
!الیکشن کمیشن کا پورے ملک میں ایس آئی آر کرانے کا منصوبہ
راہل کے ہائیڈروجن بم کا وارانسی سے تعلق!۔ووٹر ادھیکار یاترا کے جواب میں بہار کے حکمران محاز کا ’بہاربند‘
محمد ارشد ادیب
یو پی میں خودکشی کے بڑھتے واقعات پر تشویش۔اے بی وی پی کا یوگی حکومت کے خلاف مورچہ!
مدھیہ پردیش میں محکمہ صحت کا برا حال، اندور میں چوہوں نے نوزائدہ بچوں کو کتر ڈالا
شمالی ریاستوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں،سپریم کورٹ نے مرکز سے جواب طلب کیا
پنجاب کے سیلاب متاثرین سے مسلمانوں کی ہمدردی، میوات کے باشندے راحت رسانی میں پیش پیش
جنوبی ہند سے شروع ہونے والا ووٹ چوری کا معاملہ شمالی ہند پہنچ کر ایٹم بم میں بدل گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر وکانگریس رہنما راہل گاندھی نے بہار کی ووٹر ادھیکار یاترا کے اختتام پر اعلان کیا کہ وہ جلد ہی ہائیڈروجن بم داغنے والے ہیں۔ یو پی کانگریس کمیٹی کے ریاستی صدر اجئے رائے نے راہل گاندھی کے بیان کو ڈیکوڈ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ راہل گاندھی کا اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے وارانسی کی انتخابی دھاندلی کی طرف ہے۔ کانگریس و دیگر اپوزیشن جماعتیں کافی عرصے سے الزام لگا رہی ہیں کہ وزیر اعظم نے انتخابی دھاندلی سے وارنسی کا انتخاب جیتا ہے۔ اگر یہ سچ ثابت ہو جائے تو ان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ یاد رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف اجے رائے نے انڈیا بلاک کے مشترکہ امیدوار کے طور پر چناؤ لڑا تھا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انڈیا بلاک کے مشترکہ امیدوار نے وزیر اعظم کو کڑی ٹکر دی تھی۔ گنتی کے دوران وہ کئی بار وزیر اعظم سے سبقت لے گئے تھے لیکن ایک سازش کے تحت اجے رائے کو ہروا دیا گیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق راہل گاندھی وارانسی کی انتخابی دھاندلی سے متعلق اہم انکشافات کر سکتے ہیں۔ سونیا گاندھی کے خلاف دلی میں شہریت سے پہلے ووٹر بننے کے کیس کو بھی اسی معاملے سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی دوران الیکشن کمیشن کے ذرائع سے خبر آرہی ہے کہ کمیشن پورے ملک میں یکم جنوری سے ایس آئی آر کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تمام ریاستوں کے چیف الیکشن آفیسروں کی ایک اہم میٹنگ طلب کی گئی ہے ۔
بہار میں حکم راں ٹولے کی غنڈہ گردی
بہار میں ووٹر ادھیکار یاترا کے دوران گالی گلوچ کے خلاف این ڈی اے نے بہار بند منایا۔ اطلاعات کے مطابق بند کے دوران حکم راں ٹولے نے غنڈہ گردی کی۔ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے ایکس پوسٹ میں لکھا ’’بہار بند کے بہانے بی جے پی کارکن سڑکوں پر خواتین اور عام لوگوں سے بدتمیزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ امت شاہ کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا "گجراتیوں کو بہاریوں کو اتنے ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ یہ بہار ہے بہاری تو ووٹ چور مودی کے ڈرامے اور بی جے پی کی غنڈہ گردی میں تعاون کرنے سے رہے۔‘‘ واضح رہے کہ بند میں کئی مقامات پر ٹیچروں کو اسکول جانے سے روکا گیا۔ ایک ایمبولنس میں جانے والی حاملہ خاتون کو ہسپتال جانے سے روک دیا گیا۔ پٹنہ میں ایک مقام پر آتش زنی کی گئی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم کو گالی دینے کی الزام میں بہار پولیس رضوی نام کے ایک نوجوان کو گرفتار کر چکی ہے، اس کے باوجود اسے سیاسی لڑائی کا موضوع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بند کے دوران زبردست گالی گلوچ کا تبادلہ ہوا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بہار بند کے واقعات این ڈی اے کے لیے بیک فائر کر سکتے ہیں۔
یو پی میں خود کشی کے بڑھتے واقعات اور بے روزگاری
اتر پردیش میں ایک ہندی اخبار کے سروے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ریاست میں خود کشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست میں پانچ برسوں میں 17ہزار 509 نوجوان خودکشی کر چکے ہیں۔ یو پی اسمبلی میں سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ارمان خان کے سوال کے جواب میں حکومت نے یہ اعداد و شمار پیش کیے۔ خود کشی کے معاملوں میں لکھنؤ پہلے نمبر پر اور کانپور دوسرے نمبر پر آئے جبکہ باندہ تیسرے مقام پر ہے۔ سرکار نے بے روزگاری، پڑھائی کا پریشر اور خاندانی جھگڑوں کو اس کی وجہ بتایا ہے۔ قومی سطح پر نو جوانوں میں خود کشی کی اوسط چار فیصد ہے لیکن یو پی میں نو فیصد کے حساب سے ہر سال خود کشی کی اوسط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رکن اسمبلی ارمان خان کا کہنا ہے کہ میں نے سرکار سے سوال کیا تھا کہ کیا ریاستی حکومت خود کشی کے رجحان کو روکنے کے لیے کونسلنگ سنٹرز قائم کرنے پر غور کرے گی؟ اس پر سرکار نے جواب دیا کہ مختلف اداروں میں کونسلنگ پروگرام چل رہے ہیں تاہم اس نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ مبصرین کے مطابق یو پی کے وزیر اعلیٰ صوبے میں بے روزگاری دور کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں، ان کی تشہیر پر کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات ان دعوؤں کی قلعی کھول رہی ہے۔ لکھنو میں روزگار میلہ لگا کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہزاروں نوجوانوں کو روزگار دیا جائے گا لیکن وہ بھی فلاپ ثابت ہوا۔
بی جے پی کی طلبہ تنظیم کا یوگی سرکار کے خلاف مورچہ!
یو پی میں یوگی سرکار کے خلاف عوامی ناراضگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حلیف جماعتیں آپس میں ہی ٹکرانے رہی ہیں۔ غیر تو غیر، اپنی ہی سرکار کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے حکومت کو انتباہ دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اے بی وی پی کے کارکن بارہ بنکی میں ایک لا یونیورسٹی کے باہر تعلیمی اداروں کی بدعنوانی اور طلبہ کے مسائل پر احتجاج کر رہے تھے۔ مقامی پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کر دیا اس میں کئی طلبہ لیڈر زخمی ہو گئے۔ طلبہ تنظیم نے اس کے خلاف لکھنو یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کے ساتھ آگ زنی کی۔ اس پر ریاستی کابینہ کی وزیر اوم کاش راج بھر نے انہیں غنڈے کہہ دیا تو تنظیم کے کارکن ان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دینے پہنچ گئے۔ طلبہ تنظیم کے لیڈر اودھیش تیواری نے راج بھر کو قانونی نوٹس بھیج کر معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں سماجوادی پارٹی کی طلبہ تنظیم بھی اے بی وی پی کا ساتھ دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پورے صوبے میں تعلیمی مافیا چھائے ہوئے ہیں انہیں روکنا ضروری ہے۔سیاسی تجزیہ نگار اس معاملے کو سنگھ پریوار میں آپسی اختلافات سے تعبیر رہے ہیں۔
بے روزگار نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی ناراضگی و مایوسی
اتر پردیش میں بے روزگار نوجوانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نوجوانوں کو نوکریوں کے نام پر ادھر سے ادھر دوڑایا جا رہا ہے۔ پی ای ٹی کے امتحانی مراکز پانچ پانچ سو کلومیٹر دور الاٹ کیے گئے ہیں۔ اس دوران محکمہ صحت کی جانب سے 1260 امیدواروں کا انتخاب ہوا ہے۔ اشونی یادو نام کے ایک نوجوان نے ایکس پوسٹ میں لکھا "یو پی میں تماشا چل رہا ہے، اکثر طلبہ پی ای ٹی کے اہلیتی امتحانات میں لگے ہوئے تھے اسی دوران پرتاپ گڑھ کے طلبہ کو فون کر کے جوائننگ لیٹر دینے کے لیے بلایا گیا وہاں جاکر پتہ چلا کہ سی ایم او میٹنگ میں ہیں جوائننگ کی ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ امیدوار مایوس ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک کے محکمہ کا حال ہے اس کے باوجود بے روزگار امیدواروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پی ای ٹی اہلیتی امتحانات کے دوران بھی طلبہ کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی شہروں میں سیلاب کی صورتحال کے مدنظر سنٹرز تبدیل کیے گئے جس سے امیدواروں کو سنٹر ڈھونڈنے میں کافی مشقت کرنی پڑی۔
شمالی ریاستوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں، قدرتی آفت یا انسانی کارستانی؟
سپریم کورٹ نے چار ریاستوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا نوٹس لیتے ہوئے مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا ماننا ہے کہ یہ صرف قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ انسانوں کا پیدا کردہ بحران ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس چندرن کی دو رکنی بینچ نے انامیکا رانا کی عرضی پر سماعت کے بعد تین ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انامیکا رانا نے ہماچل پردیش کے سیلاب میں لکڑیوں کے گٹھے بہہ کر آنے کا حوالہ دیا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے جنگلوں کی غیر قانونی کٹائی اور پہاڑوں پر انسانی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔سپریم کورٹ کے جاگنے کے بعد مرکزی حکومت بھی حرکت میں آگئی ہے۔ وزارت داخلہ کی ٹیموں کو متاثرہ ریاستوں میں نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے بعد راحت رسانی کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ اسی دوران مرکزی آبی کمیشن نے وارننگ دی ہے کہ 22 دریائیں نگرانی کے مراکز پر خطرے کے انتہائی نشان سے اوپر بہہ ر ہی ہیں اور کبھی بھی حالات بگڑ سکتے ہیں۔سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ہماچل پردیش، جموں و کشمیر اتر اکھنڈ اور پنجاب میں ہوا ہے، ان کے علاوہ قومی دارالحکومت دہلی، راجستھان اور گجرات میں بھی سیلاب سے عام زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ مشرقی یو پی کے کئی اضلاع اور بہار میں سیلاب سے حالات سنگین بنے ہوئے ہیں۔
صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا ۔
***
پنجاب میں مسلم تنظیموں نے پنجابیوں کا دل جیت لیا
پنجابی اپنے لنگر اور مہمان نوازی کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کی یہی عادت ان کے کام آرہی ہے۔ پنجاب کی مشہور ہستیوں کے علاوہ مسلم تنظیمیں بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا کام انجام دے رہی ہیں۔ دیویندر پال سنگھ نے ایکس پوسٹ میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا” پنجاب میں دو قسم کی باڑھ آئی ہوئی ہے ایک تو دریاؤں کی اور دوسری میرے مسلمان بھائی بہنوں کی طرف سے محبت اور مدد کی باڑھ۔ میرا تو پہلی والی باڑھ کا شکریہ جس نے ہم سکھ اور مسلمان بھائیوں کے سانجھے چولہے جلا دیے۔” واضح رہے کہ پنجاب کے شاہی امام اپنی نگرانی میں راحت رسانی کا کام انجام دے رہے ہیں، اس کے علاوہ میوات کے مسلمانوں نے پنجابیوں کی امداد کے لیے اپنے دل نکال کر رکھ دیے ہیں۔ ایک ضعیف خاتون نے اپنے چاندی کے کنگن بیچ کر راحت رسانی کے کام میں عطیہ کر دیے۔ بچوں نے اپنے غلوں کی جمع پونجی سیلاب متاثرین پر نچھاور کر دی۔ مسجدوں سے بلا تفریق مذہب و ملت سیلاب متاثرین کی امداد کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ اس میں جماعت اسلامی ہند کے علاوہ دیگر مسلم تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں جو مستقبل کے لیے کافی خوش آئند بات ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025