جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

مولانا سعدکاندھلوی سے عمر خالد اور شرجیل امام تک

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

عدالتیں خاموش ہیں، حکومت بولتی ہے؟ دہلی فسادات کے اصل مجرم کون؟
کیا صرف مسلم ہونا جرم ہے؟ پانچ سال سے جیل میں ہے ابھی ٹرائل بھی نہیں ہوا !
کپل سبل، پرشانت بھوشن اور مہوا موئترا سب کا ایک سوال ؛ انصاف کہاں ہے؟
سال 2020 میں مودی نے ٹرمپ کو نمستے کرنے کے لیے احمد آباد بلایا۔ اس کے فوراً بعد دہلی میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ اسی کے ساتھ کورونا کی وبا پھیل گئی۔ اس کو وجہ بنا کر نہ صرف شاہین باغ کی تحریک روک دی گئی بلکہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد کی جنگ چھیڑ دی گئی۔ عمر خالد سمیت بے شمار بے قصور مسلم نوجوانوں کو این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کی پاداش میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ لوگ پانچ سال سے ضمانت کے منتظر ہیں۔ لیکن کم از کم یہ ہوا کہ تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کو بری کر دیا گیا۔ اگر وہ گرفتار ہوتے تو اب تک رہائی نہیں ملتی کیونکہ تب تو یہ حکومت کی ناک کا مسئلہ بن جاتا۔ مودی سرکار کا یہ حال ہے کہ جب وہ کسی تنازع کو انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے تو جبر و استبداد کی حدود پار کرنے میں پس وپیش نہیں کرتی۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع کو عوامی اجتماعات سے متعلق رہنما خطوط کی خلاف ورزی قرار دینے والے بھول گئے کہ اس سے فوراً پہلے ٹرمپ کی خدمت میں خود وزیر اعظم نے لاکھوں لوگوں کو جمع کیا تھا حالانکہ اس سے قبل کورونا کی ملک میں آمد ہو چکی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی کی نمستے ٹرمپ ریلی میں جمع ہونے والے لاکھوں لوگوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ 5؍ اپریل 2020 کو وزارت صحت کے سابق جوائنٹ سکریٹری لوو اگروال نے دعویٰ کیا تھا کہ بستی حضرت نظام الدین میں اجتماع کے سبب ملک میں کورونا کے پھیلنے کی شرح دوگنی ہوگئی ہے۔ آگے چل کر گودی میڈیا نے مسلمانوں پر ’کورونا جہاد‘ کا جھوٹا اور قابل مذمت الزام اس زور و شور سے لگایا کہ 2020 میں امریکہ کے معروف ادارہ پیو ریسرچ سنٹر کی رپورٹ میں ریاست کے ایک طبقے کے ذریعہ مخصوص مذہبی گروہوں کے خلاف کووڈ-19 سے متعلق دشمنی سے جڑے انڈیکس میں ہندوستان کو سرِ فہرست رکھا گیا۔ یہ حکومت مودی کا منفرد اعزاز ہے جس سے پیچھا چھڑانے کے لیے پھر کسی وبا کے آنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ مذکورہ بالا سانحہ کے ساڑھے پانچ سال بعد دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے موجودہ تفتیشی افسر نے سینئر حکام کو مطلع کیا کہ مرکز نظام الدین کے امیر محمد سعد کاندھلوی کے لیپ ٹاپ سے برآمد کیے جانے والی تقریروں میں ’کچھ بھی قابل اعتراض‘ نہیں ملا۔
اس اعترافِ حق کو31؍ مارچ 2020 کے سابق ایس ایچ او کی طرف سے درج کی گئی شکایت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بستی حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن کے انچارج نے اس وقت مولانا محمد سعد اور دیگر کے خلاف غیر ارداتاً قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔ ایس ایچ او نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ ’21 مارچ 2020 کو مبینہ طور پر مولانا سعد کی ایک آڈیو ریکارڈنگ وہاٹس ایپ پر وائرل ہوئی تھی جس میں مقرر کو اپنے پیروکاروں سے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی خلاف ورزی کرنے اور مرکز میں مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے کہتے سنا گیا تھا‘۔ پانچ سال بعد جب 17 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کو مبینہ طور پر پناہ دینے کے الزام میں ستر ہندوستانیوں کے خلاف درج سولہ مقدمات کو چارج شیٹ سے خارج کر دیا تو دہلی پولیس کو اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کا رویہ نرم ہو تو انتظامیہ اور عدلیہ از خود موافق ہو جاتے ہیں اور دیر سے ہی سہی انصاف مل جاتا ہے ورنہ شرجیل امام اور عمر خالد جیسا حال ہوتا ہے۔
مولانا سعد کاندھلوی سرکاری عتاب سے اس لیے بچ گئے کیونکہ وہ ایک بہت بڑی تحریک کے سربراہ ہیں۔ اس تحریک کی سرگرمیاں امیر پر لگنے والے الزامات یا مقدمہ سے متاثر نہیں ہوتیں بلکہ بدستور جاری و ساری رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کی اصلاحی محنت سے حکومت وقت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس لیے یہ سرکاری پیغام دیا گیا کہ ان کے ’ذکر و فکر و صبح گاہی‘ سے اسے کو کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن اگر اس کے ظلم و جبر کو چیلنج کیا جائے گا تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موجودہ سرکار کے اہلکاروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر حق کی راہ میں جدو جہد کرنے والوں کو ابتلاء و آزمائش کے طوفان سے روکنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے لیے قرآن کا فرمان ہے ترجمہ: ’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ یونہی بِلا آزمائش جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت ہی نہیں گزری جو تم سے پہلے گزر چکے، انہیں تو طرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور انہیں اس طرح ہلا ڈالا گیا کہ خود پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی پکار اٹھے کہ ﷲ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ بے شک ﷲ کی مدد قریب ہے‘‘۔ آزمائش کی توقع اور نصرت الٰہی کا تیقن امت مسلمہ کے جیالوں کو صبرو استقامت کے ساتھ طاغوت سے بر سرِ پیکار رکھتا ہے۔ امت کا تو مزاج ہے؎
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
عمر خالد اور شرجیل امام سمیت محمد سلیم خان، شفا الرحمان، اطہر خان، میراں حیدر، خالد سیفی اور گلفشاں فاطمہ کے خلاف فروری 2020 کے فسادات میں مبینہ طور پر ’’ماسٹر مائنڈنگ‘‘ کا بے بنیاد الزام لگا کر یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ حکومت کا الزام ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا لیکن اس کی اصل وجہ کپل مشرا کی کھلے عام دھمکی تھی مگر وہ تو فی الحال دہلی میں وزیر انصاف بنا پھرتا ہے۔ ریاست کا وزیر انصاف اگر فسادی ہو اور اس کے سر پر تڑی پار وزیر داخلہ کا سایہ ہو تو عدالت کیا کرسکتی ہے؟ ان گرفتاریوں سے نکلنے کے لیے 2022، 2023 اور 2024 میں ضمانت کی درخواست دی گئی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے عمر خالد کی یہ چھٹی عرضی مسترد کی ہے۔ ہائی کورٹ میں پہلی اپیل پر 180 دن میں 28 سماعتیں ہوئیں لیکن ضمانت نہیں ملی۔ اس کے بعد خالد نے سپریم کورٹ کا رخ کیا لیکن وہاں کیس 272 دن تک زیرِ التوا رہا۔ جسٹس پرشانت کمار مشرا نے سماعت سے خود کو الگ کر لیا، پھر خالد کو کیس واپس لے کر نچلی عدالت میں جانا پڑا۔
سپریم کورٹ بارہا کہہ چکی ہے کہ ضمانت کے مقدمات کی فوری سماعت ہونی چاہیے لیکن خالد کی دوسری اپیل پر دہلی ہائی کورٹ میں 407 دن تک سماعت ہوئی۔ 9 جولائی 2025 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا مگر سنایا نہیں گیا۔ پھر جب یہ کیس دوسری بنچ کے پاس گیا تو اس نے بھی سماعت سے انکار کر دیا اور بالآخر جسٹس نوین چاولا اور جسٹس شیلندر کور کی بنچ نے شرجیل امام، عمر خالد اور دیگر لوگوں کی درخواست ِضمانت مسترد کردی۔ امسال جنوری اور جولائی میں ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے نچلی عدالتوں کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے ضمانت میں تاخیر پر سرزنش کی تھی اس کے باوجود دہلی ہائی کورٹ نے ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ مقدمہ کا شروع نہ ہونا ضمانت کی بنیاد نہیں بن سکتا اور اسے ہر معاملے میں نافذ بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے عمر خالد اور دیگر کی ضمانت کی عرضی مسترد کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس معاملے پر کیا نافذ کیا جائے اور کس کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے؟ اس کا فیصلہ اگر حکومت کے چشم ابرو کو دیکھ کر کیا جائے گا تو انصاف کیسے ہوگا؟ کیا اسی لیے ہندوستانی عدالت میں علامتی مجسمے کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی گئی ہے۔ اس کے ہاتھ سے تلوار چھین کر کتاب پکڑا دی گئی ہے۔ اس کتاب میں سرکار کی مرضی درج ہوتی ہے جسے جج صاحبان نافذ کرتے ہیں۔
اس معاملے میں کورٹ کی بدنیتی کا اظہار اس جملے سے ہوتا ہے کہ مقدمہ سے قبل ہی وہ کہہ رہا ہے کہ عمر خالد اس معاملے میں کلیدی ملزم ہے اس لیے اسے ضمانت دینے پر بہت غور کرنا ہو گا۔ کسی بھی قفل کی کنجی تو ایک ہی ہوتی ہے اس معاملے میں شاہِ کلید اگر عمر خالد ہے تو باقی لوگوں کو ضمانت دینے میں کیا رکاوٹ تھی؟ سرکاری وکیل ضمانت کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ منصوبہ بند فسادات ایک مذموم مقصد اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے مطابق یہ ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش ہے اور محض طویل قید ہی ضمانت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ تبصرہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے لیکن اگر سالیسیٹر جنرل ہی عدالتی احکامات کی پامالی پر اتر جائے تو عدلیہ کا کیا ہوگا؟ معروف وکیل اور رکن پارلیمنٹ کپل سبل نے ان سارے اوٹ پٹانگ الزامات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ عدلیہ اس معاملےکی سماعت میں تاخیر کر رہی ہے جو آئین کے آرٹیکل 21 کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق اگر عدالت سالوں تک فیصلہ نہیں دیتی تو کیا قصور وار ہم ہیں؟ اگر آپ ضمانت نہیں دینا چاہتے تو کیس خارج کر دیجیے۔ بیس بیس تیس تیس بار سماعت کیوں کرتے ہیں؟
کپل سبل نے اپنے موقف کی وضاحت اس طرح کی کہ اگر کوئی ہندوستانی شہری ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بنتا ہے تو ہم اس کے ساتھ نہیں بلکہ ملک کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن بے گناہوں کی پشت پناہی بھی تو ضروری ہے۔ وہ بولے کہ احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایجنسیاں یو اے پی اے کے تحت لوگوں کو جیل میں ڈال دیں۔ سبل کے مطابق خالد نے یہ تقریر ممبئی میں کی تھی اور فسادات کے وقت وہ دہلی میں موجود ہی نہیں تھا۔ کوئی براہِ راست ثبوت نہیں، پھر بھی وہ پانچ سال سے جیل میں ہے اور ضمانت نہیں ملی۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت ہوئی تو سب بری ہو جائیں گے اور یہ سازش بے نقاب ہو جائے گی۔ کپل سبل اس کی یہ وجہ بتاتے ہیں کہ استغاثہ نے ’’محفوظ گواہوں‘‘ کے بیانات ملزمین کو فراہم نہیں کیے ایسے میں وہ اپنے دفاع میں بحث کیسے کر سکتے ہیں؟ انہوں نے واضح کیا کہ چارج شیٹ کوئی ثبوت نہیں بلکہ ایجنسی کی رائے ہے، اگر اسے ہی اگر ثبوت مان لیا جائے تو پھر کسی کو بھی ضمانت نہیں ملے گی۔
کپل سبل کو سِول سوسائٹی سے شکایت ہے کہ وہ خاموش کیوں ہے؟ مگر معروف سماجی کارکن اور سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اپنے نہایت سخت رد عمل میں کہا کہ ’’عمر خالد کو ستمبر2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر مجرمانہ سازش، ہنگامہ آرائی، غیر قانونی اجتماع یو اے پی اے کے تحت دیگر دفعات عائد کی گئی ہیں۔ گرفتاری کے بعد سے وہ مسلسل جیل میں ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس کیس میں اب تک ٹرائل ہی شروع نہیں ہوا ہے تو ضمانت کیوں نہیں دی جا رہی ہے اور اسے جیل ہی میں رکھنے پر اصرار کیوں ہے؟ اس نوجوان کے پانچ سال برباد کر دیے گئے ہیں۔‘‘ پرشانت بھوشن چونکہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں اور حقوق انسانی کے معاملات میں دونوں مل کر جدوجہد کرتے رہے ہیں اس لیے وہ عمر خالد کو خوب جانتے ہیں۔ ان کے مطابق عمر خالد ہمیشہ ملک کے غریب اور پسماندہ طبقات کی بات کرتا تھا۔ اس کی ہر تقریر میں عدم تشدد کا ذکر ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ مسلمان ہے اسی لیے مودی کی پولیس نے اسے قید کر رکھا ہے۔ پانچ برس گزر جانے کے بعد بھی اس کا ٹرائل شروع نہیں ہوا، پھر بھی ہائی کورٹ نے ضمانت نہیں دی۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ کیا اس ملک میں ضمانت حاصل کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے یا اسے مشکل بنایا جا رہا ہے؟
کپل سبل ملک کو سیاسی لیڈروں سے بھی شکایت ہے مگر ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ اور مودی حکومت کی ایک بڑی ناقد مہواموئترا نے عمر خالد کو ضمانت نہ ملنے پر ٹویٹ کرکے اس طرح احتجاج کیا ’’پانچ سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد بھی اگر ضمانت نہ ملے تو پھر انصاف پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ ابھی تک تو عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی اور دیگر لوگوں کے معاملے میں مقدمہ بھی شروع نہیں ہوا ہے تو پھر انہیں ضمانت کیوں نہیں دی جا رہی ہے؟ یہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے کہ اب ہمیں سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر شاید ہمیں انصاف نہ ملے۔‘‘ کپل سبل بھی سپریم کورٹ جانے کی بات کہہ رہے ہیں جبکہ شرجیل امام نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ اس اپیل میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف ناکافی ثبوت کے سبب گرفتاری غیر قانونی ہے۔
فی الحال یہ معاملہ ملک بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کیس نے شہری آزادیوں اور انسداد دہشت گردی قوانین کی تشریح پر شدید بحث چھیڑ دی ہے۔ پچھلے ماہ اگست میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار جلال الدین کو ضمانت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر عدالتیں قابل ضمانت معاملات میں بھی ضمانت سے انکار کریں گی تو یہ شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ وہ معاملہ بھی شرجیل کے آبائی وطن پھلواری شریف، بہار کا تھا۔ وہاں جلال الدین نامی شخص نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو اپنی زمین کرایے پر دی تھی۔ اس پر اپنی زمین ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے مبینہ رکن کو کرایہ پر دینے کا الزام لگا کر کہا گیا کہ تنظیم نے اس زمین کا استعمال اپنے اراکین کو ٹریننگ دینے کے لیے کیا۔ وہ لوگ وہاں اسلامک اسٹوڈنٹ مومنٹ آف انڈیا اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے اراکین کو ملا کر ایک نئی تنظیم تشکیل دے رہے تھے۔
یہ معاملہ پٹنہ ہائی کورٹ میں آیا تو خان کی درخواست ضمانت رد کر دی گئی۔ اس سے قبل خصوصی این آئی اے عدالت نے بھی یہی کیا تھا کیوں کہ مرکزی حکومت نے 2022ء میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یو اے پی اے کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اس لیے خان کو بھی انہیں دفعات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ این آئی اے کے مطابق 2022 میں اس تنظیم کی غیر قانونی سرگرمیاں اس وقت منظر عام پر آئیں جب کرایے پر لی گئی اس زمین پر پولیس نے چھاپہ مارا تو پتہ چلا وہاں بہار سے باہر کے افراد نے ٹریننگ لی تھی۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ پہنچا تو اس نے صاف کہا کہ جب معاملہ ضمانت کا ہو تو عدالت کو اس میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ الزام سنگین ہو تب بھی عدالت کا فرض ہے کہ ضمانت کی عرضی پر آئین کے مطابق سماعت کرے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’ضمانت ضابطہ ہے جبکہ قید آخری راستہ ہے‘‘ یہ اصول خصوصی معاملات میں بھی نافذ ہوگا۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر عدالتیں قابل ضمانت معاملے میں بھی ضمانت دینے سے انکار کرنے لگیں تو یہ دفعہ اکیس کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی‘‘ کاش کہ یہ اصول دہلی پولیس کو معلوم ہوتا جس کو غلط فہمی ہے کہ عمر خالد اور شرجیل امام جیسے ’’سنگین‘‘ جرائم کے معاملے میں ’ضمانت ہی اصول ہے اور جیل استثنائی ہے‘ کے اصول کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کب کون سا اصول استعمال کیا جائے اور کب نہیں یہ فیصلہ عدالت کرے گی یاپولیس؟ لیکن جب تشار مہتا جیسے کینہ پرور سالیسیٹر جنرل کی زبان سے یہ جملہ ادا ہو تو کیا کیا جائے جب انہوں نے کہا ’’اگر آپ اپنی قوم کے خلاف کچھ کرتے ہیں، تو بہتر ہے کہ آپ بری ہونے تک جیل میں رہیں‘‘ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے تو خود تشار مہتا اور ان کے آقاؤں کا جیل جانا بہت ضروری ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 عمر خالد اور شرجیل امام سمیت محمد سلیم خان، شفا الرحمان، اطہر خان، میراں حیدر، خالد سیفی اور گلفشاں فاطمہ کے خلاف فروری 2020 کے فسادات میں مبینہ طور پر ’’ماسٹر مائنڈنگ‘‘ کا بے بنیاد الزام لگا کر یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ حکومت کا الزام ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا لیکن اس کی اصل وجہ کپل مشرا کی کھلے عام دھمکی تھی مگر وہ تو فی الحال دہلی میں وزیر انصاف بنا پھرتا ہے۔ ریاست کا وزیر انصاف اگر فسادی ہو اور اس کے سر پر تڑی پار وزیر داخلہ کا سایہ ہو تو عدالت کیا کرسکتی ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |