جاویدہ بیگم، ورنگلی
انتظار، انتظار، انتظار! ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے زندگی انتظار بن کر رہ گئی ہو۔ آنکھ کھلنے سے آنکھ بند ہونے تک انتظار (اس میں موت کا انتظار شامل نہیں ہے) کبھی صفائی کرنے والی کا تو کبھی کھانا پکانے والی کا، کبھی مہمان کا انتظار تو کبھی میزبان کا، کبھی دلہے کا انتظار تو کبھی قاضی صاحب کا، کبھی سسرالی رشتہ داروں کا انتظار تو کبھی سمدھاوے کا انتظار ، کبھی دوست کا انتظار تو کبھی رشتہ دار کا۔ الغرض کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں کسی نہ کسی کا انتظار کرنا نہ پڑتا ہو۔ وقت گزر جانے کے بعد کوئی آتا ہے تو اس شان سے کہ دیر سے آنے پر ایک معذرت کا لفظ بھی زبان سے نہیں نکلتا۔ جیسا کہ دیر سے آکر ہی کیوں نہ آ کر انہوں نے بڑا احسان کیا ہو۔ کیونکہ اکثر لوگ بھول ہی جاتے ہیں کہ انہوں نے کسی سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ اکثر لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’میں آؤں گا، میں فلاں وقت آؤں گا، میں آپ کا یہ کام کردوں گا، میرا ارادہ یہ ہے وغیرہ۔ روز مرہ کی زندگی میں ایسے الفاظ زبان سے نکالتے رہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ ایک وعدہ ہے۔ آج جہاں بھی وعدہ نبھانے اور ایفائے عہد کی بات آتی ہے تو عام طور پر لوگ قول و قرار کو ہی وعدہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اسلام کی نظر میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ انسان کی پوری زندگی خصوصاً اجتماعی زندگی اسی عہد سے عبارت ہے۔ خاندان ایک مرد اور عورت مل کر بناتے ہیں اور مرد اور عورت کو جوڑنے ملانے والی چیز دو بول یعنی عہد ہوتا ہے۔ یہ عہد اس قدر اہم ہے کہ اسی پر خاندان کی عمارت اٹھتی ہے۔ معاشرہ بنتا ہے۔ تہذیب و تمدن کی تعمیر ہوتی ہے۔ آئندہ نسلوں کی نشو ونما ہوتی ہے۔ اس طرح سیاست کی بنیاد اس معاہدے پر ہوتی ہے جو شہریوں اور حکمرانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے کسی بھی پہلو کو دیکھیں تو اس کا حسن اس کی بقا اس کا استحکام عہد کی پابندی ایفائے عہد پر ہے جس میں اخلاق، معاملات، معاشرت، معیشت زندگی کے تمام ہی معاملات چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے آجاتے ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’عہد کی پابندی کرو بے شک عہد کےبارے میں تم کو جواب دہی کرنا ہوگی (اسرا ۳۴) جواب طلبی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ صرف فرائض اور بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ روزمرہ کی زندگی میں جو وعدہ کرتے ہیں اس کے بارے میں جواب طلبی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس کو ایک معمولی بات سمجھتے ہیں اس کو پورا کرنے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ کل آؤں گا، نو بجے آؤں گا، دس بجے آؤں گا اور بھول جاتے ہیں کہ ان کو مقرہ دن مقررہ وقت پر پہنچنا ہے۔ وعدہ خلافی کے نتیجے میں تو ذہنی کوفت ہوتی ہے وقت برباد ہوتا ہے۔ اس کا ہر شخص کو تجربہ ہے مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ لوگ وعدے کی پابندی نہیں کرتے۔ وعدہ خلافی ہمارا مزاج بن گیا ہے جبکہ عہد شکنی اخلاقی پستی کا پتہ دیتی ہے، عہد شکنی سے انسان کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔ بگاڑ کے دروازے کھل جاتے ہیں ایک دوسرے پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ تعلقات میں خوش گواری قائم نہیں رہ سکتی۔ زندگی کا اطمینان و سکون ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’اے ایمان والو جب تم نے آپس میں کسی کے ساتھ عہد باندھا ہو اس کو پورا کرو تاکہ تعلقات استوار رہیں۔
اسلام خیر و صلاح کا مذہب ہے وہ انسان کی زندگی کو خیر و سلامتی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ دراصل عہد دین کی بنیادی اقدار اور بنیادی احکام میں سے ہے۔ جن قوموں نے بد عہدی کی ان کے بارے میں اللہ فرماتا ہے ’’پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ان کے دل سخت کردیے‘‘۔ (المائدہ) قرآن نے جہاں اپنے انبیا کی تعریف کی ہے وہاں اس صفت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ’’وہ سچے تھے، وہ وعدہ کا سچا تھا‘‘ اللہ کے رسولؐ وعدہ کی کس طرح پابندی کیا کرتے تھے اس کی ایک جھلک صلح حدیبیہ کے موقع پر دیکھی جا سکتی ہے۔ صلح نامہ لکھا جا رہا تھا ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا تھا کہ ایک مسلم نوجوان ابو جندلؓ جن کو مکہ میں ان کے والد سہیل بن عمرو نے قید کر رکھا تھا وہ قید سے کسی طرح نکل کر بیڑیاں پہنے ہوئے اس حال میں حدیبیہ پہنچے کہ ان کا جسم زخموں سے لہو لہان تھا وہ فریاد کر رہے تھے کہ مجھے دشمنوں کے چنگل سے بچاؤ۔ یہ بے حد نازک موقع تھا صحابہ کرام کا رجحان تھا کہ معاہدہ کو توڑ کر ابوجندلؓ کو پناہ دی جائے۔ آپؐنے سہیل بن عمرو جو قریش کی طرف سے سفیر بن کر آیا تھا، اس کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ابھی صلح نامہ لکھنے کا آغاز ہوا ہے اس کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ ابو جندل کو میری خاطر ہمارے پاس رہنے کی اجازت دو، مگر سہیل بن عمرو اس پر تیار نہیں ہوا کہنے لگا۔ اے محمدؐ صلح کی پابندی کیجیے، معاہدے کی شرط نمبر تین کے مطابق اس کو واپس لوٹا دیجیے۔ معاہدہ کی شرط نمبر تین یہ تھی ’’قریش کا کوئی آدمی اپنی ولی کی اجازت کے بغیر محمدؐکے پاس آجائے تو اس کو قریش کی طلب پر واپس کردیا جائے گا لیکن اگر محمدؐکا کوئی آدمی قریش کے پاس آئے گا تو اس کو واپس نہیں کیا جائے گا‘‘۔ اللہ کے رسولؐنے فیصلہ کیا کہ جو معاہدہ ہو چکا ہے اب ہم اس سے پھر نہیں سکتے۔ آپؐکے ساتھیوں کے لیے یہ بات بے حد تکلیف دہ تھی۔ مگر آپ نے ابو جندل کو دوبارہ مکہ والوں کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر معاہدہ کی پابندی کا جو شاندار مظاہرہ ہوا ہے اخلاقی بلندی کی ایک مثال بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش کے لوگ اسلام کی اخلاقی بلندی سے مرعوب ہو گئے اور کثرت سے لوگ مسلمان ہونے لگے۔ حالات کچھ ایسے پیدا ہو گئے کہ قریش کو خود آگے بڑھ کر درخواست کرنی پڑی کہ وہ شرط نمبر ۳ نکال دی جائے۔ اللہ کا حکم چھوٹا ہو یا بڑا اس پر عمل کرنے سے انسان ہی کا فائدہ ہے عمل نہ کرنے کے نتیجے میں انسان کا اپنا ہی نقصان ہے۔ اس بات کو نہ سمجھ کر انسان غلطی کرتا ہے اور اس کو معمولی سمجھتا ہے۔ جس غلطی کو معمولی سمجھ کر دن رات کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کتنی بڑی غلطی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد مبارک ہے ’’جس نے پاس عہد نہ کیا اس کا کوئی دین نہیں۔ اس لیے کہ دین تو زندگی بسر کرنے کا نام ہے اور جو اپنے عہد کو پورا نہیں کر سکتا وہ دراصل دین داری کا مدعی نہیں ہو سکتا۔ جن اخلاقی صفات پر ہماری زندگی کی بہتری کا دار ومدار ہے ان میں سے ایک اہم ترین صفت یہ ہے کہ وہ وعدے کو پورا کیا جائے۔ وعدہ کی پابندی یہ ہے کہ آدمی اگر کہہ دے کہ میں آؤں گا تو وہ ضرور وہاں پہنچے۔ اگر کہہ دے کہ میں دس بجے آؤں گا تو یہ بھی وعدہ ہے اور وعدہ کو پورا نہ کرنا نفاق کہا گیا۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐنے ارشاد فرمایا اور منافق کی تین نشانیاں ہیں. جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب عہد کرے تو اسے کو توڑے۔ اگرچہ کہ وہ نماز پڑھے روزے رکھے، حج کرے، عمرہ کرے اور اپنے آپ میں یہ زعم رکھتا ہو کہ وہ مسلمان ہے اس کے باوجود یہ نشانی، منافقت کی نشانی ہے۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ آدمی جو بھی عہد کرے اس کی پابندی کرے. اس کے لیے ضروری ہے روز مرہ کی زندگی میں ہم بے شمار وعدے کرتے ہیں۔ خاندان والوں سے رشتہ داروں سے دوست احباب سے ملنے جلنے والوں سے کاروبار اور عام لین دین اور معاملات کے اندر کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی پابندی ایمان کا تقاضہ ہے اور وہ ضروری ہے اور کسی چیز کی بھی خلاف ورزی منافقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کیونکہ عہد کی خلاف ورزی نہ تو بندگی کا اعتبار ہے اور نہ ایمان کا کیونکہ یہ ایمان بھی ایک معاہدہ ہے۔ ایمان کوئی وراثت میں ملنے والی چیز ہے نہ ایمان کوئی سنی سنائی چیز ہے جس کو زبان سے ادا کر دیا جائے۔ ایمان دراصل ایک عہد ہے بندے اور اس کے خالق کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ بندہ ایمان لاکر اپنی ہر چیز اللہ کو بیچ دیتا ہے۔ یعنی اللہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ آخرت میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کے عوض جان بیچنا بیچنا ایک معاہدہ ہے عہد ہے اور ایک وعدہ ہے جس میں آدمی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے اس کے بدلے میں جنت میں دی جانے والی نعمتوں کو قبول کرتا ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔ دراصل آپ کی اطاعت کا عہد کرتا ہے اور جو عہد کرنے کے بعد آپؐ کی اطاعت نہیں کرتا وہ دراصل بد عہدی کا مرتکب ہوتا ہے وہ عہد کرنے ماننے کے بعد خلاف ورزی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے میں فیصلہ کردیں تو پھر وہ اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرتا پھرے‘‘ (الاحزاب ) وعدہ کی پابندی جس کو ہم بہت معمولی سمجھتے ہیں جس کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وعدہ خلافی ہمارا مزاج بن گئی ہے وہ اس قدر اہم ہے کہ وہ نفاق کی ایک علامت ہوتی ہے۔ ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ ’حضورؐمیرے گھر تشریف فرما تھے میں نے اپنے بچے سے کہا کہ ’ادھر آؤ میں تم کو ایک چیز دوں گی‘‘۔ آپ ؐنے ان صحابیہ سے سوال کیا کہ ’’کیا واقعی تم اس کو کچھ دو گی‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہاں میں کچھ دوں گی‘‘ اس پر آپؐنے ارشاد فرمایا ’’اگر تمہاری دینے کی نیت نہ ہوتی تو یہ تمہارے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھا جاتا‘‘۔ وعدہ کرنا اور وعدہ کو پورا نہ کرنا یہ جھوٹ کی قسم ہے۔ عہد باندھنا اس کو توڑ ڈالنا یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ یعنی ان صفات کا خلاصہ جھوٹ ہے۔ منافق فی الواقع جھوٹا ہوتا ہے۔ منافق کی نشانی یہ ہے کہ و جھوٹ بولتا ہے وعدہ پورا نہیں کرتا۔ عہد کے خلاف کرتا ہے۔ جھوٹ برائیوں کی سب سے بڑی بنیاد ہے جبکہ سچائی کو تلاش کرنا پہچاننا اس کو قبول کرنا اس پر قائم رہنا پورے دین کی بنیاد ہے۔
حضرت صفوان بن سلیم روایت کرتے ہیں آپﷺ سے پوچھا گیا کہ ’’کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ’’ہاں مومن بزدل ہوسکتا ہے پھر آپﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن کنجوس ہوسکتا ہے آپؐنے جواب دیا ’ہاں‘ پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے‘‘ آپؐنے جواب دیا ’’مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا‘‘۔
بات شروع ہوئی تھی انتظار سے اور پہنچی یہاں تک اس کے آگے دعوتِ غور و فکر ہے۔
دراصل عہد دین کی بنیادی اقدار اور بنیادی احکام میں سے ہے۔ جن قوموں نے بد عہدی کی ان کے بارے میں اللہ فرماتا ہے ’’پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ان کے دل سخت کردیے‘‘۔ (المائدہ) قرآن نے جہاں اپنے انبیا کی تعریف کی ہے وہاں اس صفت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ’’وہ سچے تھے، وہ وعدہ کا سچا تھا‘‘ اللہ کے رسولؐ وعدہ کی کس طرح پابندی کیا کرتے تھے اس کی ایک جھلک صلح حدیبیہ کے موقع پر دیکھی جا سکتی ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021