
کینیڈا میں اسلامی بصیرت، سوسائٹی کی خدمت اور شعورِ امت کا حسین امتزاج
مسلم اسوسی ایشن آف کینیڈا (MAC) کا 2025 کنونشن۔ موجودہ حالات میں امید اور حوصلے کی کرن
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
مسلم اسوسی ایشن آف کینیڈا (MAC) کا قیام 1997 میں عمل میں آیا۔ اس تنظیم کا مقصد کینیڈا میں اسلام کے حقیقی کردار کو اس طرح پیش کرنا ہے جو مقامی معاشرت سے ہم آہنگ ہو۔اس کے ساتھ یہ تنظیم پورے کینیڈا میں مسلم کمیونٹی کو دینی، تعلیمی اور سماجی خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کا صدر دفتر اونٹاریو کے شہر میسیساگا میں واقع ہے اور یہ تنظیم کینیڈا کے 13 شہروں میں سرگرم ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں MAC نے بھرپور ترقی کی ہے اور آج یہ کینیڈا کی سب سے بڑی مقامی مسلم تنظیم بن چکی ہے جو ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو مختلف خدمات اور پروگراموں کے ذریعے فائدہ پہنچاتی ہے۔ MAC پورے کینیڈا میں فل ٹائم اور پارٹ ٹائم اسکولز، ویک اینڈ اسکولز اور چائلڈ کیئر سنٹرز چلاتی ہے۔ ان اداروں کا مقصد طلبہ کی ہمہ جہتی تعلیم اور اسلامی اقدار کے ساتھ ان کی شخصیت کی تعمیر ہے۔MAC مختلف تقریبات کا انعقاد کرتی ہے تاکہ وسیع تر معاشرے کے ساتھ روابط قائم کرکے اسلام کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کی جاسکیں۔ MAC اوپن ہاؤس، آرٹ نمائشیں اور تعلیمی پروگرام منعقد کرتی ہے جن میں اسلام کی سائنسی، طبی اور ثقافتی خدمات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ صحت کے شعبے میں اس تنظیم نے مثبت اقدامات کیے ہیں جیسے COVID-19 وبا کے دوران MAC نے صحت عامہ کے حکام کے ساتھ مل کر vaccination کلینکس قائم کیے۔MAC میسیساگا میں اسلامک کمیونٹی سینٹر آف اونٹاریو (ICCO) چلاتی ہے جو دینی خدمات، تعلیمی پروگراموں اور کمیونٹی کی تقریبات کا مرکز ہے۔ ICCO مقامی کمیونٹی کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف خدمات فراہم کرتا ہے۔ MAC کے تحت 2024میں کینیڈین اسلامک کالج CIC قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد طلبہ کو نہ صرف علمی طور پر مضبوط بنانا ہے بلکہ انہیں معاشرہ میں صالح انقلاب کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کمیونٹی اور دنیا میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ یہ کالج کینیڈا کا پہلا مکمل طور پر تسلیم شدہ اسلامی پوسٹ سیکنڈری ادارہ ہے جو اسلامی تعلیمات کو جدید تعلیمی معیار کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ CIC ایک چار سالہ بی اے آنرز پروگرام پیش کرتا ہے جس میں درج ذیل پانچ تخصصات شامل ہیں: اسلامی فقہ، اسلامی معیشت، اسلامی سماجی انصاف، اسلامی فنون و میڈیا اور عربی زبان۔
راقم الحروف کا چونکہ ان دنوں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے قریب میسیساگا میں قیام ہے اس لیے MAC کے سالانہ تین روزہ کنونشن میں شرکت کا موقع ملا جو انٹرنیشنل سنٹر میں 17 تا 19مئی کو منعقد ہوا۔ اس میں شرکت کی فیس 90 کینیڈین ڈالر (پانچ ہزار چھ سو روپے) تھی۔ یہ فیس کنونشن کے اخرجات کو پوراکرنے کے لیے لگائی گئی تھی۔ انٹرنیشنل سنٹر کینیڈا کے بڑے ایونٹ وینیوز میں سے ایک ہے۔ یہ مرکز 548,000 مربع فٹ پر مشتمل ہے جس میں 6 ہالز ہیں۔ MAC کنونشن ہال نمبر 5 میں منعقدہوا۔ ہال نمبر 5 کا رقبہ ایک لاکھ مربع فٹ ہے۔ اس ہال میں پانچ میٹنگ رومز ہیں جن میں متوازی پروگرام منعقد ہوتے رہے۔ روم A میں Understanding Islam کے عنوان سے، روم B میں Family & Society کے عنوان سے، روم C میں Muslim Youth کے عنوان سے، روم D میں Community & Activism کے عنوان سے اور روم F میں Ummah کے مرکزی عنوانات کے تحت تقاریر کو ترتیب دیا گیا۔ جملہ 36 متوازی سیشنز مختلف عنوانات کے ساتھ رکھے گئے۔ ہر سیشن کا دورانیہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ تھا۔ ہر سیشن میں دو مقررین کو موقع دیا گیا۔ تقاریر کے بعد سامعین کو سوالات کا موقع بھی دیا گیا ۔سماعت سے معذور (بہرے) لوگوں کے لیے اشاروں کی زبان میں ترجمانی کا انتظام بھی کیا گیا۔ ہر روم میں اوسطاً 700 سے 1000 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس طرح اس کنونشن میں شرکا کی تعداد 4000 سے زائد تھی۔ ہر روز متوازی پروگرام ساڑھے دس بجے سے سوا پانچ بجے تک چلتے رہے۔ درمیان میں ڈیڑھ گھنٹہ نمازِ ظہر اور ظہرانے کے لیے رکھا گیا۔ ایک بڑے ہال میں کپڑوں اور کتابوں کے اسٹال لگائے گئے۔ وہیں یمنی اور مصری کھانوں کا فوڈ کورٹ بھی لگایا گیا جہاں لوگ ذوقِ طعامی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ نمازِ عصر ساڑھے پانچ بجے ادا کی جاتی ہے۔ بعد نمازِ عصر دو گھنٹوں پر مشتمل ایک بڑا پروگرام ایک تھیٹر نما بڑے ہال میں منعقد ہوتا ہے جس میں سارے شرکاء ایک ہی وقت میں شریک ہوتے ہیں۔ اس مشترکہ سیشن میں متنوع پروگرام ہوتے ہیں جیسے تقاریر، اناشید اور نظمیں، مذاکرہ، طلباء کا گروپ پرفارمنس اور فنڈ ریزنگ وغیرہ۔ اس پروگرام کے بعد نمازِ مغرب نو بجے شب ادا کی جاتی ہے جس کے بعد لوگ اپنے اپنے مقامات کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان دنوں یہاں عشاء کی اذاں دس بجے شب ہوتی ہے اور فجر کی اذاں چار بجے صبح ہوتی ہے۔ اس طرح یہاں کا دن مئی کے مہینے میں 17گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ کنونشن میں شرکاء کی اکثریت عرب ممالک سے تھی جن کے والدین نے نصف صدی سال قبل نقلِ مقامی کی تھی۔ غیر مسلموں میں دعوتی کام میں بھی عربوں کا رول سب سے زیادہ ہے۔ زیادہ ترمساجد اور پرائیویٹ اسلامی اسکول بھی عربوں کے زیرِ اہتمام چلائے جاتے ہیں۔ اس کنونشن کا ایک حصہ نمائش بھی تھا جس میں اسلامی تاریخ کے مسلم بہادر جاں بازوں کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے انمول طریقہ اس طرح اختیار کیا گیا کہ جنگی لباس زیب تن کر کے چند نوجوانوں نے مسلم فاتحین کی آپ بیتی بیان کی۔
کنونشن کا مرکزی تھیم
اس سال کے کنونشن کا مرکزی تھیم سورۃ آل عمران کی دو آیات پرمبنی ہے: وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الأيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (سورۃ آل عمران 139، 140) ’’دل شکستہ نہ ہو، نہ غم کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور تم میں سےکچھ کو شہداء کے طور پر چن لیا جائے کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں‘‘
ان آیات میں چونکہ زمانے کے نشیب و فراز کا ذکر ہے جس طرح سمندر میں مد و جزر آتا ہے اسی مناسبت سے اس کنونشن کا عنوان رکھا گیا ہے: Turning the Tides (امواج کا بدلنا) اللہ تعالیٰ کبھی حق کو غلبہ عطا کرتا ہے تو کبھی باطل کو۔ اس میں اللہ کی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر ہر وقت حق کو غلبہ ہو تو امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا اور ہر فرد ایمان لے آتا۔ کبھی باطل پرستوں کو تو کبھی اہلِ حق کو شکست ہو تو اشتباہ کا پردہ قائم رہتا ہے۔ جو کہ اللہ تعالی کہ مقصدِ امتحان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اہلِ حق کا دل شکستہ ہونا باطل پرستوں کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے جس سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور اچانک ان کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ یہ کفار کے لیے سزا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ آل عمران میں بیان فرمایا ہے: وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ (سورۃآل عمران:178) ’’یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے‘‘۔ حالات کے نشیب و فراز کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کھرے اور کھوٹے ایمان والوں کے فرق کو ظاہر کردیا جائے: وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ (سورۃ آل عمران :141) ’’اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا‘‘۔
اس کنونشن کے لیے ان آیات کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ غزہ وفلسطین کے دل شکن حالات کو دیکھ کر بہت غم زدہ ہے لہٰذا انہیں ہمت و حوصلہ مل سکے اور وہ مزید تندہی کے ساتھ خدمات انجام دے سکیں ۔
کنونشن کے اہم مقررین
اس کنونشن میں شمالی امریکہ اور برطانیہ کے چوالیس مشہور مقررین نے حصہ لیا جو بیشتر کینیڈا اور امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں چند کے نام اور ان کی کاوشوں کو ذیل کی سطور میں پیش کیا جا رہا ہے:
امام سراج وہاج (امریکہ ): امام سراج وھاج نے 1969 میں اسلام قبول کیا۔ 1978 میں انہوں نے مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی میں اسلامیات میں تعلیم حاصل کی۔ امام وہاج 1997 سے امریکا میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (ISNA) کے نائب صدر ہیں ۔ 1989 سے 1993 تک نیشنل اسوسی ایشن آف اسلامک ٹرسٹ (NAIT) کے بورڈ آف ایڈوائزرز کے رکن بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ امریکن مسلم کونسل کے بورڈ آف ایڈوائزرز کے رکن بھی ہیں۔1988 میں بروکلن، نیویارک میں منشیات کے خلاف مہم کا آغاز کرنے پر میڈیا اور نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ (NYPD) کی جانب سے انہیں بھر پور سراہا گیا۔ امام وہاج وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے امریکی کانگریس میں اسلامی دعا (invocation) کی۔ اس وقت امام سراج وھاج بروکلن، نیویارک کی مسجد التقویٰ کے امام ہیں۔
سامی حمدی: یہ دی انٹرنیشنل انٹرسٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ یہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کے خطے میں سیاسی حالات کے تجزیے میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں حکومتوں اور کارپوریشنز کو مشورے دینے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔اس وقت مغربی دنیا کے سب سے پر اثر مقرر مانے جاتے ہیں۔ان کی تقاریر میں ان کا یہ یقین پر زور طریقے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اپنی جنگ ہار چکا ہے اور اہلِ غزہ اپنے صبر کی معراج پر پہنچ چکے ہیں اور وہ بالآخر سرخ رو ہوں گے۔
ابتہال ابوسعد (مراقش): ابتہال ابو سعد مائیکروسافٹ کے سابقہ سافٹ ویئر انجینئر ہیں، جنہیں مصنوعی ذہانت (AI) کو فلسطین کے خلاف حملوں میں استعمال کے خلاف احتجاج کرنے پر بر طرف کر دیا گیا تھا۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات مصنوعی ذہانت، اخلاقیات اور نوجوانوں کو با اختیار بنانے سے متعلق ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس اور نفسیات میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگری یافتہ ہیں اور ان کی پرورش مراقش میں ہوئی۔
امام ٹام فاشینی: یہ یقین انسٹیٹیوٹ فار اسلامک ریسرچ میں "اسلام اور معاشرہ” کے شعبے کے ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ لیگیسی انٹرنیشنل آن لائن ہائی اسکول میں بھی انسٹرکٹر ہیں، جہاں وہ تفسیر اور اسلامی تاریخ پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے واسر کالج سے سیاسیات (Political Science) میں بی اے کیا اور 2015 سے 2020 تک مدینہ منورہ میں اسلامک یونیورسٹی کے کلیہ الشریعہ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا کام بنیادی طور پر اسلامی سیاسی فکر اور جدید نظریات کے تجزیاتی جائزے پر مرکوز ہے۔
ابراہیم رسول (جنوبی افریقہ): یہ سابق جنوبی افریقی سفیر برائے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور ویسٹرن کیپ کے سابق گورنر ہیں۔ اس سے قبل وہ جنوبی افریقہ کی نیشنل اسمبلی کے رکنِ پارلیمنٹ اور صدرِ مملکت کے خصوصی مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا شمار نسل پرستی مخالف جدوجہد کے (anti-apartheid struggle) میں سرگرم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) اور افریقی نیشنل کانگریس (ANC) کی قیادت کی۔ یہ "ورلڈ فار آل فاؤنڈیشن” کے بانی ہیں اور بین المذاہب اور بین الثقافتی تعاون کے لیے فکری بنیادوں کی تشکیل نو میں سرگرم ہیں تاکہ دنیا بھر میں محروم اور پس ماندہ طبقات کے لیے وقار، شمولیت اور مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کی پاداش میں ان کو امریکہ میں سفارت کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔
ڈاکٹر اسمہان عبداللہ (امریکہ): یہ انتہائی اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل خاتون ہیں ۔ڈاکٹر اسمہان ایک وژنری اسٹریٹجسٹ، سیاسی منتظم اور بہترین ٹرینر ہیں جنہیں سیاسی و انسانی حقوق کی وکالت اور تنظیم سازی کے شعبوں میں وسیع مہارت حاصل ہے۔ وہ مسلم امریکن سوسائٹی کے شعبہ تعلقاتِ عامہ و شہری شمولیت (MAS-PACE) کی نیشنل ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر اسمہان ایک غیر متزلزل انصاف کی علم بردار ہیں، جو پناہ گزینوں، تارکینِ وطن، نسلی مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرتی ہیں۔ ڈاکٹر اسمہان نے مقامی، ریاستی اور قومی سطح پر متعدد قائدانہ اور مشاورتی عہدوں پر کام کیا ہے۔ وہ یونائیٹڈ اسٹیٹس کونسل آف مسلم آرگنائزیشنز (USCMO) کی بورڈ ممبر ہیں۔ ڈاکٹر اسمہان نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو سے ہیومن بایولوجی میں بیچلر، سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلیم اور کونسلنگ میں ماسٹرز اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے آرگنائزیشنل چینج اینڈ لیڈرشپ میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔ ایک مؤثر رہنما اور متاثر کن مقرر کے طور پر وہ مقامی و قومی سطح پر انسانی حقوق، نوجوانوں کی قیادت اور اسلامی تربیت کے موضوعات پر خطاب کرتی رہتی ہیں۔
شون کنگ (امریکہ): یہ بروکلن سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن اور مصنف ہیں جو شہری و انسانی حقوق، نسلی انصاف، اجتماعی قید و بند اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بد عنوانیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ شون کنگ دی نارتھ اسٹار کے بانی اور چیف ایڈیٹر ہیں۔ شون کنگ نے تاریخ کے میدان میں تربیت حاصل کی ہے اور وہ کئی ایسی کتابوں کے مصنف ہیں جو سماجی نا انصافیوں، نظامی جبر اور مثبت تبدیلی کے لیے قیادت جیسے موضوعات پر مبنی ہیں۔مارچ 2024 میں انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ غزہ میں جاری بحران کے دوران فلسطینی عوام کے حوصلے اور ایمان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا تھا ۔
دعاء حجاج (امریکہ): دعاء حجاج فیملی اینڈ یوتھ انسٹیٹیوٹ کی کمیونٹی ایجوکیٹر ہیں اور سائلنٹ سن لائٹ کاؤنسلنگ میں بچوں، نوجوانوں اور خاندانوں کی کونسلنگ کرتی ہیں۔ ان کے پاس کونسلنگ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے۔ دعاء کو نوجوانوں کی تربیت سے گہرا شغف ہے۔ وہ اپنے ورکشاپس میں اسلامی سائیکوتھراپی کو شامل کرتی ہیں۔ وہ پچھلے پندرہ سالوں سے ایک پر عزم کمیونٹی آرگنائزر رہی ہیں۔ وہ مسلم امریکن سوسائٹی (MAS) کے ذریعے مسلم نوجوانوں اور خاندانوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر اوعامر انجم: یہ یونیورسٹی آف ٹولیڈو کے شعبۂ فلسفہ و مذہبی علوم میں ’’انڈاؤڈ چیئر آف اسلامک اسٹڈیز‘‘ کے منصب پر فائز ہیں۔ ان کا تحقیقی کام اسلامی الٰہیات، اخلاقیات، سیاست اور قانون کے باہمی تعلق پر مرکوز ہے، جب کہ وہ مغربی فکر کے ساتھ تقابلی مطالعہ میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف وسکونسن-میڈیسن سے اسلامی فکری تاریخ (Islamic Intellectual History) میں پی ایچ ڈی کی یونیورسٹی آف شکاگو سے سوشل سائنسز اور کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی جبکہ یونیورسٹی آف وسکونسن-میڈیسن سے نیوکلیئر انجینیئرنگ اور فزکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مصنف ہیں اور انہوں نے عربی کتابوں سے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
جمال الشیال: یہ ایک بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ سابقہ سینئر نامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں، جنہوں نے الجزیرہ انگلش کے ساتھ طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔ وہ 2006 میں الجزیرہ انگلش کے قیام کے وقت اس کی ابتدائی ٹیم میں شامل ہوئے اور پہلے مڈل ایسٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، جمال الشیال کئی اہم تاریخی واقعات کے دوران الجزیرہ کے مرکزی رپورٹر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کے دوران متعدد عالمی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی کیے اور دنیا بھر میں معیاری اور متاثر کن رپورٹنگ کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ابو طالب: یہ بوسٹن اسلامک سیمنری کے ڈین آف ایڈمنسٹریشن اور یقین انسٹیٹیوٹ برائے اسلامک ریسرچ کے سینئر فیلو ہیں۔ اسلامی علوم اور سائنس دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایم آئی ٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے، ساتھ ہی السلام انسٹیٹیوٹ سے عالمیہ کی سند اور کیمبرج اسلامک کالج سے متعدد ڈپلوما ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ، ایم آئی ٹی اور ڈیوک یونیورسٹی جیسے اداروں میں لیکچرز دیے ہیں۔ ڈاکٹر ابو طالب دینی اور دنیاوی علوم کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔
امل الباز: یہ ایک مصنفہ، معلمہ، شاعرہ، اور بہترین مقررہ ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دنیا بھر میں سیکڑوں لیکچرز، ورکشاپس اور مشاعروں میں سامعین کو متاثر کرتی رہی ہیں۔ یہ سامعین کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے، اپنے دین سے محبت کرنے اور دین کی سمجھ پیدا کرنے پر ابھارتی ہیں۔ امل نے ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی سے جرنلزم میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے اور اس وقت مصر کی جامعہ الأزہر میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے دعوت میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ چار بچوں کی ماں ہونے کے ناطے امل خاص طور پر خواتین اور ماؤں کی تربیت میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں ۔
ڈاکٹر حامد غزالی (امریکہ): ان کو تربیت اور کلاس روم مینجمنٹ میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے کریکلم اور انسٹرکشن کے شعبے سے کانساس اسٹیٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر غزالی نے کئی اسلامی اسکولوں میں پرنسپل اور سپرنٹنڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دی ہیں جن میں ISNA کینیڈا بھی شامل ہے۔ اس وقت وہ ہیوسٹن قرآن اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور کئی اسلامی اسکولوں کے مشیر بھی ہیں۔ ڈاکٹر غزالی ہیوسٹن، ٹیکساس میں قائم الہدیٰ یونیورسٹی کے بانیوں میں سے بھی ہیں اور وہاں بطور پروفیسر تدریس بھی کرتی ہیں۔ وہ مسلم امریکن سوسائٹی کے کونسل آف اسلامک اسکولز (MASCIS) کے چیئرمین بھی ہیں۔انہوں نے اسلامی تعلیم کے حوالے سے متعدد مقالے اور مضامین شائع کیے ہیں اور K-12 اسکول اکریڈٹیشن میں ماہر ہیں جنہوں نے کئی اسلامی اسکولوں کو اکریڈیٹ کروانے میں مدد فراہم کی ہے۔ ڈاکٹر غزالی نے پورا قرآن حفظ کیا ہوا ہے۔ قرآن پر تدبرانہ نظر رکھتی ہیں اور قرآن پر اپنی وسیع تحقیق کو شائع کرنے کے مرحلے میں ہیں۔
استاذہ تیمیہ زبیر (کینیڈا): ایک معروف معلمہ ہیں جن کا خصوصی فوکس قرآن کی تفسیر ہے۔ انہوں نے متعدد لفظ بہ لفظ تراجم اور مختصر و مفصل تفسیرات پڑھائی ہیں۔ انہوں نے اسلامی علوم میں گہری تعلیم اپنے والدین ڈاکٹر ادریس زبیر اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی (جو کہ ادارہ الہدیٰ انٹرنیشنل کے بانی ہیں) کی رہنمائی میں حاصل کی ہے۔ استاذۃ تیمیہ الہدیٰ انسٹیٹیوٹ اور المشرق انسٹیٹیوٹ کی معلمہ ہیں اور اکثر GTA (گریٹر ٹورنٹو ایریا) اور بین الاقوامی سطح پر آن لائن کلاسز پڑھاتی ہیں۔
خالد القزاز: یہ کینیڈین مسلم پبلک افیئرز کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور انسٹیٹیوٹ آف ریلیجس اینڈ سوشیو-پولیٹیکل اسٹڈیز کے بورڈ کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو (U of T) سے مکینیکل اور انڈسٹریل انجینئرنگ میں ماسٹرز آف اپلائیڈ سائنسز کی ڈگری حاصل کی ہے، اور والڈن یونیورسٹی سے ایجوکیشنل ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ 2005 میں خالد مصر منتقل ہو گئے اور وہاں ایک K-12 بین الاقوامی اسکول قائم کیا۔ وہ اس وقت انٹرنیشنل جسٹس سرکل برائے ہیومن رائٹس واچ کے رکن بھی ہیں۔
فاضل سلیمان: یہ بین الاقوامی یونین آف مسلم سکالرز کے رکن ہیں۔ الیکٹرانکس انجینئر ہونے کے علاوہ فاضل سلیمان ایک عالمی مقرر، خطیب، فلم ساز اور اسلام کے نمائندہ بھی ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں، گرجا گھروں اور یہودی عبادت گاہوں میں لیکچرز دیے اور مباحثے کیے ہیں۔ وہ بریجز فاؤنڈیشن کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، جس کا مقصد مختلف پس منظر کے لوگوں کو جوڑنا ہے، خاص طور پر 9/11 کے بعد مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خلا کو کم کرنا ہے۔ فاضل سلیمان نے اسلام کے موضوع پر تین حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم سیریز بنائی ہے جس کا عنوان "The Fog is Lifting” ہے۔
شیخ محمد زاہد ابو غدہ (کینیڈا): مرحوم شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کے بڑے بیٹے ہیں جو بیسویں صدی کے ایک معروف مسلم عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ محمد زاہد کینیڈا کے انرجی سیکٹر اور بین الاقوامی سطح پر ایک کامیاب کاروباری رہنما ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ محمد زاہد کینیڈین مسلم تنظیموں کو حکمت عملی کی منصوبہ بندی، گورننس اور اسلامی فقہ کے بارے میں مشورے فراہم کرتے ہیں اور کئی مسلم ادارے قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ وہ کینیڈا کے معروف علماء میں سے ایک ہیں۔ وہ گریٹر ٹورنٹو ایریا میں باقاعدہ لیکچر دیتے ہیں اور خطبات بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں کئی کتابیں تصنیف اور ترجمہ کی ہیں۔ اس کنونشن میں انہوں نے مولانا مودودی پر لکچر دیا اور بتایا کہ پچھلی صدی کے دو بڑے مفکر میں ایک مولانا مودودی ہیں اور دوسرے الجزائرکے مالک بن نبی ہیں۔
طوالت سے بچنے کے لیے چند معروف مقررین کے بارے میں یہاں لکھا گیا ہے۔ مسلم ایسوسی یشن آف کینیڈا کے بارے میں مزید معلومات کے لیے MAC کی ویب سائٹ ملاحظہ کریں:
www.macnet.ca
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025