ایس ایم ملک، حیدرآباد
اتوار، ۱۳ اگست، ان کی تحریر دیکھ کر، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حالات نے ان کی نیند اڑا دی ہے، میں نے رد عمل کا اظہار کیا، اس پر انہوں نے لکھا، ’’ جی ملک بھائی، کیسے ہیں آپ… ابھی آپ آرام کر لیجیے…. اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے، ان شاءاللہ، سب ٹھیک ہو جائے گا… ‘‘
۔۔۔اور پھر سلمان سے کہا، ’’پتہ نہیں ملک بھائی تک میری تحریر کیسے پہنچی، وہ ایموشنل ہو گئے ہیں، ان کا خیال رکھو۔۔۔‘‘
مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے لیے ان کی یہ آواز آخری امانت ثابت ہوگی!
اور پھر … پتہ نہیں ان دو دنوں میں کیا ہو گیا، ہم سب کو غم و اندوہ میں چھوڑ کر… خود آرام کرنے چلے گئے؟… آہ!
ہم اللہ کی رضا کے طلب گار اپنے سینوں کی آگ میں جھلسنے کے باوجود سوائے دعا کے کر بھی کیا سکتے ہیں، اسی لیے سب غم زدہ رفقاء کی دعائیں اس اللہ والے کے ساتھ ساتھ ہیں!
سب اللہ والے ایک ایک کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رواں دواں ہو رہے ہیں، ہم زمین والوں کا نمبر خدا جانے کب ہے؟
ذمہ داریاں
حلقہ طلبہ کے سکریٹری، ایس آئی یو کے صدر اور پھر ایس آئی او کے بھی صدر – ان تینوں تنظیموں سے تعلق رہا ہے باسط بھائی کا۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار اور خاکہ نگار بھی تھے، بہت عمدہ شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ اپنی نوجوانی کے دور سے انہیں علمی اور ادبی کاوشوں سے دلچسپی رہی ہے۔انہوں نے عربی سے ایم اے کیا تھا؛ اسلامی تحریکات کے عربی لٹریچر میں پی ایچ ڈی کا مقالہ شاید مکمل بھی ہوا تھا، مگر پتہ نہیں کیا ہوا… وہ تو پورا کرنا چاہتے تھے، مگر تحریکی مصروفیات ہی نے ان کی اس خواہش کو پورا کرنے نہیں دیا!
ایس آئی او قائم ہوئی تو آل انڈیا سطح کے فائنانس سکریٹری مقرر ہوئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا تھا اور تحر یکی رفقاء سے اور تحریک کی صورت حال سے براہ راست واقفیت حاصل کی تھی؛ وہ ان تحریکی جاں نثاروں میں تھے جنہوں نے تحریکی خدمات کی خاطر اپنی ذاتی خواہشات، ضروریات اور دل چسپیوں کو خیر باد کہہ دیا تھا اور ان کے اہل خانہ نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا! ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے!!
وہ جب حلقے کی امارت کے لیے منتخب ہوئے تو میں وہ خوش نصیب ہوں جسے انہیں اس بات کی خبر کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور وہ دوسرے یا تیسرے ہی دن اپنا کوئی دورہ ملتوی کرکے واپس لوٹے تھے ۔
شعبہ دعوت
مجھے یاد نہیں کہ امیر حلقہ، سید عبدالباسط انور صاحب سے پہلے حلقہ میں کسی امیر حلقہ کے دور میں شعبہ دعوت قائم ہوا تھا۔ اور میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ مجھے اس (اولین) شعبہ کا ذمہ دار بنایا گیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آندھراپردیش، کرناٹک اور جھارکھنڈ کی جماعتوں کے دورے میں اور میرے ساتھیوں نے کیے تھے۔ آج کے امیر حلقہ آندھرا برادرم محمد رفیق صاحب بھی شاید میرے ایک آدھ دورے میں شریک رہے ہیں۔
میں نے شعبہ دعوت کے خادم کی حیثیت سے آندھرا اور تلنگانہ کے طول و عرض کے بے شمار دورے باسط صاحب کے ساتھ کیے تھے اور ان کے تحریکی کام کا انداز بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا، وہ جائزہ لیتے تو بہت ہی نرم طرزِ گفتگو اختیار کرتے اور اگر کچھ سختی کرنا چاہتے تو زیادہ سے زیادہ پر زور آواز میں مگر ٹہر ٹہر کے اتنا کہتے، ’’یہ کام میرا یا کسی اور کا نہیں خالقِ و مالک رب کائنات کا ہے، اس کام کی جواب دہی میرے سامنے یا کسی اور کے سامنے نہیں کرنی ہے بلکہ کل کو اپنے آقا اور مالک کے سامنے کرنی ہے‘‘ بس، رفقاء کے سر جھک جاتے اور آنکھیں نم ہو جاتیں!
انہوں نے مرکزی سطح پر بھی تربیت کے سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں؛ اس وقت غالباً تربیت کا ایک خاکہ اور نصاب بنایا تھا؛ مزید کیا ہوا تھا میرے علم میں نہیں ہے ۔
جب خواجہ عارف الدین صاحب مرحوم امیر حلقہ مقرر ہوئے تو انہوں نے اپنے ایس آئی او کے ساتھی عبدالباسط انور صاحب کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس کی اور ان کی خدمات تلگو اسلامک پبلیکیشنز (ٹی آئی پی) کے لیے حاصل کیں۔
ماہ نامہ انوپما
باسط بھائی نے بحیثیت ڈائریکٹر، ٹی آئی پی جو خدمات انجام دیں ان میں نمایاں، خواتین کا تلگو رسالہ ’’انوپما‘‘ کا قیام اور اس کے لیے لکھنے والی خواتین کی فراہمی ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے خواتین کا ایک وفد پڑوسی حلقہ کرناٹک، بھجوایا تاکہ وہاں چلائے جانے والے خواتین کے میگزین کے طریقہ کار کو سمجھ لیں۔ میرے دوسرے لڑکے غفران سے، جس نے ماس کمیونکیش سے ایم اے کیا ہوا ہے، اس میگزین کی ضرورت اور اس کی ضروریات پر ایک پراجیکٹ رپورٹ اور پروپوزل تیار کروایا، ساتھ ہی خواتین کے وفد کی رپورٹ بھی سامنے رکھی۔ ان سب کے پیش نظر وہ پراجیکٹ، منیجنگ کمیٹی میں منظور ہو گیا اور آج وہ میگزین، الحمدللہ مستقلاً چل رہا ہے ۔
بیماری
انہیں اچانک ہی ذیابیطس نے آلیا تھا، اس کے علاج کے سلسلے میں کئی جتن انہوں نے کر رکھے تھے، ڈاکٹروں ہی کے مشورے سے نیچر کیور سسٹم سے استفادہ کے لیے شہر سے دور گنڈی پیٹ کے مقام پر اس طریقہ علاج کے سنٹر پر قیام کرکے، علاج کرواکے بھی دیکھ لیا۔ کسی کھانے کی محفل میں اگر میں بھی ساتھ ہوتا تو بڑی لجاجت سے مسکراتے ہوئے کہتے ‘ملک بھائی، ایک چمچہ اور…’ کہہ کر خاموش ہوجاتے۔ میں بھی مسکرا کے چپ ہو جاتا۔ اور وہ اشارہ میٹھے کی طرف ہوتا تھا!
اللہ تعالیٰ انہیں خوب کھلائے!… سواے یاد کرکے آنسو بہانے کے کیا کروں؟… انسان کتنا مجبور محض ہے!
اس شوگر کی بیماری میں ان کے ایک انگوٹھے کا کچھ حصہ نکال دینا پڑا تھا، اس کے باوجود وہ استقامت کا پہاڑ بنے اپنے تمام تحریکی فرائض سے نبرد آزما ہوتے رہے ۔
عارضہ قلب کی وجہ سے بھی وہ ابتلاء کا شکار ہوئے، دل کی سرجری بھی ہوئی مگر کیا مجال کہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ پھیرا ہو!
باسط بھائی کے ایک بھائی ابو یوسف ان سے چھوٹے تھے، گھر کی ایک چھوٹی سی صنعت ہے جسے ابو یوسف سنبھالے ہوئے ہیں اور بڑے بھائی کو تحریک کے لیے فارغ کر رکھا ہوا ہے۔ مثالی محبت ہے دونوں کی!
وہ جب آرام کی غرض سے بچوں کے اصرار پر بیٹی کے پاس امریکہ گئے تھے تو اس وقت بھی کئی مرتبہ بات چیت ہوئی، لیکن وہاں سے آنے کے بعد میری طبیعت خراب رہنے لگی تو میں نہیں جا سکا ان سے ملنے کے لیے۔ کئی بار انہوں نے بھی کہا کہ تم کیوں آتے ہو، میں خود کسی وقت آجاوں گا۔ مگر نہ ان کی صحت نے اجازت دی اور نہ مجھے ہی کچھ توفیق ہوئی، بس فون ہی پر گفتگو ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آخری مرتبہ اتوار 13؍ اگست کو ان کی ایک تحریر دیکھا، کچھ لکھا تو میرے بجائے میرے لڑکے سے وائس مسیج پر میری صحت کے بارے میں پوچھا اور خیال رکھنے کی تاکید کی ۔
تمام آزمائشوں سے، مسائل سے، تکلیفوں سے، شکایتوں سے دور، اپنی بے لوث خدمات، مخلصانہ زندگی کا اجر پانے، اپنے رب کی رضا اور رحمت کی چھاؤں میں جگہ پانے مولا سے ملاقات کے لیے نکل پڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہم سب کی توقعات کے مطابق بہترین اخروی زندگی عطا فرمائے اور ان کے گھر والوں کو، جن میں ہم سب شامل ہیں، صبر و دین پر استقامت سے مالا مال فرمائے، آمین ثم آمین ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023