ہریانہ:سونی پت  میں نماز پڑھ رہے مسلمانوں پرمسلح شدت پسندوں کا حملہ

دس سے زائد نمازی زخمی،بزرگ،خواتین اور بچوں کو بھی مارا پیٹا گیا،شدت پسند مسلمانوں کے نماز پڑھنے سے ناراض پڑھنے سے ناراض تھے

نئی دہلی،11اپریل :۔

ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی آگ اس قدر بھڑک چکی ہے کہ اب دیہی علاقوں میں بھی غیر مسلموں کو مسلمانوں کے نماز پڑھنے اور عبادت کرنے سے چڑھ اور نفرت ہو گئی ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف بے خوف ہو کر ہتھیار بھی اٹھانے لگے ہیں ۔تازہ معاملہ ہریانہ کے سونی پت علاقے کا ہے جہاں گزشتہ اتوار کو دیر رات نو بجے رمضان میں نماز تراویح پڑ ھ رہے مسلمانوں پر ہتھیار بند  شدت پسندوں نے حملہ  کر دیا اور دس سے زائد نمازیوں کو زخمی کر دیا مسجد میں توڑ پھوڑ کی ۔حیرت انگیز طور پر حملہ آوروں نے اس دوران خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا ۔

رپورٹ کے مطابق ہریانہ کے سونی پت کے ساندل کلاں گاؤں میں نماز تراویح کے  دوران  تقریباً 25  شدت پسندنوجوانوں نے جو لاٹھیوں، تلواروں اور چاقوؤں کے ساتھ پہنچے مسجد میں نماز ادا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ  کر دیا۔ جس میں 10سے زائد  نمازی زخمی ہوئے ہیں۔ انہیں سونی پت اور خانپور میڈیکل اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔

پولیس کمشنر ستیش بالن نے صبح گاؤں پہنچ کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ 10 نامزد سمیت متعدد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے کچھ ملزمان کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔مسلمانوں کا الزام ہے کہ انہیں نماز پڑھنے سے روکنے کے لئے حملہ کیا گیا۔ ساتھ ہی پولیس کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے ملزمان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

زخمیوں کا الزام ہے کہ حملہ آوروں نے بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا۔  حملہ آور  ان کے نماز پڑھنے سے ناراض تھے۔ اس تصادم کے بعد علاقے کا ماحول کشیدہ ہو گیا۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی ہے۔ لوگوں سے امن کی اپیل کرتے ہوئے گاؤں میں پولیس فورس تعینات کر دی گئی۔

مسجد کے امام مولانا کوثر نے بتایا کہ ہمارا کسی سے پہلے کوئی  جھگڑا نہیں ہواتھا ۔وہ لوگ ہتھیاروں کے ساتھ مسجد میں آئے اور ہم نماز پڑھ رہے لوگوں پر تابڑ توڑ حملہ کر دیا۔اس دوران ہماری خواتین بچانے آئیں انہیں بھی مارا اور پیٹا گیا ۔تمام حملہ آور ہندو تھے اور گاؤ ں ہی سے ان کا تعلق ہے ۔

مسجد کے امام مولانا کوثر

متاثرہ سلیم خان کا کہنا ہے کہ  ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ تبھی 20-25 لڑکے  ہتھیاروں کے ساتھ آگئے۔ جن میں سے ایک کو بٹہ کہا جا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ماضی میں بھی ہماری ان سے کوئی تنازعہ نہیں ہوا ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ صرف اس بات سے ناراض تھے کہ  ہم نماز کیوں پڑھ رہے ہیں۔

محمد سلیم نے بتایا کہ وہ رات 9 بجے نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں لاٹھیوں سے مارا۔ وہ  چاقو اور ہاکی اسٹک بھی لے کر  آئے تھے ۔وہ لوگ بزرگوں بچوں اور خواتین سب کو مار رہے تھے ۔  بوڑھوں اور بچوں کو زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔

پولیس کمشنر بی ستیش بالن پیر کی صبح ساندل کلاں گاؤں پہنچے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لیا اور متاثرہ خاندانوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک متاثرین غیر محفوظ محسوس کریں گے، پولیس گاؤں میں تعینات رہے گی۔ستیش بالن نے بتایا کہ گاؤں کے کچھ سماج دشمن عناصر رات کے وقت مسجد میں داخل ہوئے اور نماز یوں پر حملہ کیا۔ آپس میں کوئی تناؤ یا اختلاف نہیں تھا۔ پولیس نے 16 نوجوانوں کو  راؤنڈ اپ کیا  ہے، پوچھ گچھ جاری ہے۔بغیر کسی تنازعہ کے  اگر کسی مذہبی مقام میں بلا وجہ داخل ہو کر اس قسم کا واقعہ پیش آیا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔

پولیس کے مطابق 7 سے 8 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کچھ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ پولیس کمشنر نے کہا کہ سبھی خطرے سے باہر ہیں۔ 10 کے نامزد اور  باقی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ 5-6 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس ملزمان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ ستیش بالن نے کہا کہ گاؤں کے لوگوں سے بات چیت ہوئی ہے۔ گاؤں میں آج تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔