2002 گجرات فسادات: ایس آئی ٹی نے مناسب تحقیقات کے بغیر کلوزر رپورٹ داخل کی، ذکیہ جعفری نے سپریم کورٹ میں کہا

نئی دہلی، نومبر 10: لائیو لاء کے مطابق تشدد میں ہلاک ہونے والے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے آج سپریم کورٹ کو بتایا 2002 کے گجرات فسادات کیس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اہم شواہد کو نظر انداز کیا اور مناسب تحقیقات کیے بغیر کلوزر رپورٹ داخل کی۔

احسان جعفری ان 69 افراد میں شامل تھے جو 28 فروری 2002 کو احمد آباد کے گلبرگ سوسائٹی میں ہجوم کی طرف سے پتھراؤ اور گھروں کو آگ لگانے کے دوران مارے گئے تھے۔

سپریم کورٹ کے سامنے ذکیہ جعفری نے 64 لوگوں کو دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم کی کلین چٹ کو چیلنج کیا تھا، بشمول وزیر اعظم نریندر مودی کے جو 2002 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔

ٹیم نے 8 فروری 2012 کو اپنی کلوزر رپورٹ پیش کی تھی اور کہا تھا کہ مودی اور دیگر 63 افراد کے خلاف کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں ہے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق سینئر وکیل کپل سبل نے جعفری کی طرف سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی تفتیشی ٹیم کے اپنے سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے انکوائری صحیح طریقے سے نہیں کی۔

کپل سبل نے کہا ’’ایس آئی ٹی نے کبھی کوئی فون ضبط نہیں کیا، کبھی کال ڈیٹا ریکارڈ کی جانچ نہیں کی، کبھی یہ نہیں دیکھا کہ بم کیسے بنائے گئے اور اس نے کبھی بھی ملزم کے ٹھکانے کا جائزہ نہیں لیا۔ لہذا آپ اسے جس طرح بھی دیکھیں، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیے۔‘‘

کپل سبل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ خود بھی فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے نقصان اٹھا چکے ہیں۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق انھوں نے ججوں کو بتایا ’’میں نے پاکستان میں اپنے نانا نانی کو کھو دیا۔ فرقہ وارانہ تشدد آتش فشاں سے پھوٹنے والے لاوے کی طرح ہے اور یہ ایک ادارہ جاتی مسئلہ ہے۔ جب بھی لاوا کسی زمین کو چھوتا ہے تو وہ اس کو داغ دے دیتا ہے اور یہ مستقبل میں بدلہ لینے کا ماحول بناتا ہے۔

کیس کی سماعت تاحال جاری ہے۔