یوپی:گریٹر نوئیڈا میں باجماعت نماز تراویح کی ادائیگی پر مقامی ہندوؤں کا ہنگامہ
گریٹر نوئیڈا ویسٹ کے ایکو ویلج -2 سوسائٹی میں مینجمنٹ ٹیم کی اجازت کے بعد عارضی ٹینٹ میں مسلمان نماز ادا کر رہے تھے،پولیس نے مقامی ہندوؤں کی ہنگامہ آرائی کے بعد ٹینٹ ہٹوا دیا
نوئیڈا ،29مارچ :۔
اتر پردیش میں ہندو شدت پسندوں کے درمیان پھیلے اسلاموفوبیا کا اثر کم نہیں ہو رہا ہے ۔مسلمانوں کے ذریعہ اپنے گھروں ،دکانوں اور مکانوں میں نماز پڑھنے میں مشکلیں پیدا کی جا رہی ہیں۔گزشتہ روز مراد آباد میں اپنے گودام میں نماز تراویح پڑھنے پر بجرنگ دل اورمقامی ہندوؤں کے ذریعہ ہنگامہ کھڑا کرنے پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نماز پر پابندی عائد کر دی تھی اب تازہ معاملہ میں دہلی سے ملحق اتر پردیش کے گریٹر نوئیڈا کا ہے ۔جہاں ایک کمر شیل مارکیٹ کی بلڈنگ میں عارضی ٹینٹ لگا کر نماز تراویح پڑھنے پر ہندوؤں کی ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نماز با جماعت پر پابندی عائد کر دی اور عارضی ٹینٹ کو بھی ہٹوا دیا۔
اطلاعات کےمطابق گریٹر نوئیڈا ویسٹ کے ایکو ویلج -2 سوسائٹی میں پیر کی رات باجماعت نماز تراویح کی ادائیگی کو لے کر سوسائٹی کے ہندوؤں نے ہنگامہ کر دیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچی اور لوگوں کو سمجھا کر معاملہ کو ختم کرایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باہر کے لوگ نماز پڑھنے کے لیے آئے اس لئے مقامی غیر مسلموں نے احتجاج کیا ۔
رپورٹ کے مطابق بسرکھ کوتوالی علاقے کے ایکو ولیج-2 سوسائٹی کے کمر شیل مارکیٹ کی تیسری منزل پر پیر کی رات تقریباً 40 لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس کی اطلاع ملتے ہی سوسائٹی کے شدت پسند موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے ہنگامہ کرنا شروع کر دیا۔
اطلاع ملتے ہی بسرکھ کوتوالی پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ مقامی باشندے باہر سے آکر لوگوں کے نماز پڑھنے کے لیے سوسائٹی میں آنے پر ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے۔ فریقین کو سمجھا کر معاملہ ختم کرایا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں سوسائٹی کے لوگوں کی نماز پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں، وہ صرف باہر کے لوگوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ جبکہ یہ عارضی ٹینٹ سوسائٹی کی مینجمنٹ ٹیم کی اجازت اور ان کی نگرانی میں ہی لگایا گیا تھا اور نماز پڑھنے والے زیادہ تر لوگ سوسائٹی کے ہی لوگ تھے ۔
نماز کو لے کر ہوئے ہنگامے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے ۔لوگ با جماعت نماز کی ادائیگی پر پولیس کے ذریعہ کی گئی کارروائی کی مخالفت کر رہے ہیں۔لوگوں نے ہندوؤں کے ذریعہ اعتراض کئے جانے کو اسلاموفوبیا سے تعبیر کیا ہے اور اسے بنیاد پرستی قرار دیا ہے ۔
معروف اداکارہ اور سماجی کارکن سو را بھاسکرنے لکھا کہ "اپنی ‘اکثریت’ کی حیثیت کو ظاہر کرنے کے نام پر ہمیں فخر کے ساتھ جو گھٹیا پن دکھانا پڑتا ہے وہ صرف بدبو ہے! ان لوگوں پر شرم آتی ہے…”
معروف مصنف رانا صفوی نے لکھا کہ نماز اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟ جو لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں وہ صرف سکون سے تراویح پڑھنا چاہتے ہیں۔ جماعت میں نماز پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک حافظ قرآن پڑھتا ہے بہت سے لوگ ایک ساتھ قرآن کو سنتے ہیں ۔
صحافی دیباشیش رائے چودھری نے ٹوئٹ کیا کہ، "ان "احتجاج کرنے والوں” کو اب تنخواہ دار ہندوتوا غنڈوں کی بھی ضرورت نہیں ہے، یہ اب باقاعدہ لوگوں کے درمیان موجود ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کیسے ختم ہوتا ہے، ٹھیک ہے؟
ہندوستان ٹائمز کی نیہا یادو نے سوال اٹھایا کہ ’’نماز کے لیے بنائے گئے ٹینٹ کو ہٹوا کر معاملہ حل کیسے ہوا؟ جب بھی آپ ان کے کہنے پر اسلاموفوبیاکو پورا کرتے ہیں، تو آپ اس ملک کے آئینی فریم ورک پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اس ملک کا کون سا قانون ہے کہ مسلمان نماز نہیں پڑھ سکتے؟
ٹویٹر صارف شجاع نےپولیس کی کارروائی پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ، "مسلمانوں کی ہمت کیسے ہوئی کہ امن کو درہم برہم کیے بغیر اور دوسرے مذاہب کو گالی دیے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے بغیر پرامن طریقے سے نماز ادا کریں؟