آکسفیم انڈیا کے سروے کے مطابق گذشتہ دنوں میں 33 فیصد مسلمانوں کو ہسپتالوں میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے
نئی دہلی، نومبر 23: بھارت کے تقریباً 33 فیصد مسلمانوں نے کہا کہ انھیں ہسپتالوں میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ بات غیر سرکاری تنظیم آکسفیم انڈیا کے سروے میں سامنے آئی ہے۔ سروے میں 28 ریاستوں اور پانچ مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کل 3,890 افراد نے حصہ لیا، جس کے نتائج منگل کو جاری کیے گئے۔
سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ درج فہرست قبائل سے 22 فیصد جواب دہندگان، 21 فیصد درج فہرست ذاتوں اور 15 فیصد دیگر پسماندہ طبقات نے بھی ہسپتالوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا۔
سروے میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی کہ 2018 میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے تیار کردہ مریضوں کے حقوق کے چارٹر پر کس حد تک عمل کیا جا رہا ہے۔ سروے کے لیے ڈیٹا فروری سے اپریل 2021 تک جمع کیا گیا تھا۔
جون 2019 میں مرکزی محکمہ صحت کے سکریٹری نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو خط لکھ کر ان پر زور دیا تھا کہ وہ مذکورہ چارٹر کو نافذ کریں۔
اسکرول ڈاٹ اِن کے مطابق آکسفیم انڈیا کی انجیلا تنیجا نے کہا کہ میڈیکل پریکٹیشنرز معاشرے کے باقی حصوں کی طرح تعصبات کو اپناتے ہیں اور یہ تعصب بعض اوقات ان طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے جس میں وہ مریضوں کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔
سروے ٹیم کی قیادت کرنے والی تنیجا نے نوٹ کیا کہ ’’چھوت چھات اب بھی حقیقی ہے اور اس لیے ڈاکٹر بعض اوقات کسی دلت شخص کا ہاتھ پکڑ کر اس کی نبض چیک کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر آدیواسیوں کو بیماریوں اور علاج کی نوعیت کی وضاحت کرنے سے ہچکچاتے ہیں، یہ مانتے ہوئے کہ وہ معلومات کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔‘‘
تنیجا نے کووڈ 19 وبائی امراض کے ابتدائی دنوں میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے انعقاد کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی مہموں کے بارے میں بھی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس وقت ایک مخصوص کمیونٹی کو بدنام کیا گیا تھا، جو کہ انتہائی غیر منصفانہ تھا۔‘‘
آکسفیم انڈیا کے سروے میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ 35 فیصد خواتین کو کمرے بغیر کسی دوسی خاتون کی موجودگی کے مرد ڈاکٹر کے ذریعے جسمانی معائنہ کرانا پڑتا ہے۔جب کہ مذکورہ چارٹر میں ہسپتال انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایسے وقت میں کمرے میں کسی دوسری خاتون کی موجودگی کو یقینی بنائے۔
مجموعی طور پر 74 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ان کی بیماری کی نوعیت بتائے بغیر نسخے لکھے یا ان سے ٹیسٹ کروانے کو کہا۔
مزید 19 فیصد جواب دہندگان نے، جن کے قریبی رشتہ دار ہسپتال میں داخل تھے، بتایا کہ ہسپتالوں نے مریضوں کے حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے رشتہ داروں کی لاش ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 14 مئی کو کورونا وائرس کی دوسری لہر کے درمیان نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ہسپتال زیر التوا بلوں کی ادائیگی کی وجہ سے لاشوں کے حوالے کرنے سے انکار نہیں کر سکتے۔
آکسفیم انڈیا نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ مرکزی وزارت صحت کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مذکورہ چارٹر کو اپنانے کی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے ایک طریقۂ کار قائم کرنا چاہیے۔ اس نے مرکزی وزارت صحت پر بھی زور دیا کہ وہ کلینیکل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ میں مریضوں کے حقوق کے چارٹر کو شامل کرے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ یہ قانون ’’نجی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ضابطے کے لیے سب سے مضبوط موجودہ طریقۂ کار پیش کرتا ہے۔‘‘
تنیجا نے کہا ’’چارٹر کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے شکایت کے ازالے کا ایک مناسب طریقۂ کار بھی ہونا چاہیے۔ فی الحال لوگ اس سلسلے میں پولیس اور عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں، جو کہ وقت طلب اور مہنگا ہے۔‘‘
این جی او نے یہ بھی سفارش کی کہ نیشنل میڈیکل کمیشن کو صحت کی دیکھ بھال کے نصاب میں مریضوں کے حقوق سے متعلق لازمی ماڈیولز متعارف کروانے چاہئیں۔
این جی او نے آج کووڈ 19 ویکسینیشن کے عمل کے دوران لوگوں کے تجربات کے مختلف پہلوؤں پر مبنی ایک سروے بھی جاری کیا۔ رپورٹ کے مطابق 29 فیصد جواب دہندگان کو ویکسینیشن سینٹر کے متعدد دورے کرنا پڑے یا انھیں لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا۔
مزید 22 فیصد نے کہا کہ انھیں آن لائن ویکسینیشن کے لیے سلاٹ بک کروانے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، یا انھیں کئی دنوں تک سلاٹ حاصل کرنے کی کوشش کرنی پڑی۔
سروے میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ 12 فیصد لوگ جو ماہانہ 10,000 روپے سے کم کماتے ہیں انھیں کووڈ 19 ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں ملی۔ ماہانہ 60,000 روپے سے زیادہ کمانے والوں کے لیے متعلقہ اعداد و شمار 5% تھے۔