پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے طلباء سے کم تھا۔
مہتا نے کہا کہ ان کے مطالعے نے ہندوستان میں مسلم بچوں کے بارے میں ان اشاروں (Indicators) کی گنتی کی ہے  جنہیں درکنار کیا جاتا ہے اور خاص طور پر ریاستی اور قومی سطحوں پر اسکول اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مجموعی اندراج کا تناسب، مسلم بچوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح، طلبہ کی منتقلی اور تعلیم برقرار رکھنے کی شرح کو شمار کیا گیا ہے۔ اس ڈیٹا کو ایسی پالیسیاں اور پروگرام تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو مسلمانوں کے لیے تعلیمی مواقع کو بہتر بنانے اور تعلیمی تفاوت کو کم کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ مہتا نے کہا ’’صرف ڈیٹا پر مبنی بصیرت اور شواہد پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے ہی ہندوستان اپنے تمام شہریوں بشمول مسلمانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کا اپنا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
اپنے پیش لفظ میں نجمہ اختر نے کہا کہ رپورٹ میں نہ صرف مسلم تعلیم کی موجودہ حالت کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ اس نے مسلم کمیونٹی کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں گہرے ادراک کو فروغ دینے میں ڈیٹا پر مبنی تحقیق کی طاقت کو بھی ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’اہم اشاریوں کی گنتی جیسے کہ مجموعی اندراج کا تناسب، تخمینہ شدہ مسلم بچوں کی آبادی اور منتقلی کی شرح موجودہ تعلیمی منظر نامے کی واضح تصویر پیش کرتی ہے‘‘ ایک اہم تحقیق کے تئیں جستجو، لگن اور انہماک کے لیے مہتا کی ستائش کرتے ہوئے نجمہ اختر نے نشان دہی کی کہ تعلیم ترقی دلانے اور بااختیار بنانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ انہوں نے ہر فرد کے لیے مساوی رسائی اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے پر زور دیا، چاہے اس کا پس منظر کچھ بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ نے اسکول اور اعلیٰ تعلیم دونوں سطحوں پر طلبہ کی رسائی، اندراج، صنفی مساوات اور تعلیم برقرار رکھنے کی شرحوں پر روشنی ڈالنے والے قیمتی اشارے فراہم کیے ہیں۔
مہتا نے راجستھان یونیورسٹی، جے پور سے آبادیاتی تخمینوں میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں ایجوکیشنل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (EMIS) کوانٹیٹیو تکنیک اور پروجیکٹس اور تعلیمی ڈیٹا کی پیش گوئی کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں اور ای-گورننس 2010اور ای-انڈیا 2010 قومی ایوارڈز اور منتھن ایوارڈ ساؤتھ ایشیا 2010اور EMPI انڈین ایکسپریس انڈین انوویشن ایوارڈ 2012 حاصل کیا ہے ۔
(بشکریہ : انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***

 

***

 بہت سے مسلم طلباء کم آمدنی والے خاندانوں سے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مستحق طلبا کو مالی مدد اور تعاون فراہم کیا جائے ۔ رپورٹ میں کہا گیا  کہ وظائف، گرانٹس اور مالی امداد کے مواقع کی تعداد کو بڑھاکر اور واضح اور چنیدہ طور پر مسلم طلباء  کے ساتھ تعاون کرکے مالی بوجھ کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے اس طرح زیادہ مستحق طلباء کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 دسمبر تا 16 دسمبر 2023