ہندتو پاپ میوزک شرانگیزی کا نیا مظہر

موسیقی کے ذریعہ مسلم مخالف ماحول تیار کرنے کی کوشش

نور اللہ جاوید، کولکاتا

حالیہ عرصے میں بیشتر فرقہ وارانہ فسادات کے پس پردہ ہندتو پاپ میوزک کی کارفرمائی
ہندوتو کے علم بردار اپنے عقائد کو سماجی مقبولیت دلوانے کے لیے کوشاں!
شر انگیز موسیقی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ ملک و ملت کے رہنماوں کو عملی حل پیش کرنے کی ضرورت
’’رام مندر کی آڑ میں ایک بار پھر ملک کو برہمن واد کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے‘‘: بہوجن سماج کے صحافیوں کی تشویش
میں 22؍ جنوری کو شہر ممبئی میں موجود تھا۔غیر مسلم اکثریتی علاقے ورلی کے بی بی چال میں مسلمانوں کی معمولی آبادی ہے مگر لب سڑک دو چھوٹی سی مسجدیں ہیں اور مسجد کے آس پاس مسلمانوں کی چند دکانیں ہیں ۔ ایک طرف ملک بھر کی اہم شخصیات جنہیں بڑی تعداد میں سادھو سنتوں ، فلمی دنیا، صنعت کار، نیوز چینلوں کے مالکین اور آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ سنانے والی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے سابق جج صاحبان کی موجودگی میں وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیامیں بابری مسجد کی جگہ پر بنائی گئی رام مندر کا افتتاح کررہے تھے تو دوسری طرف ممبئی کی بیشتر شاہراہوں پر ہندوتو کی نام نہاد فتح میں سرشار نوجوان اودھم مچارہے تھے۔ ورلی کی مذکورہ دونوں مساجد سے متصل سڑک سے ہرایک دو منٹ کے وقفے سے بائیک اور گاڑیوں میں سوار نوجوان اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے گزر رہے تھے۔ مقامی دکانداروں کے چہروں پر خو ف وہراس صاف جھلک رہا تھا۔ اس دوران ضلع تھانہ کے میرا روڈ کے نیا نگر میں مسجد عمر کے سامنے ہنگامہ آرائی کی ویڈیو وائرل ہونے لگی ۔ پہلی ویڈیو میں چند مسلم نوجوان ایک گاڑی میں توڑ پھوڑکرتے ہوئے نظر آئے۔ مگر بعد میں مسجد عمر کی انتظامیہ نےسی سی ٹی وی کی فوٹیج جاری کی جس میں ایک بھیڑکو مسجد کے پاس سے گزرتا ہوا دیکھا گیا جو نفرت انگیز نعرے اوراشتعال انگیز موسیقی بجاتے ہوئے مسجد پر پتھراو کررہی تھی۔ اس کے جواب میں مسلم نوجوان سامنے آئے اور پھر صورت حال خراب ہوگئی ۔اگلے دن راقم فساد زدہ علاقے میرا روڈ کے نیا نگر میں تھا۔ افواہوں و خوف کا بازار گرم تھا۔میرے میزبان نے بتایا کہ انہوں نے رات خوف کے عالم میں جاگ کر گزاری ہے کیوں کہ یہ خبر گردش کررہی تھی کہ دیر رات نیا نگر میں حملہ ہوسکتا ہے۔یہ افواہ اس لیے تھی کہ بی جے پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے سماجی ویب سائٹ ایکس ہینڈل پر کھلے عام بدلہ لینے کی دھمکی دے رہے تھے۔ 23؍ جنوری کی سہ پہر اچانک دکانیں بند ہونے لگیں ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ میرا روڈ کے شانتی نگر اور بھیاندر سے ہندو نوجوانوں کی ایک بھیڑ آرہی ہے۔اگرچہ یہ بھیڑ نہیں آئی ۔تاہم اس درمیان مسلم نوجوانوں کی یک طرفہ گرفتاریاں ہورہی تھیں اور اگلے دن بلڈوز اپناکرتب دکھانے لگا، غریب مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات بغیر کسی نوٹس کے اجاڑ دیے گئے۔
ممبئی کے بلند و بالا عمارتوں پر لہراتے ہوئے زعفرانی جھنڈے اس بات کی گواہی دے رہے تھی کہ ملک کی اقتصادی راجدھانی کا زعفرائنائزیشن ہوچکا ہے لیکن یہ کیسے ہوا اس کے عوامل کیا ہیں؟یہ الگ اور مکمل کہانی ہے اس پر پھر کبھی بات کی جائے گی ۔ مگر ایک بات طے ہےکہ آزادانہ معیشت کے علمبردار صنعت کار، لبرل سوچ اور آزاد فکر و خیالات اور روشن خیالی کے زعم میں مبتلا بالی ووڈ کے بڑے بڑے ایکٹروں کے چہروں سے نقاب اتر گیا ہے۔ لبرل اکنامی اب کرونی کیپیٹل ازم اور بالی ووڈ، پروپیگنڈا مشنری میں تبدیل ہو چکا ہے۔کرونی کیپیٹل اقتدار کے ساتھ مل کر ملک کے وسائل قابض ہورہا ہے تو بالی ووڈ معیاری فکشن ہے اور معنی خیز موسیقی سے عاری ہوچکا ہے۔اس کا مقصد حیا باختہ کلچر اور ہندتو کا فروغ رہ گیا ہے۔ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے اثرات پر ہم گزشتہ تین ہفتوں سے الگ الگ زاویوں سے لکھ رہے ہیں۔ اس پوری گفتگو کا محور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور ملک کے آئین کو درپیش خطرات تھا۔ ہمارے سامنے یہ سوال تھا ہی نہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے خود ہندو سماج بالخصوص پسماندہ طبقات اور دلت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔دراصل میڈیا کے ذریعہ ہمارے دماغ میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ رام مندر کے سوال پر ملک کا ہر ایک ہندو متحد ہے۔تاہم ہفتے کے اخیر میں مقتول صحافی گوری لنگیش کے یوم پیدائش پر بنگلورو کے انڈین سوشل انسیٹیوٹ میں آزاد صحافت کو درپیش چیلنجز، مسائل اور امکانات کے عنوان سے منعقدہ دو روزہ سیمینارمیں شرکت کے بعد ممبئی میں جو تاثرات قائم ہوئے تھے وہ سب زائل ہوگئے۔
بہوجن میڈیا سے وابستہ کئی صحافیوں کی تشویش تھی کہ رام مندر کی آڑ میں ایک بار پھر ملک کو برہمن واد کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ہم نے برہمن ازم کا جو طلسم توڑا تھا وہ اب ایودھیا اور رام مندر کے نام پر ہمیں صدیوں پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔محض 13 برس کی عمر میں آر ایس ایس سے وابستہ ہونے اور رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رول ادا کرنے کے بعد 18سال کی عمر میں اس سے الگ ہونے والے صحافی اور I Could Not Be Hindu کے مصنف بھنور میگھ ونشی بتاتے ہیں تاریخ از سرنو مرتب کی جارہی ہے اور ویدک کلچر کو فروغ دینے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بہوجن سماج نے کبھی بھی کمیونلزم کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھا ۔چنانچہ ہم نے اپنی جدوجہد کو مساوات، برابری اور سماج کو آگے بڑھانے کی حد تک محدود کرلیا اور سیکولرازم اور کمیونلزم کے سوال پر خاموشی اختیار کرلی ۔اس بات پر کبھی بھی غور نہیں کیا گیا کہ اگر ملک میں سیکولرزم کمزور ہوتا ہے تو اس کی قیمت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہی نہیں ملک کے پسماندہ طبقات ،دلت اور قبائلیوں کو بھی چکانی پڑے گی۔
بھنور میگھ ونشی واحد صحافی نہیں تھے بلکہ اس طرح کی تشویش کا اظہار کرنے والوں میں مشہور و بزرگ صحافی پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا بھی شامل ہیں بلکہ ٹھاکرتا کی تشویش صرف برہمن واد کو لے کر نہیں ہے بلکہ وہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں سابق ججوں کی شرکت اور ملک کے چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ کی گجرات کے مندر میں پوجا کرنے کی تصاویر کو بھی الگ زاویہ سے دیکھتے ہیں۔
رام نومی کے موقع پر ممبئی کے میرا روڈ میں جو کچھ ہوا یہ کوئی نیا موقع نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہفت روزہ دعوت میں ہم نے یہ سوال سامنے لایا تھا کہ بھگوا وادیوں سے مسجد کی حفاظت ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ صرف مہاراشٹر میں گزشتہ دو سالوں میں اس کی وجہ سے کئی فسادات ہوئے ہیں ۔ہندتوادیوں کا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ وہ مساجد کے سامنے سے جلوس گزارتے ہیں اور پھر اس میں نفرت انگیز موسیقی کے ذریعہ نوجوانوں کو مسجد پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔اگر مسلمانوں کی طرف سے جوابی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے بعد پورا سسٹم مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہوجاتا ہے۔آج ہم اس سوال پر گفتگو نہیں کریں گے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز نعروں کے جواب میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔کیا مسلمانوں کو خاموشی سے مساجد کی بے حرمتی کو برداشت کرلینی چاہیے؟ کیوں کہ سوال صرف مسجد کے باہر نعرے بازی اور پتھراو تک محدود نہیں رہتا ہے۔انہیں جب احساس ہوتا کہ مسلمان خوف زدہ ہیں تو یہ ہندتوادی مسجد کے میناروں پر بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔چنانچہ اس طرح کے مسائل پر ملی تنظیمیں بالخصوص جماعت اسلامی ہند مسلمانوں کی بہتر رہنمائی کرسکتی ہے۔ آج ہماری فکرمندی ہندتو پاپ موسیقی کے تعلق سے ہے، کیوں کہ آج ہندتو پاپ موسیقی جس تیزی کے ساتھ ایک صنعت اختیار کرتی جا ری ہی ہے اس نے کئی اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔یہ صرف موسیقی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ ایک طرف جہاں مسلمانوں پر حملہ کرنے، 800 سالہ مبینہ زیادتیوں کا بدلہ چکانے اور مساجدکو مندروں میں تبدیل کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے وہیں تاریخ کو بھی گھڑنے کی بھی کوشش کی جاری ہے۔ من گھڑت رزمیہ نظموں کے ذریعہ مسلمانوں کو ظالم اور وحشی ثابت کرنے کی یہ کوشش بھارتی معاشرہ میں اکثریت اور اقلیت کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنانے کے لیے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی تعریف میں مختلف زبانوں میں موسیقی ہندو مت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ بھجن، مندروں اور گھروں میں پیش کی جانے والی عقیدت کی موسیقی کا ایک انداز اور قدیم روایات کا ایک اہم حصہ ہے۔ مگر ہندو قوم پرستی کے بتدریج عروج نے موسیقی کی ایک زیادہ جارحانہ شکل ہمارے سامنے رکھی ہے۔ہندوتو موسیقی نہ صرف مسلم مخالف جذبات کو جنم دیتی ہے بلکہ ملک کے تانے بانے کو اور بذات خود فن موسیقی کو زہر آلود کرنے کا کام کررہی ہے ۔
ہندتو پاپ میوزک مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کا اہم ذریعہ
انسانی تاریخ میں موسیقی کا اہم کردار رہا ہے۔ انسانی شعور کو انتہا کی بلندی تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ موسیقی ثقافتی اظہار ، مواصلات ، تفریح اور سماجی گفتگووں کے لیے بھی وسیلے کا رول ادا کرتی رہی ہے۔علاوہ ازایں موسیقی نے مختلف ادوار اور تہذیبوں میں مذہبی رسومات، کہانیاں سنانے اور سیاسی پروپیگنڈوں میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ چنانچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ موسیقی اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ماہرین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موسیقی بچوں میں علمی مہارت، تخلیقی صلاحیت اور جذبات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پرائمری اسکول کے نصاب میں موسیقی کو شامل کرنے کی وکالت کرنے والے استدلال کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک جرمنی جاپان ، فن لینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں موسیقی اسکول کے نصاب کا حصہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انسان کے شعور میں وسعت پیدا کرنے ،جمالیاتی احساس اور امن کو فروغ دینے میں موسیقی تاریخی کردار ادا کرنے کے ساتھ معاشرے کی بانجھ سوچ کو اپنے سُروں کے لمس سے سیراب کرتی ہے۔ اس سے پھر ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔مگر موسیقی کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ نازی ، اطالوی فاششٹ، راونڈا کی نسل کشی ، یورپ اور امریکہ میں سفید
فاموں کی بالادستی قائم کرنے کے لیے بھی نظموں اور گیتوں کا سہارا لیا گیا ہے ۔اس لیے فن موسیقی اپنے وجود کے اعتبار خیر وشر دونوں صفات کی حامل ہے۔ایک طرف جہاں وہ انسانی فکر و شعور میں وسعت پیدا کرنے کے کام آتی ہے وہیں اس کا ایک گھناونا کردار بھی ہے۔ماضی میں قتل وغارت اور انسانیت کی تذلیل میں بھی موسیقی نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔چنانچہ ہندتو پاپ اسٹارز اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو وسیع تر سماجی تبدیلیوں اور عصری گفتگو کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
وزیرا عظم نریندر مودی کی شخصیت اور آر ایس ایس پر کتابیں لکھنے والے سینئر صحافی نیلنجن مکھو پادھیائےکہتے ہیں ’’نفرت انگیز گانوں کو سب سے پہلے 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہندو قوم پرستوں نے آڈیو کیسٹوں کے ذریعے استعمال کیا تھا۔ یہ بالی ووڈ کی مشہور موسیقی کی دھن پر تیار کیے گئے تھے ۔اس طرح کے گانوں نے ہندو نوجوانوں کو رام جنم بھومی کی تحریک سے وابستہ کرنے اور بابری مسجد کے اصلاً رام جنم بھومی ہونے کے غیرحقیقی دعوئوں پر مبنی بیانیے کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔مکھوپادھیائے کہتے ہیں کہ 1992 میں ہندو ہجوم کے مرکزی بھارت کے اجودھیا میں واقع 16ویں صدی میں تعمیر کردہ بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لیے نوجوانوں کو ابھارنے میں ان گانوں کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے۔ان کا استدلال ہے کہ اس کے بعد سے ہی اس طرح کے گانے ہندو قوم پرستوں کے لیے مسلمانوں کی توہین اور مذہب کی تذلیل کرنے اور مسلمانوں کو جوابی حملے کے لیے اکسانے کا ذریعہ بن گئے۔ نیلنجن مکھوپادھیائے نے جن کی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پر گہری نظر ہے، اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر ہجوم کے حملے اسی طرز پر ہوتے ہیں۔ ہندوؤں کا ایک بڑا جلوس مسلمانوں کے محلوں میں داخل ہوتا ہے اور نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز گانے گاتا ہے اور لامحالہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ تشدد کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‘‘
فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کی باز آبادکاری اور دیگر فلاحی اسکیموں میں سرگرم Miles2Smile Foundation کے ڈائریکٹر آصف مجتبیٰ ’’ہندوتو پاپ میوزک‘‘ کے عروج اور مسلمانوں کے خلاف حالیہ برسوں میں ہونے والے تشدد کے واقعات کے درمیان تعلقات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نفرت سے بھرے گانے ملک میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ وہ ’’ہندوتو پاپ میوزک کے گلوگاروں کے نام لکشمی دوبے، پریم کرشنا ونشی اور دیگر فن کاروں کے گانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ اسے صرف ایک بار DJ پر بجاتے ہیں، تو تشدد کچھ ہی دیر میں سڑکوں پر پھوٹ پڑتا ہے ۔ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے قبل اس طرح کے نفرت انگیز گانوں کا استعمال دیکھا گیا ہے۔ اب آپ کو تشدد بھڑکانے کے لیے کسی اکسانے والے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ صرف ٹون سیٹ کریں، ٹریک سیٹ کریں اور نفرت پھیل جائے گی، کیونکہ یہ گانے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مطالبہ کرتے ہیں۔
’’ہندوتو پاپ میوزک کس طریقے سے بھارتی سماج کے تانے بانے، مشترکہ تہذیب و ثقافت اور بھارتی وراثت کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کر رہی ہے اس کا اندازہ گزشتہ مہینے شائع ہونے والی کتاب Hpop:The Secretive World of Hindutva Pop Stars کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ کتاب کے مصنف کنال پروہت کا تعلق ممبئی سے ہے وہ ایک آزاد صحافی، محقق اور ڈاکیومنٹری فلم سازی کے لیے مشہور ہیں ۔ملک کے مشہور کالم نویس اور مورخ رام چندر گوہا نے کنال پروہت کی کاوش کی ستائش کرتے ہوئے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے ’’ہندتو پاپ میوزک‘‘ پر یہ پہلی کتاب ہے جو مختلف زوایوں سے ہندتو پاپ میوزک کے اثرات کو دلائل کے ساتھ واضح کرتی ہے۔
کنال پروہت بتاتے ہیں کہ ہندتو پاپ میوزک مستقل طور پر ہندتو کے بنیادی عقائد کے لیے سماجی قبولیت پیدا کر رہی ہے۔ مقبول ثقافت میں ہندتو کو چالاکی سے داخل کرنے ، اسلاموفوبیا کے لیے ماحول بنانے اور اقلیتوں کو شیطان صفت ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ طور پر ہندتو کے ناقدین کی بھی توہین کی جاتی ہے۔ پھر وہ اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ کیا چیز ہندتو پاپ میوزک کو مقبول بناتی ہے ۔اس کے گلوکار اور سامعین کون ہیں؟اس کی تیاری اور نشریات کے لیے پیسہ، محنت اور وسائل کون صرف کررہا ہے؟ بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی مقبولیت پر اس کا کیا اثر ہے؟ اور کس قسم کا ہندوستان بنانے کی کوشش ہو رہی ہے؟ کنال پروہت کی یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’’ قاتل کی دھڑکن، زہر سے بھرے الفاظ: کاوی سنگھ‘‘۔ کاوی ایک ہندتو پاپ اسٹار ہے وہ ہندتو سے متاثر نوجوانوں میں بہت ہی مقبول ہے۔وہ ایسے گانوں کی تخلیق کرتا ہے جن میں ہندو قوم پرستی کے کچھ بنیادی عقائد کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ کاوی کو یقین ہے کہ ملک کی مسلم آبادی ملک کی آبادیاتی ساخت (ڈیموگرافی) میں تبدیلی لانے کی در پردہ سازش کررہی ہے اور جلد ہی ملک میں ہندو، اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ دوسرے باب میں مصنف نے ہندتو کے ایکو سسٹم کو زیادہ سے زیادہ سامعین تک پہنچانے کے لیے ہندتو پاپ اسٹارز کی شاعری کے استعمال سے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ بی جے پی بھارت میں ہندوؤں کی واحد نجات دہندہ ہے۔ کتاب کا تیسرا باب ثقافتی جنگ میں مصروف ہندوؤں پر توجہ مرکوز کرتا ہے اس میں پیچیدگیوں سے بھرے خطہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جہاں شناخت، روایت اور جدیدیت کے تصورات ایک دوسرے کو آپس میں ملاتے ہیں۔ ہندوؤں کے اندر ثقافتی جنگ اکثر پرانی روایات کو برقرار رکھنے اور بدلتے ہوئے معاشرتی اصولوں کو اپنانے کے درمیان نازک توازن کے گرد گھومتی ہے۔
کونال پروہت بتاتے ہیں ہندتو پاپ میوزک کا مقصد نظموں اور گانوں کے ذریعہ ماضی کو دوبارہ لکھنا ہے تاکہ مسلمانوں کو ظالم اور شیطان ثابت کیا جاسکے اور ہندوؤں کو عظیم اور بہادر کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ اس میں سامعین کے سامنے استدلال رکھنے کے بجائے جذبات میں ہیجان پیدا کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہندتو کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے، دشمنوں کی ضرورت ہے لہذا وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل نئی باتیں گھڑی جاتی ہیں۔چنانچہ مسلم حکم رانوں کو ظالم ثابت کرنے اور ان کے مقابلے میں ہندو شخصیت کو لانے کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ایک گانے میں تیمور کے مقابلے میں جوگراج سنگھ گرجر نامی ایک بالکل فرضی جنگجو کا جشن منایا گیا ہے ۔اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جوگراج سنگھ نے تیمور کی فوج کو شکست دی اور اسے ہریدوار کے دروازے پر روک دیا۔ اس من گھڑت کہانی کے ساتھ اس نظم کی ایک ویڈیو کو اداکارہ، کنگنا رناوت نے اپنے فیس بک پیج پر اتر پردیش میں 2022 کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر شیئر کیا تھا۔اس میں اس نے اپیل کی تھی ’’اس کی کہانی سنیں، بہادر، طاقتور جوگراج سنگھ گرجر جس نے ظالم حملہ آور تیمور لنگ کو شکست دی۔ میں تمام ووٹروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنے بہادر آباؤ اجداد کی قربانیوں کا احترام کریں۔ پولنگ کی تاریخ پر، یقینی بنائیں کہ آپ ہماری قوم کی سلامتی کے لیے ووٹ دیں۔‘‘ اس سے ہندتو پاپ میوزک کی رسائی اور اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہندتو پاپ میوزک کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
ہندو ثقافتی شاونزم ہندتو نظریہ کے بڑے فریم ورک سے وابستہ ہے اور یہ بھارت کے تکثیری معاشرہ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ سماجی تانے بانے میں موجود تنوع اور کثرت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بالادست ثقافتی شناخت قائم کرنا اس کابنیادی مقصد ہے۔ یہ شاونسٹ نقطہ نظربھارتی تہذیب و ثقافت کے بنیادی اصول، شراکت داری اور رواداری کو کمزور کرتا ہے۔ آئیڈیالوجی اور مقبول ثقافت کی باہم جگل بندی بالخصوص موسیقی کی آڑ میں ہندتو کے پرچار سے ملک کے کثیرجہتی تنوع کو خطرات سے دوچار کردیتی ہے۔موسیقی آفاقی زبان کے طور پر، سماجی بیانیے کو متاثر کرنے اور تشکیل دینے کی بے پناہ طاقت رکھتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہندتو پاپ میوزک کی مقبولیت اور اس کی وجہ سے بھارت کی کثیرجہتی خصوصیت اور تنوع کو لاحق خطرات اور مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے تیار کیے جانے والے ماحول کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔کیا موسیقی کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کرلی جائے؟ کیا آنکھیں بند کرلینے سے خطرات ٹل جاتے ہیں؟ موسیقی پر مذہبی بحث میں الجھنے کے بجائے ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ جس طریقے سے ہندتو پاپ میوزک کے ذریعہ مسلمانوں کی تاریخ ، مسلم شخصیات کی کردار کشی اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم جنگلی ثابت کرنے کا بیانیہ مرتب کیا جارہا ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ کیا فکر و خیال میں وسعت پیدا کرتے ہوئے اسلامی اصولوں اور حدود کے دائرے میں رہ کر موسیقی کی زبان میں ہی ہندتو کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا یا نہیں کیا جانا چاہیے؟
***

 

***

 سوال یہ ہے کہ ہندتو پاپ میوزک کی مقبولیت اور اس کی وجہ سے بھارت کی کثیرجہتی خصوصیت اور تنوع کو لاحق خطرات اور مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے تیار کیے جانے والے ماحول کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔کیا موسیقی کو شجر ممنوعہ قرار دے کر اس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کرلی جائے؟ کیا آنکھیں بند کرلینے سے خطرات ٹل جاتے ہیں؟ موسیقی پر مذہبی بحث میں الجھنے کے بجائے ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ جس طریقے سے ہندتو پاپ میوزک کے ذریعہ مسلمانوں کی تاریخ ، مسلم شخصیات کی کردار کشی اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم جنگلی ثابت کرنے کا بیانیہ مرتب کیا جارہا ہے، اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ کیا فکر و خیال میں وسعت پیدا کرتے ہوئے اسلامی اصولوں اور حدود کے دائرے میں رہ کر موسیقی کی زبان میں ہی ہندتو کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا یا نہیں کیا جانا چاہیے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024