ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
وزیراعظم کا تا دیر گمبھیر سوالوں کی جوابدہی سے فرار ممکن نہیں
گوتم اڈانی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ہر روز وارد ہونے والی نت نئی خبریں زخموں کو پھر سے ہرا کردیتی ہے۔ اس معاملے میں سب سے پریشان کن سوال یہ ہے کہ دو چھٹانک کی ہنڈن برگ نے آخر اتنا بڑازلزلہ کیسے برپا کردیا؟ اس معمہ کو سوئی کی آسان سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی سوئی کتنی بھی نوکدار کیوں نہ ہو اسے پتھر میں چبھویا نہیں جاسکتا۔ایسا کرنے پر اس کی دھار توکند ہو گی مگر پتھر کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اس کے برعکس اگر اسی باریک سی سوئی کو غبارے سے مس کردیا جائے تو وہ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔ اڈانی گروپ اگر پتھر کی طرح ٹھوس ہوتا تو ہنڈن برگ اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں پاتا لیکن وہ تو ایک پھولا ہوا غبارہ تھا اس لیے معمولی سی سوئی نے اس کی ہوا نکال کر اسے اپنی اصلی حالت پر پہنچا دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پھولے ہوئے غبارے میں ہوا کس نے بھری تھی؟ اس کا جواب سب کو معلوم ہے لیکن کیسے بھری، اسے ایک خیالی اور ایک عملی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بالآخر اس کا انجام کیا ہو گا؟
بدو اور اونٹ کی مشہور کہانی کو یاد کیجیے۔ ان دونوں میں ویسی ہی گہری دوستی تھی جیسی کہ مودی اور اڈانی میں ہے۔ ایک مرتبہ سفر کے دوران رات ہوگئی۔ بدو نے خیمہ تان کر اونٹ کو باہر باندھ دیا۔ اس نے پیر پھیلائے ہی تھے کہ اونٹ کی آواز آئی۔ سرکار باہر کی ٹھنڈی ہوا سے میری ناک ٹھٹھر گئی ہے۔ بدو کو رحم آگیا اور اس نے اونٹ کو ناک اندر کرنے کی اجازت دے دی۔ بدو اونگھ بھی نہیں پایا تھا کہ پھر سے اونٹ کی صدا سنائی دی جناب عالی باہر سردی بڑھ گئی ہے، کیا میں اپنی گردن خیمے کے اندر کر سکتا ہوں؟ بدو بولا کرلو اور دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن کچھ دیر بعد اونٹ نے پھر فریاد کی۔ مالک رحم کرو میں سردی سے اکڑنے لگا ہوں۔ بس ذرا ٹانگیں اندر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، بدو نے کہا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ پھر کیا تھا بدو گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اونٹ بغیر خیمے کے اندر گھس رہا تھا۔ بدو کی ناراضی کے باوجود اونٹ خیمہ کے اندر آ گیا۔ اس نے نکالنا تو چاہا مگر ایک نہیں چلی مجبوراً بدو کو خیمے سے باہر رات بھر سردی میں ٹھٹھر کر گزارنا پڑا اور اونٹ اندر آرام فرماتا رہا۔ اس کہانی میں اونٹ اور اس کے مالک کی حالت اڈانی اور مودی سے مختلف نہیں ہے۔
بدو اور اونٹ کی اس کہانی کے تناظر میں ایوانِ پارلیمان میں 7فروری کو شکریہ کی تجویز پر بحث کے دوران راہل گاندھی کی تقریر کو دیکھنا چاہیے جس میں وہ بولے، بھارت جوڑو یاترا کے دوران بہت سے لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ اڈانی جی اتنی تیزی کے ساتھ اتنے امیر کیسے ہوگئے؟ جب یہ سوال عوام کے ذہن میں آرہا ہے تو آپ کے ذہن میں کیوں نہیں آیا؟ راہل نے سوال کیا کہ یہ کیسا جادو ہے کہ جس نے 2014 کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں موجود سرمایہ دار کو آٹھ سال کے اندر 609ویں نمبر سے دوسرے نمبر پر پہنچا دیا؟ کس طرح اس کی مجموعی مالیت آٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر ایک سو چالیس ارب ڈالر کو پار کرگئی؟ راہل نے پوچھا، لوگ سوال کرتے ہیں کہ گوتم اڈانی 2014ء سے پہلے تین سے چار شعبوں میں کام کرتے تھے۔ اب وہ بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، قابل تجدید توانائی اور اسٹوریج جیسے آٹھ سے دس شعبوں میں کیسے کام کرنے لگے؟ نوجوانوں کو اس پر حیرت ہے کہ جب وہ کاروبار کرتے ہیں تو ان کے حصے میں کامیابی کے ساتھ ناکامی بھی آتی ہے مگر اڈانی کسی بھی کاروبار میں ناکام نہیں ہوتے؟ ملک کا نوجوان یہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے راہل نے کہا پہلے وہ (وزیر اعظم ) اڈانی کے طیارے میں سفر کرتے تھے اور اب اڈانی مودی جی کے ساتھ ان کے طیارہ میں سفر کرتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر ہوا میں اڑنے والی اس سواری کا نام ہے جس کے سر پر پنکھا زور سے گھومنے لگتا ہے۔ سیاستدانوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز اس سواری کو کہتے ہیں جس کے بازووں میں زوردار پنکھے لگے ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں پرواز کرتی ہے۔ یہی معاملہ سرمایہ داروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ سرمایہ دار اور سیاستدانوں کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہوجائیں تو وہ آسمان کی سیر کرنے لگتے ہیں اور ملک تباہی و بربادی کی کھائی میں جا گرتا ہے۔ اس کا ادراک جو نہ کرسکے وہ اناڑی ہے اور جو لگا لے وہ اڈانی ہے۔ لیکن اب صورتحال میں دلچسپ الٹ پھیر ہورہا یعنی پہلے ملاح کشتی میں سوار تھا اب کشتی ملاح کے کندھوں پر سوار ہے۔ اس تبدیل شدہ صورتحال میں راہل نے وزیر اعظم مودی سے براہِ راست یہ سوالات کیے کہ وزیر اعظم کے کتنے غیر ملکی دوروں میں اڈانی ان کے ساتھ گئے۔ اس کے علاوہ کتنی بار اڈانی الگ سے گئے تھے مگر دورے میں شامل ہوگئے؟ نیز دوروں میں تو ساتھ نہیں رہے مگر مودی کے فوراً بعد اڈانی نے اسی ملک کا تنہا دورہ کیا۔ ان سارے دوروں کے بعد انہیں کتنے ٹھیکے ملے؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ بی جے پی کو اڈانی نے کتنا چندہ دیا یا بانڈز خریدے؟
راہل گاندھی نے یہ الزام بھی لگایا کہ صنعت کار گوتم اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے مودی حکومت کی ملکی، خارجہ اور اسٹریٹجک پالیسی نے ترقیاتی پروگرام استوار کیے ہیں۔انہوں نے اس کی عالمی سطح پر تحقیق کا مطالبہ کیا اور مودی کو سیاست اور کاروبار کے درمیان اس انوکھے رشتے کے لیے طلائی تمغہ دینے کی تجویز پیش کی۔ راہل گاندھی کے اس الزام کی جانچ پڑتال سے قبل گوتم اڈانی کے ایک ٹیلی ویژن انٹریو پر نگاہ ڈال لینی چاہیے جس میں انہوں نے کہا تھا ’’میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مودی جی سے کوئی ذاتی مدد حاصل نہیں کرسکتے۔ آپ قومی مفاد کی پالیسی پر گفتگو کرسکتے ہیں لیکن جب پالیسی بنے گی تو وہ سب کے لیے ہوگی صرف اڈانی گروپ کے لیے نہیں‘‘۔ اس بیان کی روشنی میں صرف اڈانی گروپ کے بنگلہ دیش کی خاطر بجلی پروجیکٹ پر ہونے والی سرکاری نوازشات کی برسات کو دیکھ لیا جائے تو سارا پاکھنڈ تو کھل جاتا ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ آخر اکنامسٹ کے تازہ شمارے میں سرورق پر گوتم اڈانی کے ساتھ نریندرمودی کی تصویر کیوں ہے؟ اس میں اڈانی کی تصویر بڑی اور مودی کی چھوٹی کیوں ہے؟؟
بنگلہ دیش حکومت اور اڈانی کی کمپنی کے درمیان بجلی سپلائی کا ایک بڑے معاہدے کے تحت گوتم اڈانی ہندوستان میں بجلی بنا کر بنگلہ دیش کو فراہم کرنے والےہیں ۔ اس کھیل کی ابتدا جون 2015 میں وزیر اعظم کے بنگلہ دیش کے دورے سے ہوئی۔ اس کے فوراً بعد یہ خبر آئی کہ ریلائنس اور اڈانی پاور نے دو الگ الگ ایم او یو پربنگلہ دیش پاور ڈسٹری بیوشن بورڈ کے ساتھ دستخط کردیے ہیں۔ ریلائنس نے اعلان کیا کہ وہ تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے بنگلہ دیش میں تین ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کا کارخانہ لگائے گا۔ اسی کے ساتھ اڈانی پاور نے ڈھائی بلین ڈالر خرچ کرکے سولہ سو میگا واٹ بجلی کے کارخانے کا اعلان کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے ریلائنس تو اس وقت اس کاروبار میں تھا مگر اڈانی پاور نامی کمپنی چھ ماہ بعد دسمبر میں عالم وجود میں آئی یعنی اپنی پیدائش سے قبل ہی اس نے ایک اتنے بڑے معاہدے کا اعلان کردیا۔ کیا یہ کام سرکاری آشیرواد کے بغیر ممکن ہے؟ اس وقت تک کارخانوں کو بنگلہ دیش میں لگنا تھا۔ پھر اڈانی پاور کے اس سے باہر ہو نے کی خبر آئی جو غلط نکلی۔ ہاں کارخانہ ضرور بنگلہ دیش سے نکل کر ہندوستان میں آگیا۔ اس پر ریلائنس کو ملال تو ہوا ہوگا لیکن سچائی یہ تھی کہ ؎
راہِ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
مودی جی کے بعد اگلے سال شیخ حسینہ نے ہندوستان آکر بات آگے بڑھائی تو تختہ پلٹ گیا۔ دسمبر2015 میں اڈانی پاور بنی اور فروری 2016 میں اس کا بی پی ڈی بی کے ساتھ معاہدہ ہوگیا یعنی چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ ریلائنس گیس کا استعمال کرکے آلودگی سے پاک کارخانہ لگانا چاہتا تھا مگر اڈانی نے کوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کوئلے کی دلالی میں اس کے ہاتھ پہلے سے کالے تھے۔ کارخانہ چونکہ ہندوستان میں منتقل ہوچکا تھا اس لیے آلودگی پر بنگلہ دیش کے اعتراض کا حق ختم ہوچکا تھا۔ ماہرین پریشان تھے کہ ہندوستان میں بجلی بناکر سیکڑوں میل دور لے جانے کی کیا تُک ہے لیکن وہ نہیں جانتے تھے اپنے وطن میں اڈانی کے لیے راہیں ہموار کرنا جس طرح ممکن تھا وہ سہولت بنگلہ دیش میں نہیں تھی اسی لیے نقل مکانی کی گئی اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گرم تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ایما پر بنگلہ دیش کی سرکاری بجلی کمپنی بی پی ڈی بی کو بیچنے کے لیے ہندوستانی ریاست جھارکھنڈ کے گوڈا علاقے میں مذکورہ تھرمل پاور پلانٹ لگے گا۔ اس پر ہونے والی تنقید کی کسی کو پروا نہیں تھی۔
کارخانے کا کام شروع ہوا تو اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی آنے لگیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کارخانے کے لیے زمین حاصل کرنے کا تھا کیونکہ جس دیہی علاقے میں وہ درکار تھی وہاں ایس پی ٹی ایکٹ نافذ ہونے کے سبب زمین کی فروخت پر پابندی تھی۔کارخانے کے لیے جھارکھنڈ کا انتخاب اسی لیے تو کیا گیا تھا تاکہ اس وقت کی بی جے پی سرکار کے اختیارات کو استعمال کیا جا سکے۔ اس نے مقامی رکن اسمبلی پردیپ یادو کی مخالفت کو دبا دیا اور قبائلی لوگوں کے احتجاج کو طاقت کا استعمال کر کے کچل دیا۔ اڈانی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں اور اس طرح مودی ہے تو ممکن ہے والے فارمولے سے قانونی مشکلات پر بلڈوزر چلاکر مقامی افراد کو علاقے کی بلکہ (اڈانی کی) ترقی کے لیے حکومت کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کارخانے کے لیے قوانین اور ضابطوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
دسمبر 2016 میں وزارت توانائی نے یہ ہدایات دی تھیں کہ کوئلہ پر چلنے والے سرکاری کارخانے بیرون ملک بجلی اسی وقت دے سکیں گے جبکہ وہ مقامی ضرورت سے زیادہ ہو۔ ہندوستان میں آج بھی بجلی ضرورت سے کم ہے اس لیے اڈانی پاور کے لیے اسے باہر بھیجنے کا جواز نہیں تھامگر جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟ جھارکھنڈ حکومت نے 2016 میں پالیسی بدل دی اور کہا کہ کم ازکم پچیس فیصد حصہ صوبے کو دیا جائے مگر اڈانی کو صد فیصد بجلی بنگلہ دیش بھیجنے کی اجازت دے دی گئی۔ ایسا کیوں ہوا اور کس کے اشارے پر ہوا یہ جاننے کے لیے کسی شرلاک ہومز کی ضرورت نہیں ہے؟ اڈانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے موحولیات کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ بے مثال ہے۔ کسی کارخانے کو لگانے سے قبل وزارت ماحولیات و جنگلات سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے سو اس سے بھی لیا گیا اور اس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ چیرو ندی سے پانی لیا جائے گا۔ آگے چل کر بغیر بتائے اس گنگا سے پانی لیا جانے لگا جس کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا تھا ’ماں گنگا نے بلایا ہے‘۔
اس دھاندلی کے خلاف جولائی 2022 میں گرین ٹریبونل میں شکایت کی گئی تو اسے منسوخ کرتے ہوئے کہا گیا چونکہ مدعی متاثرین میں سے نہیں ہے اس لیے اس کو شکایت یا اعتراض کا حق نہیں ہے نیز یہ بھی کہا گیا کہ اس نے شکایت کرنے میں تاخیر کردی، تیس دن کے اندر نہیں آسکا اس لیے سماعت تک نہیں ہوئی۔ کیا کوئی اور ایسی جرأت کرکے اس مہربانی کی توقع کر سکتا ہے؟ ایسا احسان تو صرف سرکاری داماد کے لیے مختص ہوتا ہے۔
2019 سے قبل اچانک اس علاقہ کو خصوصی معاشی خطہ (ایس ای زیڈ) قرار دے دیا گیا۔ اس طرح اڈانی پاور پلانٹ کسی ایس ای زیڈ میں قائم ہونے والا پہلا بجلی کارخانہ بن گیا اور اس کو ہر قسم کے ٹیکس سے نجات مل گئی۔ عام لوگوں کی کنپٹی پر پستول رکھ کر جی ایس ٹی وصول کرنا اگر دیش بھکتی ہے تو کیا یہ دیش دروہ نہیں ہے؟ یہی وہ زمانہ تھا جب اڈانی کو بیرونِ ملک سے آلات درآمد کرکے اس پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی تھی، اس وقت سے اب تک چین، سرحد پر پے درپے در اندازی کیے جا رہا ہے اور اڈانی گروپ اپنے کارخانے کے لیےفروری 2022 تک 95.58 فیصد آلات چین سے درآمد کر چکا ہے۔ ان سب کو جی ایس ٹی، سرچارج ڈیوٹی، امپورٹ ڈیوٹی اور سیس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے اڈانی اور ان کے آقا کا تو فائدہ ہوگیا مگر ملک کے خزانے کی جیب کٹ گئی۔ اڈانی کا یہ کارخانہ آئندہ پچیس سالوں میں سات سے نو ملین ٹن کوئلہ سالانہ خرچ کرے گا اس کو ملک میں رائج کلین انرجی سیس نہیں بھرنا پڑے گا۔ اس طرح آئندہ پچیس سالوں میں اسے $39.02 فی ٹن کے حساب سے ایک بلین ڈالر کا فائدہ ہوگا نیز پانچ سال کوئی انکم ٹیکس نہیں، پھر پانچ سال پچاس فیصد کی چھوٹ اور آگے پانچ سال برآمد کے پچاس فیصد کی وجہ سے کم ٹیکس۔
بنگلہ دیش اس معاہدے پر نظر ثانی چاہتا کیونکہ جس وقت معاہدہ ہوا تھا کارخانے پر سارے ٹیکس لاگو ہو رہے تھے۔ اسی کی بنیاد پر لاگت آنکی گئی تھی اب چونکہ ان میں چھوٹ مل گئی ہے اس لیے نرخ پر دوبارہ غور ہونا لازمی ہے۔ بی پی ڈی بی کے مطابق اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کو سولہ فیصد زیادہ کے سٹی چارج اور پینتالیس فیصد فیصد اضافی ایندھن کا نرخ ادا کرنا پڑے گا۔ ان ٹیکسوں کی فہرست بہت طول طویل ہے جو بنگلہ دیش سے تو وصول کی جائے مگر ہندوستانی خزانے میں جانے کے بجائے اڈانی کی جیب میں جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کرم فرمائی کا کوئی حصہ انتخابی بانڈ میں تبدیل نہیں ہوگا؟ اس معاہدے میں درج ہے کہ اگر ٹیکس کی بابت کوئی تبدیلی آئے گی تو فریق ثانی کو ایک ماہ کے اندر مطلع کیا جائے گا مگر چار سال ہوگئے اڈانی اس پر خاموش ہیں۔ کیا یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے کیونکہ ان کے سبب بجلی کی قیمت میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔ بنگلہ دیش اگر کسی اور ہندوستانی کارخانے سے بجلی خریدے تو اسے اوسطاً $0.062 فی یونٹ میں مل سکتی ہے جبکہ اڈانی سے یہ ڈالر0.17 فی یونٹ پڑے گی جو دو گنا سے زیادہ ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش خود 21,280 میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 13,525 میگا واٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر اس کا اڑتیس فیصد استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ ایسے میں بنگلہ دیش کو بجلی درکار ہی نہیں ہے اور معاہدہ ختم ہوجائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بجلی کارخانوں کو پچھلے سال $1.35 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا ہے۔ ایسے میں اگر اڈانی سے بنگلہ دیش بجلی خریدے گا تو بنگلہ دیش کو زیادہ سے زیادہ $1.17 بلین یا کم ازکم $918.18 ملین ڈالر سالانہ اڈانی کو ادا کرنے پڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ نظر ثانی کی بات کرتے ہیں۔ اڈانی گروپ اس کی درخواست کے وجود کا منکر ہے جیسے مودی جی ہوگئے تھے۔ ’نہ کوئی آیا نہ آئے گا‘۔ بنگلہ دیش بجلی بورڈ نے پچھلے سال جنوری میں نرخ میں پیداوار کی قیمت کے بہانے چھیاسٹھ فیصد اضافہ کا مطالبہ کیا تھا جس کو بنگلہ دیش میں بجلی ریگولیٹ کرنے والے ادارے بی ای آر سی نے ٹھکرا دیا۔اس کے مطابق یہ جائزہ فالج زدہ تھا۔بی ای آر سی نے دسمبر 2022 کو 19.92 فیصد نرخ بڑھایا۔
اس معاہدے میں ادائیگی بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ بی پی ڈی پی سے بجلی خرید کر بنگلہ دیش حکومت سستے داموں پر اسے فروخت کرتی ہے۔ اس نے پچھلی ادائیگی میں پانچ ماہ کی تاخیر کردی جبکہ اڈانی سیٹھ روزآنہ کی بنیاد سود صول کرنے کا معاہدہ کرچکے ہیں، اس لیے تاخیر کی وجہ سے بجلی اور بھی مہنگی ہوجائے گی۔ ایک مسئلہ ڈالر میں ادائیگی کا بھی ہے۔ 2017 میں ایک ڈالر کے عوض 81.19 ٹکہ ملتے تھے جو اب 104.2 پر پہنچ چکا ہے۔ اس لیے ایک چوتھائی اضافہ تو ویسے بھی ہوچکا ہے۔اس طرح اگلے پچیس سالوں میں بنگلہ دیش کو $23.87 بلین ڈالر اضافی دینے ہوں گے۔ بنگلہ دیش جانتا ہے کہ اڈانی سے خریدی جانے والی بجلی کسی اور ہندوستانی کمپنی کی بجلی سے تین گنا اور بنگلہ دیش کی کمپنیوں سے دوگنا زیادہ مہنگی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ امکان بھی ہے کہ بنگلہ دیش اس معاہدے کو منسوخ کردے کیونکہ 2021 میں وہ اٹھارہ میں سے دس پروجکٹس کو عالمی صورتحال میں تبدیلی کا بہانہ بناکر مسترد کر چکا ہے۔ مودی اور اڈانی کی قربت کے پیش نظر اس معاملے میں پنگا لینا بنگلہ دیش کو مہنگا پڑسکتا ہے کیونکہ اس سے باہمی تعلقات پر اثر پڑے گا، لیکن یہ حالت اس وقت تک رہے گی جب تک اڈانی کے سر پر اقتدار کا سایہ ہو گا لیکن جب یہ اٹھ جائے گا تو شیش محل کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔
اڈانی گروپ کے لیے ایک مصیبت مغربی بنگال کے کسانوں نے کھڑی کردی ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ میں وہاں کے کسانوں نے شکایت کی ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کے لیے ان کی جو زمین لی گئی اس کی مناسب قیمت نہیں ادا ہوئی۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بنگلہ دیش جیسے اہم اتحادی ملک کے ساتھ دفاع، ٹکنالوجی، توانائی اور حمل ونقل کے علاوہ سمندر اور دریاؤں کے تعلق سے تمام اہم کاروبار میں گوتم اڈانی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ بنگلہ دیش ہی کیوں سری لنکا میں بھی بجلی کی سپلائی کا ٹھیکہ ملا تو وہ بھی پکے ہوئے پھل کی مانند اڈانی کی گود میں آ گرا۔ وہاں کی سرکاری کمپنی کے ایک افسر نے میڈیا میں اعتراف کیا کہ وزیر اعظم مودی نے سری لنکائی صدر پر دباو ڈال کر وہ پروجیکٹ اڈانی کو دلوایا تھا۔اس پر تنقید شروع ہوگئی تو سری لنکا حکومت کو وضاحت پیش کرنی پڑی تھی۔ اونٹ سے شروع ہونے والی بات کو اونٹ کی جانب لوٹانا بہتر ہے۔ حدیث میں عصبیت کو اونٹ کے کنوئیں میں گرنے اور اسے دم سے پکڑ کر نکالنے کی مثال دی گئی ہے۔ فی الحال یہی مثال اڈانی اور مودی پر صادق آتی ہے۔ اڈانی ایک اونٹ کی مانند بدعنوانی کے کنوئیں میں گر چکے ہیں۔ مودی انہیں دم سے پکڑ کر نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ اونٹ کے ساتھ وہ بھی گر جائیں۔اڈانی کا اب جیل جانا طے ہے اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ مودی جی اس سے پلہ جھاڑ کر کہہ دیں ’تم تو ڈوبے ہو صنم، ہم کو بھی لے ڈوبو گے ‘
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
دسمبر2015 میں اڈانی پاور بنی اور فروری 2016 میں اس کا بی پی ڈی بی کے ساتھ معاہدہ ہوگیا یعنی چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ ریلائنس گیس کا استعمال کرکے آلودگی سے پاک کارخانہ لگانا چاہتا تھا مگر اڈانی نے کوئلے کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کوئلے کی دلالی میں اس کے ہاتھ پہلے سے کالے تھے۔ کارخانہ چونکہ ہندوستان میں منتقل ہوچکا تھا اس لیے آلودگی پر بنگلہ دیش کے اعتراض کا حق ختم ہوچکا تھا۔ ماہرین پریشان تھے کہ ہندوستان میں بجلی بناکر سیکڑوں میل دور لے جانے کی کیا تُک ہے لیکن وہ نہیں جانتے تھے اپنے وطن میں اڈانی کے لیے راہیں ہموار کرنا جس طرح ممکن تھا وہ سہولت بنگلہ دیش میں نہیں تھی اسی لیے نقل مکانی کی گئی اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023