"حجاب میری شناخت کا لازمی حصہ ہے”
کرناٹک کے ریاستی بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کرنے والی تبسم شیخ نے کہا کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ مجھے حجاب پہننے اور اپنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
نئی دہلی ،25اپریل :۔
کرناٹک میں مسلم طالبات کو کالج میں حجاب پر پابندی کے بعد تنازعہ سرخیوں میں رہا۔لیکن آج اسی کرناٹک میں ایک حجاب سے محبت کرنے والی مسلم طالبہ نے ریاستی بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کر کے یہ ثابت کیا ہے حجاب پر تنازعہ کھڑا کرنا فضول تھا۔ انڈیا ٹوڈے سے بات چیت میں تبسم شیخ نے حجاب کے تنازعہ پر کھل کر اپنے دل کی بات رکھی اور انہوں نے کہا کہ "میں حجاب نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ یہ میری شناخت کا حصہ ہے۔ یہ ایک ناانصافی تھی.. ۔
واضح رہے کہ تبسم شیخ، ایک ہارڈ ویئر انجینئر کی بیٹی اور ایک گھریلو خاتون اور ایک پرائیویٹ پری یونیور سٹی(این ایم کے آر وی)، بنگلور کی طالبہ ہیں۔18 سالہ تبسم شیخ نے 98.83 فیصد اسکور کے ساتھ، 600 نمبروں میں593 کے ساتھ آرٹس اسٹریم میں سر فہرست نمبر حاصل کیا ہے ۔
انڈیا ٹوڈے کے ذریعہ حجاب پر پابندی کا ان کے تعلیم پر اثر کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال پر تبسم شیخ نے کہا کہ یہ بے یقینی کا دور تھا۔ میں بہت الجھن اور افسردہ تھی کیونکہ حجاب میری شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے اور میرے مذہب کا بھی حصہ ہے۔ میں پانچ سال کی عمر سے حجاب پہن رہی ہوں۔ لہذا، میرے لیے اسے ترک کرنا بہت مشکل تھا اور میں نہیں چاہتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ مجھے حجاب پہننے اور اپنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ لہذا یہ فیصلہ بہت غیر منصفانہ اور ناانصافی محسوس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جب فیصلہ آیا تو میرے والدین نے مجھے احکامات کی تعمیل کرنے کی ترغیب دی۔ میں دو ہفتوں سے کالج نہیں گئی کیونکہ میں بہت الجھن میں تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ لیکن میرے والدین کا کہنا تھا کہ اگر میں تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں اس مقام پر پہنچ سکتی ہوں جہاں آئندہ ایسی ناانصافیوں کو ہونے سے روک سکوں۔ اس لیے کالج جانا جاری رکھنے کا یہی میرا بنیادی مقصد تھا۔ تبسم کلینیکل سائیکالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ”مجھے سوشیالوجی، پولیٹیکل سائنس، اکنامکس کے مضامین میں بہت دلچسپی ہے۔ میں نفسیات کے بارے میں بھی بہت متجسس ہوں۔ اسی لیے میں نے پنجاب یونیورسٹی میں آرٹس اسٹریم کا انتخاب کیا۔
واضح رہے کہ کرناٹک میں مسلم طالبات تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ ا ن کا کہنا ہے کہ کرناٹک حکومت کے اسلامو فوبیا کے تحت کارروائی سے ہندوستان کے آئین کے تحت ان کی مذہبی آزادی کی ضمانت وہ سلب کر رہی ہے ۔مسلم طلباء، کارکنوں اور ملک بھر کے اپوزیشن لیڈروں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم علامتوں اور طریقوں پر یہ حملے ملک کے مسلمانوں پر اکثریتی اقدار مسلط کرنے کے ہندوتوا ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
پچھلے سال اکتوبر میں، سپریم کورٹ آف انڈیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے 2022 کے 15 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر الگ الگ فیصلہ سنایا تھا جس میں اُڈوپی کے پری یونیورسٹی کالجوں میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں کی طرف سے کلاس رومز میں حجاب پہننے کا حق مانگنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کو خارج کر دیا گیا تھا۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر 26 اپیلوں کو خارج کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ حجاب اسلام کا لازمی عمل نہیں ہے اور ریاست میں تعلیمی اداروں میں سر پر اسکارف پہننے پر پابندی کی اجازت دے دی تھی ۔