اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سماجی تفریق کا بڑھتا ہوا ناسور
صرف میرٹ کی بنیاد پر مراعات کافی نہیں، ذات پات کی تفریق کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ایک ماہر سماجیات نے خودکشی کے محرکات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ خودکشی ایک سماجی حادثہ ہے کیونکہ خودکشی کرنے والے فرد پر سماج یا طبقہ کا غیر اصولی و بے جا دباو ہوتا ہے۔ یہی معاملہ 18 سالہ ممبئی آئی آئی ٹی کے طالب علم کی خودکشی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ آئی آئی ٹی، سنٹرل یونیورسٹیز، جے این یو و دیگر اعلیٰ معیار کے ریاستی تعلیمی اداروں میں دلتوں، ایس سی، ایس ٹی اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا کے ساتھ ہراسانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کا وطیرہ بن گیا ہے۔ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے نظم و نسق پر عرصہ دراز سے وقتاً فوقتاً سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی ممبئی کے طالب علم درشن سولنکی کے گھر والوں کا الزام ہے کہ درشن کو محض دلت ہونے کی وجہ سے بعض اساتذہ اور ہم جماعت طلبا کے ذریعے ہراساں کیا جاتا تھا، اس لیے یہ محض خودکشی نہیں ہے بلکہ منظم قتل کے مترادف ہے۔ اس طالب علم نے میرٹ کی بنیاد پر تین ماہ قبل ہی آئی آئی ٹی میں داخلہ لیا تھا اور اس نے خودکشی سے پہلے فون پر گزشتہ ماہ گھر آنے سے قبل والدین کو بتایا تھا کہ ہم جماعت طلبا میرے دلت ہونے کی وجہ سے ہراساں کررہے ہیں۔ متوفی نے الزام لگایا کہ طلبا کے سلوک میں میرے دلت ہونے کی آگاہی سے بڑی تبدیلی آگئی اور وہ لوگ اس سے حسد کرنے لگے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ حکومت پر بوجھ بن کر مفت تعلیم حاصل کر رہا ہے کیونکہ دستور ہند کے مطابق دلت طلبا کو داخلہ سے لے کر تعلیمی فیس کی ادئیگی میں کافی رعایت رہتی ہے، وہ مفت نہیں ہوتا ہے۔ وہ تو پچھڑے ہونے کی وجہ سے یہ ان کا دستوری حق ہے کیونکہ ملک میں ہندو نسل پرست اور منو وادیوں نے ہزاروں سالوں سے انہیں دبا کر اور کچل کر رکھا تھا۔ ان کے ساتھ آج بھی آزاد بھارت میں غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ایک سوال کے جواب میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ 7 سالوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 122 سے زائد طلبا خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جن میں اکثریت دلت، آدیواسی، پست ذات اور مسلم فرقہ کی ہے۔ ان سات سالوں میں 13 آدیواسی، 24 دلت، 41 او بی سی کے علاوہ مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے ولے تین طلبا نے خودکشی کی۔ یہ تو سرکاری اعداد وشمار ہیں جبکہ حقیقت میں تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بہت کم واقعات اندراج ہونے کی وجہ سے مشتہر ہوجاتے ہیں جبکہ بہت سارے واقعات جو ذہنی تناو کے باعث گھروں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کا اندراج ہی نہیں ہوتا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں 17جنوری 2016 کو ایک ریسرچ اسکالر روہت ویمولا نے یونیورسٹی کے ذمہ داروں پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے خودکشی کرلی تھی۔ اس طرح میڈیکل کی ایک آدیواسی طلبہ پائل تاڈوی نے اپنی ہم جماعت پر تفریق اور ناروا سلوک کا الزام لگاتے ہوئے خودکشی کرلی تھی۔ ان دونوں واقعات سے توقع تھی کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی اصلاح کرتے ہوئے بہتری لائیں گے مگر طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایسے اعلیٰ تعلیمی ادارے دلتوں، پسماندہ طلبا اور آدیواسیوں کے ساتھ اقلیتی طلبا کے لیے مقتل بنتے جارہے ہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کیریٹ سولنکی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایس سی، ایس ٹی و دیگر کمزور طبقہ کے طلبہ کو ایم بی بی ایس کے امتحان میں بار بار فیل کیا جاتا ہے۔ اس طرح اکیڈیمک پوسٹس کی درخواست گزاری کے وقت دلت، آدیواسی اور دیگر کمزور طبقوں کے طلبا کو زبردست تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے محفوظ سیٹوں کی بحالی کے بجائے اسے خالی رکھا جاتا ہے اور بہانہ بنایا جاتا ہے کہ اس پوسٹ کے لائق امیدوار نہیں مل رہے ہیں۔
ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ منسٹری کے 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق درجہ اول سے لے کر 12ویں درجہ تک نچلی ذاتوں کے طلبا کا تناسب 2014-15میں قومی اوسط سے بہتر تھا۔ مگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وہ اوسط سے کافی پیچھے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا قومی اوسط 24.5فیصد ہے جبکہ پسماندہ اور دلت طلبا کا اوسط 19.1فیصد ہے۔ ملک میں قائم 54مرکزی تعلیمی یونیورسٹیوں میں صرف ایک میں پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے وائس چانسلر ہیں۔ اس طرح ان مرکزی یونیورسٹیوں میں 1005 پروفیسروں میں کم از کم 75 پسماندہ طبقہ سے یعنی ایس ٹی سے ہونے چاہیے تھے مگر فی الحال 15 ہی ہیں اور ایس سی پروفیسروں کی تعداد 151 ہونی چاہیے مگر صرف 70 ہی ہیں۔ واضح رہے کہ شیڈول کاسٹس کے لیے 15 فیصد، شیڈول ٹرائبس کےلیے 7.5 فیصد اور ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد کا کوٹہ دستوری طور سے مختص ہے مگر نسل پرستی، ذات پات کی تفریق اور بدسلوکی کو منو وادیوں کے ذریعہ اس طبقہ پر ہمیشہ روا رکھا جاتا ہے۔ یہی رویہ مسلم اقلیت کے ساتھ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں سپریم کورٹ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چند دنوں قبل چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے دلت، آدیواسی اور دیگر کمزور طبقوں پر ہونے والے غیر انسانی سلوک پر آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہونے والے خودکشی کے واقعات میں اضافہ معمول بنتا جارہا ہے یہ محض اعدادوشمار کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں سے جاری مظالم کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ آج ہم امرت مہوتسو منارہے ہیں اور وشو گرو ہونے کا دعویٰ کر رہے مگر انسانی حقوق کی پامالی عام ہوتی جارہی ہے۔ یہاں نسل پرستی، ذات پات کی تفریق چھوت چھات ایک عام سی بات ہے۔ اس لیے باشندگان ملک کو اس لعنت کے سد باب کے لیے بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ وزارت تعلیم کے 2021 کے بیانیہ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پی ایچ ڈی پروگرامس میں آدیواسی، دلت اور اقلیتی طلبا کی شرکت انتہائی کم ہے۔ مرکزی تعلیمی اور تحقیقی ادارہ ۔۔۔ منگلور میں 2016-20 کے دوران داخلہ لینے والے امیدوار ایس سی 21 فیصد، 9 فیصد ایس ٹی اور 8 فیصد دیگر بیک ورڈ کلاس سے تھے۔ ملک کے 18 آئی آئی ٹیز میں کل پی ایچ ڈی امیدوار میں 1.7 فیصد ایس ٹی 9 فیصد ایس سی اور 27 فیصد دیگر بیک ورڈ طبقہ سے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے 31 صنعتی ریسرچ اداروں اور سات بھارتی سائنسی تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں ریزرو طبقہ کے پی ایچ ڈی امیدواروں کی نمائندگی بہت کم ہے۔
آئی آئی ٹی ممبئی کے ایک پروفیسر کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس طرح اکا دکا خودکشی کا واقعہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے محرکات کو ادارہ حل کرنے کے بجائے ان سے پہلو تہی کرتا ہے یہاں تک کہ خودکشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ 2014 میں آئی آئی ٹی ممبئی کے طالب علم اپنیکیت امبورے کی خودکشی اسی نوعیت کی تھی۔ گزشتہ ماہ آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے ایک مسلم طالب علم کی خودکشی کی تفتیش کرنے کے بجائے اسے انتظامیہ نے دبا دیا۔ اس طرح کے حادثات کے مد نظر یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیی اداروں کو ان طلبا کے جائز مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔ ایسے ضرورت مند طلبا کے لیے جنہیں مدد کی شدید ضرورت ہے اس کے لیے مختص میرٹ ہی سود مند نہیں ہوگا بلکہ ذات پات کی تفریق کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔
***
***
گزشتہ سات سالوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 122 سے زائد طلبا خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جن میں 24 دلت، 13 آدیواسی، 41 او بی سی اور تین اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ تو سرکاری اعداد وشمار ہیں جبکہ حقیقت میں تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مارچ تا 01 اپریل 2023