
اس انصاف کا کیا فائدہ جو وقت پر ہی نہ ملا؟
کمال احمد انصاری : بے گناہی کا مژدہ قبر پر سنایا گیا
ناگپور (دعوت نیوز بیورو)
ناگپور 2006 کے ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمے میں عدالت نے گزشتہ مہینے تمام تیرہ مسلم نوجوانوں کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کر دیا۔ ان میں سے ایک کمال احمد انصاری تھا جو ناگپور جیل میں سزا کاٹ رہا تھا اور کووِڈ کے دوران جیل ہی میں اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ پچھلے دنوں کتاب "بے گناہ قیدی” کے مصنف ڈاکٹر عبدالوحید شیخ اور ان کے خاندان والوں نے ان کی قبر پر جا کر عدالتی فیصلے کی نقل پڑھ کر سنائی۔ قبر پر ان کو دعا دیتے ہوئے خاندان والوں نے کہا ’تم بے گناہ تھے، یہ الفاظ سننے کے لیے تم آج زندہ نہیں ہو۔ کمال انصاری! ائے کاش کہ تم زندہ ہوتے۔‘
ناگپور کے جری پٹکہ قبرستان کی ٹھنڈی مٹی کے نیچے ایک معصوم انسان کی زندگی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔ ان کے بیٹے نے قبر کے پاس کھڑے ہو کر عدالت کے فیصلے کی نقل پڑھی۔ کاغذ پر لکھا پر لفظ ‘بے گناہ’ کا یہ فیصلہ ان کے کانوں سے ٹکراتا رہا مگر اسے سننے والا کمال احمد انصاری آج زندہ نہیں تھا۔یہ فیصلہ اس کی بے گناہی کا ثبوت تھا، مگر اسے قبول کرنے والا آج موجود نہیں تھا۔ سولہ سال قبل جس کی پیشانی پر ‘دہشت گرد’ کا ٹھپہ لگا تھا وہ آج بعد از موت "با عزت” بری ہو رہا تھا۔ ایک لمحہ سوچیں، آخر کیوں؟ جس انصاف کے لیے اس نے سولہ سال جیل میں گزارے، جس کے لیے اس کے خاندان نے ذلت اٹھائی، وہ انصاف اسے اس کی قبر پر ملا۔ یہ انصاف نہیں، بے گناہوں کے ساتھ کھیل ہے۔
کمال احمد انصاری، بہار کے مدھوبنی کا ایک عام نوجوان تھا۔ اس پر لگائے گئے الزامات جیل میں برداشت کی گئی اذیتیں، یہ صرف ایک انسان کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے انصاف کے نظام کی تاخیر اور کمزوری کی داستان ہے۔ اس کے بچے والد کی شفقت کے بغیر بڑے ہوئے، بیوی روز معاشرے کے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دیتی رہی۔ 2019 میں جب دنیا ایک نا معلوم دشمن سے لڑ رہی تھی، بہار کا کمال احمد انصاری انصاف پانے کے لیے آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ناگپور جیل کے سیل میں وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ تھے اس کے بچوں کی یادیں، بیوی کی آنکھوں کے آنسو اور معاشرے کے دیے ہوئے الزامات کا دکھ بھی تھا۔ انصاف ملنے سے پہلے ہی اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔آج اس کی قبر سے ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے: ‘اس انصاف کا کیا فائدہ جو وقت پر ہی نہ ملا۔’ یہ انصاف اس خاندان کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں دے سکتا۔ اس کے بچوں کے چہروں کی مسکراہٹ واپس نہیں لا سکتا۔ جسے وقت پر انصاف نہیں ملتا اس کا انصاف کے نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جاتا ہے۔کمال احمد انصاری کی قبر صرف مٹی کا ڈھیر نہیں یہ ہر معصوم انسان کے خاموش ہو چکے آہوں کی داستان ہے۔ یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ انصاف اگر وقت پر اور صحیح وقت پر نہ ملے تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔خدا کمال احمد انصاری کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔ آمین۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025