
پیغامِ محمد ﷺ ہی انسانیت کے مسائل کا حل: انجینئر محمد سلیم
جماعت اسلامی ہند یو پی مشرق کی سیرت مہم
لکھنؤ:(دعوت نیوز ڈیسک)
قرآن میں چھوٹی چھوٹی آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جن سے انسانی زندگی کے بڑے بڑے مسائل حل کیے گئے ہیں۔ ان کی کئی مثالیں ہیں ۔ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں مردوں اور عورتوں کو شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ مرد اور عورتیں اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔ بظاہر یہ بات معمولی محسوس ہو رہی ہے لیکن اس ایک حکم پر عمل کیا جائے تو انسانی معاشرہ ان بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ جائے گا جن میں وہ آج مبتلا ہے۔ نظروں کی حفاظت نہ کی جائے تو لازماً اختلاطِ مرد وزن ہوگا۔ مردو خواتین ایک دوسرے سے بے تکلفی سے ملنے لگیں تو اس سے بات لازماً آگے بڑھے گی اور ناجائز تعلقات قائم ہوتے دیر نہیں لگے گی۔اور جب ناجائز تعلقات قائم ہونے لگتے ہیں تو خاندان بکھرنے لگتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان نو خیز نسل کا ہوتا ہے جس کی پرورش میں ماں باپ دونوں کی محنت و محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج معاشرہ الجھن کا شکار ہے کہ کہاں کس کس حد پر جاکر بے راہ روی پر روک لگائی جائے۔ قرآن جو خالقِ کائنات کا کلام ہے اس میں ایسی ہدایات دی گئی ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ جس ہستی نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ عورت اور مرد کی نفسیات کا بھی خالق ہے اور وہی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ مرد و زن کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو اور ان کو کس طرح منضبط کیا جائے کہ جس سے معاشرہ انارکی کا شکار نہ ہو۔ آج قتل کی وارداتوں میں بہت اہم عامل ناجائز تعلقات ہیں۔اپنے ناجائز تعلقات کو جاری رکھنے میں جب شوہر یا بیوی مانع بن جاتے ہیں تو شوہر بیوی کا قتل کروادیتا ہے اور بیوی شوہر کا قتل کروادیتی ہے۔حتیٰ کہ ماں اپنے بچوں کو تک قتل کر دیتی ہے جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بے گناہ اس کے گناہ کے گواہ بن سکتے ہیں۔ ناجائز تعلقات میں انساان اندھا ہو جاتا ہے۔ آج کل مردوں کے مقابلے میں شادی شدہ خواتین اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایسی خواتین اپنے شوہروں سے مطمئن نہیں ہو پاتیں۔ مرد ہو یا عورت ایک مرتبہ زنا کا چسکا لگ جائے تو انہیں مکمل تباہ ہو کر ہی اس جرم کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ اس تباہی کا پہلا شکار خاندان ہے جو ٹوٹ جاتا ہے یا پھر کسی نہ کسی فریق کے قتل پر ناجائز محبت کا یہ فسوں ختم ہو جاتا ہے۔
دوسری اہم چیز جو غض بصر میں شامل ہے وہ یہ ہے کہ فحش فلمیں دیکھنے سے پرہیز کیا جائے۔ آج پورن دیکھنے کی لت میں بچے اور بڑے مبتلا ہو رہے ہیں اور زندگی کے بہت اہم امور سے غافل ہو کر اپنی زندگی میں ناکام ہو رہے ہیں یہاں تک کہ اپنی ازدواجی زندگی کے لطف سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ کبھی انسانی تاریخ میں نہیں سنا گیا تھا کہ نوجوان لڑکے اپنی نئی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہو رہے ہوں۔ اسلام ان سارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ وہ صاف طور پر کہتا ہے زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو یہ فحش ہے اور نتائج کے اعتبار سے برا راستہ ہے جو خوفناک نتائج پیدا کرتا ہے۔ غیر مسلم معاشرے تو اچھی خاصی تباہی کا شکار ہوچکے ہیں۔ چونکہ امتِ مسلمہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو فراموش کر دیا ہے اس لیے مسلمان معاشرہ بھی فحاشی کے اس سیلاب میں بہتا جا رہا ہے۔مسلم ملکوں میں بھی فحاشی عام ہوتی جا رہی ہے۔ پورن فلمیں آسانی سے فراہم ہونے کی وجہ سے مسلم معاشروں میں بھی زنا عام ہوتا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر فحاشی کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام کرتی۔ انسانوں میں سے جو لوگ صحیح فکر کے حامل ہیں ان کو ساتھ لے کر مسلم قوم ملکی سطح پر مہم چلاتی اور فحاشی کے نقصانات سے انسانیت کو آگاہ کرتی۔ بھارت میں اگر مسلمان اس طرح کی مہمات چلائیں تو اس کو مسلم ایشو بنا کر نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اس لیے معاشرہ میں اخلاقی حس رکھنے والوں کو لے کر ایسی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ ایسی مہم نہ صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حصہ ہوگی بلکہ یہ دعوت الی اللہ کے مواقع بھی پیداکرے گی۔ ملکی سطح پر ایسی مہم جوئی کے امکانات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں کھل کر ہم اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ زنا انجام کے اعتبارسے بہت برا راستہ ہے۔
علامہ اقبال نے بہت ہی خوبصورتی سے اس مسئلہ کو اجاگر کیا تھا :
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
اسلام معاشرہ کو تباہی سے بچانے کے لیے زنا کی طرف لے جانے والے دلدل کے پہلے دروازے پر پہرہ لگایا ہے۔ یہ دراصل نظروں پر پہرہ ہے۔ یہ ایسا پہرہ ہے جو صرف انسان کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے اور اسے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں انجامِ بد کا خوف دلاکر ہی قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام سب سے پہلے خالق کا تعارف پیش کرتا ہے اور خالق کے تخلیقی منصوبے سے آگاہ کرتا ہے کہ
انسانوں کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے جس کے لیے عارضی زندگی دی گئی ہے۔اس زندگی کو خالق کی دی ہوئی پابندیوں کے ساتھ گزارا جائے تو دنیا میں ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا لیکن جو سب سے عظیم مقصد حاصل ہوگا وہ یہ ہے کہ آخرت میں متقی انسان کو جہنم سے بچالیا جائے گا اور جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ یہی انسان کا حتمی مقصد ہے کہ وہ اخروی زندگی میں کامیاب انسانوں میں شامل کر دیا جائے ورنہ وہاں کی سزا بھی ناقابلِ تصور ہے جس طرح وہاں کا انعام تصور سے بہت بلند ہے۔ انسان کے اندر لذتِ گناہ کی چاہت کی جو شدت رکھی گئی ہے اس کو جہنم کے عذاب کا خوف دلا کر اسے منضبط کیا جا سکتا ہے۔ زنا سے صرف دنیا میں ہونے نقصانات پر لیکچر دے کر اس سے روکنا محال ہے۔ اس لیے قرآن نے پہلے حیاتِ انسانی کے مقصد کو واضح کیا ہے پھر ایمانیات کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے مضبوط دلائل فراہم کیے ہیں پھر ان ایمانیات کی بنیاد پر تقویٰ کی صفت کو پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ تقویٰ ایسی صفت ہے جو انسان کے دل کے اندر ایسا خود کار آلہ نصب کر دیتی ہے جو ہر برے کام سے انسان کو روکتا ہے۔ اسی صفت کو پیدا کرنے پر ہر دور میں ہر نبی نے دعوت دی ہے۔ (سورۃ الشعراء۱۲۶)۔
’’غضِ بصر‘‘ (نظروں کی حفاظت) اور شرمگاہوں کی حفاظت کے قرآنی احکام ایک مکمل معاشرتی نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (سورۃ النور:۳۰)’’مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بے شک اللہ ان کے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘اسی طرح عورتوں کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے (آیت ۳۱) یہ حکم محض نظریں نیچی رکھنے کا نہیں بلکہ ایک پورے سلسلے کو روکنے کا ذریعہ ہے جو نظر سے شروع ہو کر دلوں اور ذہنوں کو پراگندہ کرتا ہے، خلوت میں ملاقات پر ابھارتا ہے اور آخرکار زنا تک پہنچاتا ہے۔ Criminology Reports (2024) کے مطابق امریکہ میں 37 فیصد قتل کے کیسز میں سبب غیر ازدواجی تعلقات (extra-marital affairs) پایا گیا ۔India National Crime Records Bureau (NCRB 2023) کے مطابق 28 فیصد گھریلو قتل کے معاملات میں ناجائز تعلقات بنیادی وجہ تھے۔ ناجائز تعلقات چاہے وہ قبل از نکاح ہوں یا بعد نکاح ہوں ان سب کا آغاز نظروں کی حدود کو پامال کرنے سے ہوتا ہے ۔Global Divorce Reports (2023): دنیا بھر میں طلاق کی بڑی وجوہات میں ’’ناجائز تعلقات‘‘ سر فہرست ہیں۔ اسلامی ممالک میں بھی طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا اور مخلوط ماحول ہے۔
نظروں کی حفاظت ایک ایسا وسیع دائرہ کھینچ دیتا ہے جس کے اندر فحش فلمیں بھی آجاتی ہیں۔ غیر محرم خواتین کے حسن کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا جب نا جائز ہو تو فحش افعال کو دکھائی جانے والی فلمیں دیکھنا اس سے کئی گنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ پورن فلمیں بے حیائی کا ایک ایسا ایٹم بم ہے جس نے انسانیت کے بڑے حصے کو جس اخلاقی فساد میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ پورن فلمیں انسانی ذہن پر مختلف قسم کے نفسیاتی اثرات ڈالتی ہیں۔ مسلسل پورن دیکھنے سے دماغ میں ڈوپامین (Dopamine) کی زیادتی ہوتی ہے، جس سے نشہ جیسی لت لگ جاتی ہے۔ اس سے آہستہ آہستہ انسان کو ’’نارمل‘‘ چیزوں سے خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ پورن دیکھنے کے بعد شرمندگی، پچھتاوا یا احساسِ جرم ہوتا ہے جو جو ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔ لوگ اپنے جسم اور اپنی جنسی کارکردگی کا موازنہ پورن کے غیر حقیقی مناظر سے کرنے لگتے ہیں، جس سے خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ نوجوانوں میں پورن کا زیادہ استعمال حقیقت میں جنسی کارکردگی پر منفی اثر ڈال رہا ہے جس سے ازدواجی زندگی میں شدید مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور طلاق کی نوبت آ رہی ہے۔ شریکِ حیات سے غیر فطری توقعات قائم کیے جاتے ہیں۔ پورن فلمیں دیکھنے والوں کی دماغی ساخت میں ایسی تبدیلی رونما ہو رہی ہے جو توجہ، یادداشت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ پورن فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر اکثر غیر فطری، تشدد آمیز اور انتہائی غیر اخلاقی ہوتے ہیں، جو ناظر کی جنسی ترجیحات کو متاثر کرتے ہیں۔ پورن فلموں کے عادی حقیقی دنیا سے کٹ جاتے ہیں اور تنہائی پسند ہونے لگتے ہیں۔ نابالغ بچے جب کم عمری میں پورن فلمیں دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ان کی ذہنی نشوونما، جنسی شعور، اور تعلقات کے فہم پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ان کا جنسی رویہ حقیقت سے ہٹ کر غیر حقیقی اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق، پورن فلمیں دیکھنے والے نوجوانوں میں سے 67 فیصد کے حقیقی رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔WHO (2023) نے بتایا کہ ازدواجی مسائل اور جنسی بے اطمینانی کی ایک بڑی وجہ پورن فلمیں ہیں جن سے ہر وقت جنسی توقعات کا لیول بڑھنے لگتا ہے جن سے نارمل رشتوں میں تسکیں نہیں مل سکتی۔
نظروں کی حفاظت (غضِ بصر) زنا کے راستے میں پہلا پہرہ ہے۔ نظریں بچانا شہوت کی پہلی چنگاری کو بجھا دیتا ہے۔ نظر میں جب تقویٰ پیدا ہو جائے تو انسان بے شمار فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔ نظروں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلام نے خواتین کو اپنی زیب و زینت چھپانے کا حکم دیا ہے (سورہ نور: 31)۔مرد و خواتین کو خلوت میں ملنے سے روکا گیا ہے ۔نبی ﷺ نے فرمایا ’’جب کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کو آسان بنانے کا حکم دیا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جس نے نکاح کیا، اس نے آدھا دین مکمل کیا۔ اسلامی حکومت میں زنا کے ارتکاب پر سزائیں اور حدود مقرر کی گئی ہیں۔ شادی شدہ زانی کے لیے سنگساری اور غیر شادی شدہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا مقررکی گئی ہے (سورہ نور: 2) ان سزاؤں کے لیے کڑی شرطیں رکھی گئیں کہ چار گواہ لائے جائیں ورنہ الزام لگانے والے کو ۸۰ کوڑے مارے جائیں گے۔ ان سزاؤں کا مقصد معاشرے کو زنا اور اس سے جڑی افوہوں اور ایک دوسرے پر بہتان سے پاک رکھنا ہے۔ جو لوگ ان سزاؤں کو بے جا اور وحشیانہ بتلاتے ہیں وہ دراصل اسلام کے مقصد سے نا آشنا ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسانی نسل کی تربیت اور صحیح افزائش کے لیے خاندان کو مستحکم کیا جائے۔ زنا کی وجہ سے خاندان جب بکھر جائیں گے تو معاشرہ نہیں بچے گا۔ چنانچہ ہم مغربی معاشرہ کو دیکھتے ہیں کہ وہاں مادی ترقی کے باوجود خاندانی نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ بچے ماں باپ کی محبت نہ ملنے سے نشہ کے عادی اور جرائم پیشہ بنتے ہیں ۔اس کے ساتھ گن کلچر نے قتل کو آسان کر دیا ہے۔ آج کا انسان جنسی آزادی کے نام پر بربادی کا شکار ہو چکا ہے۔
جس طرح ترقی یافتہ ملکوں میں ٹریفک کے قوانین کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے تاکہ حادثات نہ ہوں اسی طرح خالق کائنات نے معاشرتی حادثات یعنی خاندانی نظام کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے پابندیاں لگائی ہیں۔ ان معاشرتی قوانین کی پابندی کی جائے تو اس سے فرد اور خاندان دونوں محفوظ ہوں گے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
چند ضروری مشورے :
۱۔ غضِ بصر کو رواج دینے کے لیے نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے۔ دلائل کے ذریعے اسلام کی حقانیت کو ان کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے ۔ان کے ایمان اور تعلق باللہ کو مضبوط بنایا جائے۔نوجوانوں کو سمجھایا جائے کہ اللہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ الم يَعْلَمْ بِأَنَّ ٱللَّهَ يَرَىٰ (العلق:14)۔نکاح کی ترغیب دی گئی ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’اے نوجوانوں کے گروہ! جو تم میں طاقت رکھتا ہو، وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہ کو جھکانے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے‘‘ نوجوانوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جائے۔ ’’ڈیجیٹل روزہ‘‘ رکھنے کا رواج عام کیا جائے جس میں روزے کے اوقات میں انٹرنٹ سے دور رہا جائے تاکہ انٹرنٹ کی لت سے چھٹکارا ملے اور وہ زندگی میں اہم امور انجام دے سکیں۔نفلی روزے رکھ کر ان میں اس طرح کی پابندی کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کو نیک دوستوں کے ساتھ رہنے پر ابھاریں۔ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ’’المرءُ على دينِ خليلِه‘‘۔
۲۔ والدین کے لیے تجویز یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے صرف حکم دینے والے نہ بنیں بلکہ بچوں کو دلائل سے سمجھائیں کہ اسلامی احکام خود انسانوں کی بھلائی کے لیے دیے گئے ہیں۔ بچوں کے سوالات سنیں، ان سے ان کے خیالات کے بارے میں پوچھیں اور ان کی الجھنیں دور کریں ورنہ وہ انٹرنیٹ سے گمراہ کن جوابات لیں گے۔ بچپن ہی سے بچوں کو پردہ، شرم و حیا اور نظریں بچانے کی تربیت دی جائے۔ ماں باپ خود بھی موبائل، انٹرنیٹ، لباس اور گفتگو میں حیا کا نمونہ ہوں۔ لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کے لیے ’’اسلامی اقدار‘‘، ’’نظریں بچانا‘‘، ’’زنا کے نقصانات‘‘، ’’نکاح کی اہمیت‘‘ جیسے موضوعات پر ورکشاپ کیے جائیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم کے سوا دوسرا راستہ نہ ہو تو لڑکے اور لڑکیوں کو اختلاط سے بچنے اور نظروں کی حفاظت پر لیکچر دیے جائیں۔
۳۔ جمعہ کے خطباء صرف روایتی وعظ تک محدود نہ رہیں بلکہ نوجوانوں کے ذہنی، جنسی اور اخلاقی چیلنجز پر قرآن و سنت کی روشنی میں بات کریں۔زنا، پورن، ناجائز تعلقات کے دنیوی و اخروی نقصانات پر کھل کر بات کریں۔معاشرے کی تباہی کے اصل اسباب کو بیان کریں۔ خطبات میں ان موضوعات پر گفتگو کریں: غض بصر، نکاح کی اہمیت، سوشل میڈیا کا فتنہ، بچوں کی تربیت۔مسجدوں میں علماء نوجوانوں کے لیے ’’اوپن سیشن‘‘ رکھیں تاکہ وہ سوالات کر سکیں۔ علماء اور دینی رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کریں تاکہ وہ گمراہ کن چینلوں کے شر سے بچیں۔ آج کا نوجوان سچائی جاننا چاہتا ہے، لیکن سچائی تک رسائی کے ذرائع آلودہ ہیں۔ والدین، اساتذہ، علماء اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار نبھانا ہوگا۔
۴۔مسلم اسکالرس علمی و سائنسی میدان کے افراد سے اشتراک کریں۔سیکسولوجسٹوں، سوشیالوجسٹوں اور سائیکولوجسٹوں سے رابطہ کریں۔ سیمیناریں منعقد کرکے ان کو مدعو کریں۔ان سیمیناروں کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اسلامی احکام انسانی فطرت اور اس کی نفسیات سے ہم آہنگ ہیں۔عالمی سطح پر پالیسی میکرز، قانون ساز ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات میں دلچسپی رکھتی ہیں کہ معاشرے کو زنا، ریپ، گھریلو تشدد اور طلاق سے کیسے بچایا جائے۔ مسلم اسکالرز اسلامی احکام کو بطور ’’معاشرتی اصلاحی حل‘‘ کے طور پر پیش کریں۔ مشہور صحافی، یوٹیوبرز، سوشل ورکرز، لائف کوچز اور اثر و رسوخ رکھنے والے انفلوئنسرز کو ساتھ ملا کر اسلامی نظریات کو عقلی، نفسیاتی اور سماجی فائدے کے تناظر میں بیان کریں مثلاً کوئی ایک معروف اسکالر اور ایک مشہور یوٹیوبر مل کر ایک ویڈیو اس موضوع پر بنائیں کہ کس طرح غضِ بصر انسان کی ذہنی صحت کی حفاظت کرتا ہے: "Why Lowering the Gaze Protects Mental Health”۔ اس کے ذریعے لاکھوں افراد کو موثر پیغام دیا جا سکتا ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے رہنما بھی زنا اور بے حیائی کے خلاف ہیں۔ مسلم اسکالرز ان مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر مشترکہ اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے عالمی تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں۔ مثلاً ان ناموں سے ایسی تحریکوں کا آغاز کیا جا سکتا ہے:”Global Morality Initiative”، "Protecting Family Values in the 21st Century”۔اسلامی اسکالروں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ مل کر اخلاقی تعلیمات کو اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کروا سکتے ہیں ۔
۵۔مسلم دنیا میں ایسے تھنک ٹینک قائم ہوں جو زنا، پورنوگرافی اور سوشل میڈیا بے راہ روی پر تحقیقی رپورٹیں تیار کریں۔ان کے حل کے لیے اسلامی تجاویز دیں۔ ان رپورٹوں کو اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) وغیرہ تک پہنچائیں۔ جامعہ الازہر، دارالعلوم دیوبند، مدینہ یونیورسٹی اور قاہرہ یونیورسٹی جیسے ادارے بین الاقوامی فورموں پر اسلام کا موقف مضبوط طریقے سے پیش کریں۔ اسلام کو "Reformative Force” کے طور پر دنیا میں متعارف کرائیں۔
مسلم اسکالرز اگر اپنی بات ’’مسجد کے منبر‘‘ یا ’’مدرسہ کے حلقے‘‘ میں محدود رکھنے کے بجائے وہ دانشوروں، ماہرین تعلیم، ماہر نفسیات، سوشل ورکرز اور میڈیا انفلوئنسرز کے ساتھ اشتراک و تعاون سے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں تو وہ دن دور نہیں جب اسلام کا اخلاقی پیغام پوری دنیا میں نہ صرف سنا جائے گا، بلکہ اپنایا بھی جائے گا۔
***
پورن فلمیں آسانی سے فراہم ہونے کی وجہ سے مسلم معاشروں میں بھی زنا عام ہوتا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر فحاشی کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام کرتی۔انسانوں میں سے جو لوگ صحیح سوچ کے حامل ہیں ان کو ساتھ لے کر مسلم قوم ملکی سطح پر مہم چلاتی اور فحاشی کے نقصانات سے انسانیت کو آگاہ کرتی۔ بھارت میں اگر مسلمان اس طرح کی مہمات چلائیں تو اس کو مسلم ایشو بنا کر نظر انداز کر دیا جائے گا۔ اس لیے معاشرہ میں اخلاقی حس رکھنے والوں کو لے کر ایسی مہم چلائی جائے۔ ایسی مہم نہ صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حصہ ہوگی بلکہ یہ دعوت الی اللہ کے مواقع بھی پیدا کرے گی۔ ملکی سطح پر ایسی مہم جوئی کے امکانات موجود ہیں۔ اس سلسلے میں کھل کر ہم اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ زنا انجام کے اعتبار سے بہت برا راستہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025