کسان احتجاج: سنگھو بارڈر پر پنجاب کے ایک کسان نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی

نئی دہلی، نومبر 10: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق دہلی کے سنگھو بارڈر پر آج ایک 45 سالہ کسان نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔

سنگھو بارڈر ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں کسان، خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے، گزشتہ سال نومبر سے مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین سے زرعی شعبے پر کارپوریٹ غلبہ آئے گا اور انھوں نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان قوانین منسوخ کرے۔ دوسری جانب حکومت نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ دونوں فریقوں نے تعطل کو دور کرنے کی کوشش کرنے کے لیے کئی مذاکرات کیے ہیں لیکن اب تک سبھی کوششیں ناکام رہی ہیں۔

انڈین ایکسپریس نے اس گروپ کے ایک اہلکار کے حوالے سے رپورٹ کیا جس سے وہ وابستہ تھا کہ خودکشی کرنے والا کسان تعطل سے پریشان تھا۔

مرنے والے کسان کی شناخت پنجاب کے ضلع فتح گڑھ صاحب کے گاؤں روڑکی سے تعلق رکھنے والے گرپریت سنگھ کے نام سے ہوئی ہے۔

بھارتیہ کسان یونین ایکتا سدھوپور کے ضلع کنوینر گرجیندر سنگھ نے اخبار کو بتایا کہ ’’گزشتہ دو دنوں میں کسانوں کے ساتھ اپنی بات چیت میں انھوں [گرپریت سنگھ] نے زرعی قوانین پر جاری تعطل پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور یہ کہ کسانوں کے ایک سال سے زیادہ کے احتجاج کے باوجود حکومت ان کے مطالبات کو نہیں سن رہی ہے۔‘‘

گرپریت سنگھ کو آج صبح ایک درخت سے لٹکا ہوا پایا گیا۔ سونی پت کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) ویریندر سنگھ نے کہا ’’ابتدائی معلومات کے مطابق یہ خودکشی کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔‘‘

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق گرپریت سنگھ کے ساتھی اجاگر سنگھ نے ان کی موت کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک ’’سیاسی قتل‘‘ ہے۔

اجاگر سنگھ نے نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم کہتے ہیں کہ حکومت کے ضدی رویے اور بات چیت ترک کرنے کی وجہ سے ایک اور کسان نے خودکشی کر لی ہے۔ ہماری مدد کرنے کے بجائے حکومت کسانوں کے احتجاج کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘

گرپریت کے دوست نرمل سنگھ نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ تین بچوں کا باپ گرپریت سنگھ 6 لاکھ روپے کا مقروض تھا۔ سنگھ نے مزید کہا ’’ہم حکومت سے 10 لاکھ روپے معاوضہ اور ان کے ایک بچے کو سرکاری نوکری دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘