
دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ ’’ماسکوٹرائلز‘‘ کی یاد تازہ
سی اے اے مخالفین کو جیل کی نذر کرنے کی منظم سازش
نوراللہ جاوید، کولکاتا
شرجیل امام: جیل میں رہتے ہوئے بھی ’سازش‘ کا ملزم قرار، دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی
احتجاج کو یو اے پی اے کے تحت دہشت گردی قرار دینے کا خطرناک رجحان
کسان تحریک اور مراٹھا ریزرویشن دھرنے جرم نہیں تو سی اے اے مظاہرے جرم کیسے؟
انسانی تاریخ میں ’’عدالت کے ہاتھوں انصاف کا خون‘‘کے واقعات ناپید نہیں ہیں ۔عدالتوں کی نا انصافیاں کاپلڑا ظالم حکم رانوں کی نا انصافیوں سے کہیں زیادہ بھاری ہے۔ تاریخ میں عدالتوں کے ذریعہ ناانصافی، ظالم حکم رانوں کی تائید اور ان کے ناجائز ایجنڈوں میں عدالت کی شمولیت کا تسلسل ہے۔عدالتی تاریخ میں ’’ماسکوٹرائلز‘‘ (1936-1938) کو حکم رانوں اور عدالت کے درمیان ناپاک کٹھ جوڑکی بدترین مثال کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔جوزف اسٹالن اپنے مخالفین کوکنارے لگانے کے لیے عدالتوں کا سہارا لیتا تھا۔یہ ٹرائلز نمائش اور ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں تھے ۔ٹرائلز کے لیے عدالتی سجائی جاتی تھیں مگروہ عدالت نہیں تھی بلکہ جوزف اسٹالن کی خواہشات کے مطابق قیدیوں کے مقدرکافیصلہ کیاجاتا تھا۔ ماسکو ٹرائلز میں قیدیوں کو سزا دینے کی دو بنیادیں ہوتی تھیں ’’ایک جبری اعترافات‘‘ اور دوسرا ’’خفیہ گواہی‘‘۔جرم ’’عظیم سازش‘‘ ٹھیرایا جاتا تھا۔ماسکوٹرائلز کا ماسٹر مائنڈ لیون ٹراٹسکی کاالزام لگادینا کافی تھا۔ باقی سب کچھ عدالتیں کرتی تھیں۔ تاریخ کے صفحات ’’ماسکو ٹرائلز‘‘کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔2ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ پانچ برسوں سے قید شرجیل امام، خالد عمر اوردیگر نوافراد کی درخواست ضمانت پر جس طریقے سے فیصلہ سنایا ہے اس نے ایک بارثابت کردیا ہے کہ تاریخ خودکودہرارہی ہے۔جو کچھ ماسکو ٹرائلز میں ہوا وہ سب 2020میں دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کے الزام میں گرفتاران نو افرادکے خلاف ہورہا ہے۔یہ نوافراد وہ ہیں جنہوں نے جمہوریت کے طرزپر شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کی قیادت کی تھی۔مودی حکومت کی حکم رانی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس کے ذریعہ بنائے گئے قانون کے خلاف اتنے بڑے احتجاج کااہتمام کیا گیاتھا۔مسلمان جنہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش کی جارہی تھی، جنہیں خاموش اور خوف زدہ کمیونیٹی بنانے کی پوری کوشش تھی اسی سماج کے چند افراد نے خوف اور دہشت زدہ ماحول میں جرأت کی اور ملک کے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے نوجوانوں میں شعور و آگہی پیدا کردی۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج بھارت کے مسلمانوں کے لیے ٹرننگ پوائنٹ تھا۔مودی اور آر ایس ایس کو یہ گمان ہوگیا تھا کہ بھارتی مسلمان خوف زدہ قوم بن چکی ہے۔جرأت اورحوصلے سے عاری ہوچکی ہیں۔انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا بس ایک قدم دور ہے۔جمہوریت کے راستے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ دوسری مرتبہ 2019میں اقتدارمیں آنے والے مودی اوران کی پارٹی کے لیے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج غیر متوقع صورت حال پیدا کردی۔اس کے اقبال کو براہ راست نہ صرف چیلنج کردیا گیا بلکہ ختم کردیا۔اس طرح دیکھا جائے مسلم نوجوان کا یہ بہت بڑا قصور تھا۔چناں چہ دہلی فسادات کی آڑ میں وہ تمام نوجوان اور جمہوریت پسندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کوئی بھی جرأت کا مظاہرہ کرے گا اس کا یہی انجام ہوگا۔
پچاس سال قبل سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ ’’ضمانت اصول اور بنیادی حق ہے اور جیل مستثنیٰ ہے‘‘ چنانچہ اسی سپریم کورٹ میں رات میں جاگ کر لوگوں کو ضمانت دی گئی ہے۔ تاہم عمر خالد اور دیگر افراد کے معاملے میں سالوں کی تاخیر کو عدالت یہ کہہ کر جائز ٹھیرانے کی کوشش کی کہ مقدمہ فطری طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔سماعت میں تیزی سے دونوں فریق کو نقصان ہوگا۔ سالیسٹرجنرل کہہ رہے ہیں کہ جب تک عدالت ان افراد کے معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں سنا دیتی ہے اس وقت تک ان کا جیل میں ہی رہناہی بہتر ہے۔چاہے مقدمے کی سماعت میں نصف صدی ہی نہ گزرجائے۔ جب کہ سپریم کورٹ نے خودمتعدد مرتبہ یاد دلایا ہے کہ ’فوری ٹرائل کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ایک بنیادی حق ہے،تاخیر سے ذاتی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے؟سپریم کورٹ نے کہا کہ جیل میں ایک دن اضافی گزارنا بھی بہت زیادہ نا انصافی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تبصرے اپنی جگہ ہیں مگرکیا عدالتوں نے سپریم کورٹ کے اس اصول کے مطابق کام کیا؟ سالوں تک جیل میں قید و بند کی سزا کاٹنے کے بعد عدالتیں یہ کہہ کربری کردیتی ہیں کہ استغاثہ ملزمین کے خلاف واضح ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ۔حال ہی میں 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے معاملے میں بمبئی ہائی کورٹ نے بارہ ملزمین کو بری کر دیا اور کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ بری ہوجانے والے بارہ افراد جنہوں نے تقریباً دو دہائی جیل میں گزارے ہیں اور اس کی وجہ سے ان پر اوران کے خاندان پرجوگزری اور جوخواب بکھر گئے اس کا کیاہوگا؟کیا عدالتوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ کھوئے ہوئے دنوں اور خوابوں کامعاوضہ دیں اور انہیں سزا دیں جنہوں نے انہیں جیل میں بند کیا تھا؟خالد اور شرجیل امام اور دیگر افراد کے معاملے میں پانچ سال گزر چکے ہیں۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل چارج شیٹ جمع کرائی گئی سیکڑوں نامعلوم گواہوں کی گواہی درج کی گئی ہے اس کے باوجود عدالت کو لگتا ہے کہ ان کی درخواستیں غور کرنے کے لائق نہیں؟ سوال یہ ہے کہ آخر سپریم کورٹ کیوں بار بار کہتی ہے کہ ضمانت اصول ہے۔فوری سماعت آرٹیکل 21کے تحت بنیادی حق ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ خود سپریم کورٹ نے ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ درجنوں مرتبہ عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت کو موخر کیا ہے۔کئی مرتبہ بنچ کی تبدیلی کی گئی۔ایک دومرتبہ ججوں نے خود کو مقدمہ سے الگ کرلیا۔مگر ججوں نے نہیں بتایا کہ وہ اس معاملے کی سماعت نہیں کریں گے۔بنچوں کی تبدیلی اور ججوں کی علیحدگی کی وجہ سے مقدمے کی سماعت میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔چنانچہ دہلی ہائی کورٹ کا عمر خالد اور دیگر نو افراد کو دہلی فسادات کیس میں ضمانت دینے سے انکار کا حکم دراصل ہر اس شخص کو سخت تشویش میں ڈالنے والا ہے جو عدالت کی غیرجانبداری اور عدالتی نظام پریقین رکھتا ہے۔
فروری 2020 میں دہلی فسادات ہوئے جن میں چوّن افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں سے دو تہائی مرنے والوں کا تعلق مسلم طبقے سے تھا۔ مسلمانوں کے مکانات، مسجدیں اور مزارات کو نقصان پہنچایا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، ایم آر شمشاد کی سربراہی والی دس رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ دہلی پولیس کی طرف سے تشدد کو روکنے میں ناکامی ’’انفرادی یا چھٹپٹ خلاف ورزیوں کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ کئی دنوں کے دوران جان بوجھ کر غیر عملی کا ایک نمونہ تھی‘‘۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بیانیہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، ’’دونوں طرف سے تشدد‘‘ کے بجائے حقیقت میں ایک قتلِ عام تھا جس کے لیے مسلمان نشانے پر تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داخل کی گئی زیادہ تر چارج شیٹوں سے واقعات کا پورا سلسلہ غائب ہے اور پولیس تقریباً تمام معاملات کی تحقیقات اس بنیاد پر کر رہی ہے کہ فسادات کی منصوبہ بندی سی اے اے مخالف مظاہرین نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ کے پیشِ نظر کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 23 اور 26 فروری کے درمیان ہونے والا تشدد علاقے کے مختلف حصوں میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی موج پور میں ڈی سی پی (نارتھ ایسٹ ڈسٹرکٹ) وید پرکاش سوریا کی موجودگی میں دی گئی مختصر تقریر کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’تقریر کے بعد مختلف گروہ تیزی سے مقامی علاقوں کی طرف نکل آئے، کھلے عام مختلف ہتھیار لے کر گھومنے لگے اور ضلعی انتظامیہ یا پولیس کی جانب سے جان و مال کی حفاظت کے لیے کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حملے علاقے کی مسلم آبادی کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور ایک واقعہ کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس پتھروں کے علاوہ کسی اور ہتھیار کی اطلاع نہیں ہے۔
پانچ سال گزرجانے کے باوجود کپل مشرا، جس نے کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دیں اور جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کو گالیاں دیتے ہوئے گولی مارنے کا نعرہ لگایا تھا، چونکہ بی جے پی سے تعلق رکھتا ہے اور اکثریتی طبقے کا فرد ہے، اس لیے نہ اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی آج تک دہلی پولیس نے پوچھ تاچھ کی ضرورت محسوس کی ہے۔
ایک اور ملزم شرجیل امام جنوری 2020 سے جیل میں ہیں — یعنی فسادات سے کم از کم ایک ماہ قبل ، دیگر مقدمات میں اشتعال انگیز تقاریر کے الزام پر۔ یہ مان لینا کہ ایک شخص جیل میں رہتے ہوئے ایک ماہ تک فسادات کی سازش کر رہا تھا، دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی بات ہے۔ فیصلے کی ایک عبارت بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ:
’’اس مرحلے پر ریکارڈ پر موجود ثبوت اور مبینہ سازش کے واقعات کو دیکھتے ہوئے، بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اپیل کنندگان (عمر خالد اور شرجیل امام) ہی وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دسمبر 2019 کے اوائل میں سی اے بی کے پاس ہونے کے فوراً بعد واٹس ایپ گروپ بنائے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں احتجاج اور چکا جام کے پمفلٹ بانٹے، جن میں بنیادی سہولتوں کی سپلائی روکنے کی اپیل بھی شامل تھی۔‘‘
استغاثہ مزید الزام لگاتا ہے کہ اپیل کنندگان عوام کو مسلسل یہ کہہ کر گمراہ کرتے رہے کہ سی اے اے/این آر سی ایک مسلم مخالف قانون ہے۔
اب اگر دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے اس حصے کو ڈی کوڈ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالت نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج مجرمانہ عمل ہے۔ احتجاج اور مظاہرے کو ’’سازش‘‘ بنادیا گیا ہے۔ فوجداری قانون ہمیشہ وضاحت پر قائم ہوتا ہے: ایک مخصوص عمل جو ایک مخصوص ملزم سے منسوب ہو،ل اور جو ایک مخصوص جرم بنتا ہو۔ مگر اس کیس میں وضاحت اور قریبی تعلق دونوں میں مکمل کمی ہے۔ ہر جگہ ملزمین کو عام اور وسیع اصطلاحات میں دہشت گرد اور غدار قرار دینے کا رجحان نظر آتا ہے۔ مگر دہشت گردانہ واقعات کی جو تشریح کی گئی ہے، اس پیمانے پر کہیں پر بھی عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر افراد پورے نہیں اترتے۔
دہلی فسادات میں پولیس کی جانچ کا صرف ایک ہی محور ہے کہ یہ فساد دسمبر 2019 اور جنوری 2020 میں شہریت ترمیمی بل (بعد میں شہریت ترمیمی ایکٹ) کے خلاف عوامی احتجاج کی وجہ سے ہوا۔ چونکہ عمر خالد، شرجیل امام، خالد سیفی اور گل فشاں فاطمہ نے مظاہروں کے انعقاد کے لیے کلیدی کردار ادا کیا تھا اس لیے وہ قصور وار ٹھیرائے گئے۔ تاہم پراسیکیوشن کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی عوامی طور پر تشدد یا فسادات کی تحریک یا اشتعال انگیزی نہیں کی تھی۔ چنانچہ پراسیکیوشن کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اس لیے ’’سازش کی تھیوری‘‘ بنائی گئی۔ ان افراد نے عوام میں جو کچھ کہا، خفیہ طور پر اسے فسادات کی سازش رچنے کے طور پر پیش کیا گیا۔
پراسیکیوشن کی سازش کی تھیوری دو ستونوں پر مبنی ہے: (1) ’’محفوظ گواہوں‘‘ (یعنی گمنام اور خفیہ گواہوں جن کی شناخت ان ملزمین اور ان کے وکلا سے چھپائی گئی ہے) کے بیانات جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بعض خفیہ میٹنگوں میں انہوں نے ان افراد کو تشدد کی دعوت دیتے ہوئے سنا ہے اور (2) حالاتی شواہد جیسے کہ واٹس ایپ گروپ پر پیغامات، فسادات کے بعد فون کالز یا عوامی تقاریر جو مبینہ طور پر دوہرے معنی رکھتی تھیں۔
ہائی کورٹ نے یہ بھی تاثر دیا کہ یہ کہنا کہ سی اے اے/این آر سی ایک مسلم مخالف قانون ہے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ’’اشتعال انگیز تقاریر‘‘ کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ رویہ ہے تو بے شمار کارکن، وکیل، مصنف اور احتجاج کرنے والے، جنہوں نے سی اے اے/این آر سی کے خلاف بات کی، سب یو اے پی اے کے تحت دہشت گرد بن جائیں گے۔
انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے مضمون میں یوگیندر یادو نے واضح کیا کہ اگر عمر خالد کو جیل میں بند کیا جاسکتا ہے تو پھر ہمیں بھی جیل میں رہنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس معاملے میں دھرنوں اور چکا جام کی منصوبہ بندی، جو اجتماعی احتجاج کی صورتیں ہیں، کو یو اے پی اے کی دفعہ 15/16 کے تحت ’’دہشت گردانہ عمل‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے تو ملک میں سڑک بند کرنا عام احتجاجی طریقہ ہے۔ کسان تحریک کے دوران پنجاب-ہریانہ بارڈر پر قومی شاہراہ ایک سال تک بند رہی۔ وہاں سپریم کورٹ نے احتجاج کو مجرمانہ بنانے یا ہٹانے کا حکم دینے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کی ہدایت دی۔ حال ہی میں مراٹھا ریزرویشن کے مظاہرین نے ممبئی کو جام کردیا، جس پر ہائی کورٹ نے مداخلت کرکے ہٹانے کا حکم دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب کسان تحریک، مراٹھا ریزرویشن اور دیگر تحریکوں کے دوران چکا جام کرنا جرم نہیں تھا تو پھر شہریت ترمیمی ایکٹ کے معاملے میں یہ جرم کیسے بن گیا؟ جب کہ دہلی فسادات کے معاملے میں ہی دہلی ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے کہا تھا کہ:
’’یہاں تک کہ اگر ہم یہ مان لیں کہ بغیر کوئی رائے دیے، اس کیس میں اشتعال انگیز تقاریر، چکا جام، خواتین کو احتجاج پر اکسانا اور دیگر اقدامات پرامن احتجاج کی آئینی ضمانت سے آگے نکل گئے تو بھی یہ یو اے پی اے کے تحت ’دہشت گردانہ عمل‘، ’سازش‘ یا ’دہشت گردانہ عمل کی تیاری‘ نہیں بن جاتے۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ حیران کن بات ہے کہ عمر خالد، شرجیل امام اور گل فشاں فاطمہ کے معاملے میں عدالت اس اصول کو نافذ نہیں کررہی۔ یہ عدالتی تضادات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
نو ملزمین میں سے چھ پہلے ہی پانچ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں، جبکہ مقدمے کی سماعت شروع بھی نہیں ہوئی ہے۔ الزامات پر دلائل ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ اگر مقدمہ شروع بھی ہوا تو تقریباً سات سو گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے ہوں گے۔ یہ حقائق اکیلے ہی ضمانت کے لیے کافی ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں کوئی بھی آئینی عدالت مقدمے کی تفصیلات میں جائے بغیر ضمانت دے دیتی۔ لیکن یہ مقدمہ بھارت کی حکم راں جماعت کے لیے اہم ہے، کیونکہ اس کے کردار براہِ راست اس جھوٹے قوم پرستی کے بیانیے کو سہارا دیتے ہیں جو اس حکومت کی سانس اور بقا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمر خالد، شرجیل امام اور گل فشاں فاطمہ قانونی مجرم سے زیادہ ہندتو بیانیے کے خلاف ایک بیانیہ طے کرنے کے مجرم ہیں۔
عدالت کا احتجاج و مظاہرے اور پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کسی بھی قانون کے خلاف آواز بلند کرنے کو جرم کے طور پر شمار کرنا ہی عدالت کی تاریخ میں سب سے بڑا جرم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب اس ملک میں کیا جارہا ہے جہاں آزادی عدم تعاون اور سِول نافرمانی کے اصولوں پر حاصل کی گئی، وہاں ’’عوامی تحریک‘‘ کو دہشت گردی کا لیبل لگادینا دراصل تحریکِ آزادی پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ عدالت آئینی اصولوں کی نہیں، ریاست کی خدمت گزار ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے عمر خالد کی درخواست پر سماعت کے لیے وکیلوں کو ذمہ دار ٹھیرایا مگر اس معاملے میں پیش ہونے والے کپل سبل نے چندر چوڑ کے بیان کو سلسلہ وار طریقے سے وضاحت کے ساتھ رد کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عدالتوں کے رویے کو عوام کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں نصف درجن سے زائد مرتبہ بنچ کی تبدیلی ہوئی۔ دو سال کی مدت میں صرف دو مرتبہ ہم پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں چار سال کا وقت لگ گیا۔ ہائی کورٹ کے ججز جو کر رہے ہیں، وہ آرٹیکل اکیس کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی کے دل میں ملک کے خلاف جذبات ہیں کہ وہ ملک کی سالمیت پر حملہ کرے گا، تو ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ان لوگوں کے خلاف کھڑے ہوں گے لیکن ہمیں بے گناہوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ نے جن اصولوں کو دوسرے کیسوں میں قائم کیا ہے، وہی اصول عمر خالد اور دیگر پر کیوں لاگو نہیں کیے گئے؟ سبل نے کہا کہ وہ سماعت جو فوراً ہونی چاہیے تھی وہ 407دن بعد ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے اپنے سابق فیصلوں سے خود انحراف کیا ہے۔ سبل نے کہا کہ عمر خالد کی تقریر کو ’’دہشت گردانہ عمل‘‘ کہا جا رہا ہے، حالاں کہ یہ تقریر جنوری 2020 میں ممبئی میں ہوئی تھی، جس میں انہوں نے احتجاج اور مہاتما گاندھی کے اقدار اپنانے کی بات کی تھی۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی یہ مسئلہ نہیں اٹھاتیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ سیاسی نقصان ہوگا۔ تو پھر ہماری جمہوریت کہاں جارہی ہے؟ ہم سچ نہیں بولیں گے؟ غلط باتیں ہو رہی ہیں۔ کھلم کھلا غلط باتیں ہو رہی ہیں۔ اگر ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو کون اٹھائے گا؟ ہمارے وکلا بھی خاموش ہیں۔ مڈل کلاس لوگ بھی خاموش ہیں۔ سماج بھی خاموش ہے۔ اور ایک جج کہتا ہے کہ ہماری وجہ سے انہیں ضمانت نہیں ملی۔
مشہور سماجی کارکن یوگیندر یادو نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں لکھے گئے اپنے مضمون میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں سوچتا ہوں کہ تاریخ اس 133 صفحات کے فیصلے کو کیسے یاد رکھے گی۔ قانونی ماہر گوتم بھاٹیہ کے بلاگ پوسٹس (’انڈین کانسٹیٹیوشنل لا اینڈ فلاسفی‘) نے اس غیر معمولی مقدمے کے سفر کو تجزیہ کیا ہے، جہاں عدالتوں نے ’’آنکھیں بند کرکے‘‘ رویہ اپنایا اور پراسیکیوشن کے لیے’’کاتب‘‘ کا کردار ادا کیا۔ گوتم بھاٹیہ نے لکھا ہے کہ ’’عدالت ایک ماسکو ٹرائلز طرز کی ’سازش‘ کی طرف لوٹتی ہے، جو گمنام ’محفوظ‘ گواہوں کے مبہم اور غیر مصدقہ بیانات پر مبنی ہے، اور پراسیکیوشن کے مقدمے کی خامیوں کو اپنی مفروضات اور استنباط سے پُر کرتی ہے‘‘۔
یوگیندر یادو آگے لکھتے ہیں کہ ’’ایک دن کوئی مورخ دہلی فسادات کی سازش کے نظریے کی سراسر مضحکہ خیزی کو ریکارڈ کرے گا جو متاثرین کو مجرم اور احتجاج کرنے والوں کو سازشی بنا دیتا ہے، ایک سی گریڈ فلم کا اسکرپٹ جو یقین سے ناممکن مطالبات کرتا ہے۔ آخرکار، یہ ایک تخیلاتی چھلانگ ہے کہ عمر خالد، جو 2018 سے چوبیس گھنٹے پولیس تحفظ اور الیکٹرانک نگرانی میں تھے، دارالحکومت میں تشدد کی سازش کر سکتے تھے، کہ ایسی سازش ایک واٹس ایپ گروپ کے ذریعے عمل میں آئی جس کے سو سے زائد ارکان تھے۔ جس فساد کی سازش مسلمانوں نے کی اور خود مسلمانوں نے نقصان اٹھایا۔ تاریخ یہ بھی ریکارڈ کرے گی کہ جب جج صاحبان عمر خالد کی تقاریر میں فرقہ وارانہ اشتعال کی تلاش میں خود کو گرہوں میں باندھ رہے تھے، وہ راگنی تیواری، پر دیپ سنگھ، یتی نرسنگھانند، اور یقیناً معزز وزراء کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر کی واضح نفرت انگیز تقاریر کے ویڈیوز کو نوٹس نہیں کر سکے۔
یہ بھی ریکارڈ کرے گی کہ ان زیرِ سماعت ملزمین کو پانچ سال سے زیادہ عرصے تک ضمانت سے انکار کیا گیا، اس ملک میں جہاں ریپ کے جرم میں سزا یافتہ گرمیت رام رحیم کو گزشتہ آٹھ سالوں میں چودہ بار باہر آنے کی اجازت دی گئی۔ تاریخ شاید اس مقدمے کو ان نو ملزمین کے ٹرائل کے طور پر نہیں، بلکہ ہندوستان کے فوجداری انصاف کے نظام کے ٹرائل کے طور پر یاد رکھے گی۔
دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے واضح کردیا ہے کہ ملک میں یو اے پی اے کا قانون اپنی انتقامی مرضی سے منتخب طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آئینی عدالتیں بھی بار بار اس تعصبی قانون کو تسلیم کرتی ہیں اور اس کے ابہام کا سہارا لے کر شہریوں کو سالہا سال جیل میں رکھتی ہیں۔ آج کے فیصلے کے بعد کیا کوئی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے بھارت میں مساوی تحفظِ قانون حاصل ہے؟ یا یہ کہ ہمارے یہاں آئینی عدالتیں غیرجانبداری کی سختی سے حفاظت کرتی ہیں؟ دہلی ہائی کورٹ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ہماری آزادی ریاست کی مرضی پر منحصر ہے۔ احتجاج اور سرگرمی کی قانونی حیثیت آئین نہیں بلکہ ایگزیکٹو طے کرتا ہے۔ جب موجودہ عدالتی دور کو تاریخ میں لکھا جائے گا تو یہ فیصلہ یقیناً شرمناک فیصلوں کی فہرست میں شامل ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں شرمناک فیصلوں کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔
***
ملزمین طویل عرصے سے ٹرائل کے بغیر قید میں ہیں۔ ضمانت کے بنیادی اصول کو پامال کیا جا رہا ہے اور تاخیر انصاف کا خون کر رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کسان اور مراٹھا ریزرویشن تحریکیں تو ’’احتجاج‘‘ کہلائیں، مگر سی اے اے کے مظاہرے ’’جرم‘‘ ٹھیرے۔ یوگیندر یادو اور گوتم بھاٹیہ بجا طور پر کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ دراصل فوجداری انصاف کے پورے نظام کا ٹرائل ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یو اے پی اے ایک سیاسی اور انتقامی ہتھیار بن چکا ہے اور عدالتوں کا رویہ بھی اس حقیقت کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025