حسن آزاد
موجودہ دور میں اگر آپ کورٹ کچہری، قانون اور ضابطے کی بات کر رہے ہیں تو آپ نئے زمانے میں پرانی باتیں سنا رہے ہیں۔ شاید علامہ اقبال نے اسی دور کے لیے کہا تھا کہ
سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!
دراصل آج میڈیا ٹرائل کا دور ہے۔ جی ہاں! آج نیوز روم میں بیٹھے پینل پر نیوز اینکرس خود ہی جج، جیوری اور جلاد کی حیثیت سے احکام صادر کر رہے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بس حالیہ دنوں میں اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے حوالے سے چند میڈیا رپوٹس دیکھ لیجیے تو شاید مسئلہ دو اور دو چار کی طرح عیاں ہوجائے گا۔ محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر سمیت دیگر کی گرفتاری کے بعد چند مین اسٹریم میڈیا کا ’کھیل‘ زور وشور کے ساتھ جاری ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یو پی اسمبلی انتخابات تک اس طرح کے متنازع موضوعات پر ’میڈیا ٹرائل‘ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کیوں کہ موجودہ حکومت کا ایجنڈا یہی ہے کہ وہ اصل مسائل سے لوگوں کے ذہن بھٹکائے رکھے۔ اب دیکھیے نا! یو پی اسمبلی الیکشن سے پہلے حکومت سے سوال مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ پر کرنے کے بجائے تبدیلی مذہب پر کیا جا رہا ہے۔ یعنی اب ملک میں ’روٹی، کپڑا اور مکان ‘ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ بعد میں جب عدالتیں ان کو بے قصور قرار دے دیتی ہیں تو یہی نام نہاد میڈیا خاموشی کی چادر تان لیتا ہے۔ ’میڈیا ٹرائل‘ کی زد میں جو بھی آتا ہے یقیناً اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملی، سماجی اور فلاحی تنظیموں نے ’میڈیا ٹرائل‘ کی سخت لفظوں میں نہ صرف مذمت کی بلکہ محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر سمیت دیگر کی حمایت میں سامنے بھی آئیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے عمر گوتم کے صاحبزادے عبداللہ عمر کی گزارش پر فیصلہ کیا کہ وہ ان کے مقدمات کی بھر پور پیروی کرے گی۔ وہیں جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر جس طرح عمر گوتم اور دیگر لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور اسے میڈیا جس طرح پیش کر رہا ہے، وہ قابل مذمت اور باعث تشویش ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم نے ایک نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی کا معاملہ سیاست سے وابستہ ہے اور اس معاملہ میں حقیقت کم ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخر بغیر جانچ پوری ہوئے کیوں مسئلے کو اٹھایا جارہا ہے؟ ان لوگوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جارہا ہے جن کا جبری طور پر مذہب تبدیل کرایا گیا؟ انجینئر محمد سلیم نے ’میڈیا ٹرائل‘ کی بھی مذمت کی۔ وہیں جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم ایس آئی او نے تبدیلی مذہب کیس میں گرفتار کیے گئے محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ملک کے میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اے آئی یو ڈی ایف (All India United Democratic Front) کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے عمر گوتم کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا اور میڈیا ٹرائل کی سخت مذمت کی ہے۔ دلی اقلیتی کمیشن کے سابق چئیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان بھی کافی عرصہ پہلے ہی چند مین اسٹریم میڈیا پر سوال اٹھا چکے ہیں۔
آج سے ایک سال قبل اسی طرح تبلیغی جماعت کو چند مین اسٹریم میڈیا نے نشانہ بنایا تھا۔ دلی کے حضرت نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع نے میڈیا کو انتہائی زہریلا بنا دیا تھا، اکیس دنوں کے لاک ڈاؤن کے بعد تبلیغی جماعت کا اجتماع کیا پایا گیا گویا میڈیا کو سونے کا انڈا مل گیا، میڈیا ٹرائل میں مرکز کو کورونا وائرس کا ہاٹ اسپاٹ مان لیا گیا، عجیب وغریب خبریں چلائی جانے لگیں، تبلیغی جماعت کے افراد پر اخلاق سوز الزام لگائے جانے لگے۔ حالانکہ بعد میں تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے، Alt نیوز، دی کوئنٹ جیسے ویب پورٹل نے ان پر سے پردہ اٹھایا اور حقیقت کو واشگاف کیا۔ میڈیا ٹرائل اتنا خطرناک تھا کہ جس کا اثر پورے ملک میں ہوا، مسلمان شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے حالانکہ پہلے بھی مسلمانوں کو بہت اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن میڈیا کی نفرت انگیزی اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے افواہوں کی بنیاد پر مسلمان چور اچکوں سے بھی بدتر نظر آنے لگے، ملک کے شہر، گاؤں، چوراہوں، گلیوں اور سڑکوں پر مسلمانوں کو بے عزت کیا جانے لگا۔ اب جنگ کورونا وائرس کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے لگی، سبزی فروشوں کو اپنی کالونیوں سے بھگایا جانے لگا، مسلمانوں کی دکانوں پر تالا لگایا جانے لگا، گویا مسلمان کو رونا بم لے کر گھوم رہے ہیں۔
میڈیا ٹرائل کی تباہ کاریاں یہیں پر ختم نہیں ہوئیں بلکہ مزید نفرت وعداوت کا پیش خیمہ بنتی گئیں۔ دلی کے علاقہ بوانا میں ٢٢ سالہ محبوب علی کو کورونا وائرس پھیلانے کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ اروناچل پردیش میں ضروری اشیاء لے جاتے ہوئے مسلم ٹرک ڈرائیوروں کو پیٹا گیا، نتیجتاً انہیں اپنے ٹرکس چھوڑ کر آسام فرار ہونا پڑا۔ شمال مغربی دلی میں ایک مسلم سبزی فروش کی دکان کو جبراً بند کرایا گیا جبکہ دیگر سبزی فروشوں سے آدھار کارڈ کا مطالبہ کیا گیا۔ کرناٹک کے باگل کوٹ کے ایک گاؤں میں کچھ مسلم افراد کو تبلیغی جماعت سے منسلک ہونے کی وجہ سے پٹائی کی گئی۔ ہماچل پردیش کے اونا ضلع کے ایک گاؤں میں دلشاد محمد نے صرف اس وجہ سے خود کشی کرلی تھی کیونکہ اس کے گاؤں والے الزام لگا رہے تھے کہ یہ شخص کورونا وائرس کو معاشرے میں پھیلا رہا ہے۔ پنجاب کے ہوشیار پور کا واقعہ تو حیوانیت وبہیمیت پر مبنی ہے جہاں سے 80 افراد پر مشتمل ایک خاندان کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جس کے بعد وہ بیچارے کھلے آسمان کے نیچے بھوکے پیاسے دریا کے کنارے پناہ لینے پر مجبور ہوئے، ان پر بھی تبلیغی جماعت سے جڑے ہونے کا الزام تھا۔ راجستھان کے بھرت پور ضلعی ہسپتال کے عملے نے ایک حاملہ عورت کو شریک کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ اس نے ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دیا جس کے بعد فوری طبی امداد نہ ملنے کے نتیجے میں بچہ فوت ہو گیا، اسپتال انتظامیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اس خاندان کو جماعت سے جڑے ہونے کا خیال کیا تھا۔
میڈیا ٹرائل کی وجہ سے اس قدر نقصانات ہوئے لیکن اس ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں جو اس کی لگام کس سکے۔ بس کبھی کبھی ان کی سرزنش ہو جاتی ہے یا معمولی سا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔حال ہی میں نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی (این بی ایس اے) نے انگریزی نیوز چینل اور دو کنڑا نیوز چینلوں پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھیرانے کی خبر نشر کرنے کی پاداش میں جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس سے پہلے تبلیغی جماعت کے تعلق سے فرضی خبر چلانے پر ’زی نیوز‘ نے معافی مانگی تھی۔ سشانت سنگھ راجپوت خود کشی کیس میں ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کے خلاف بمبئی ہائی کورٹ کے انتہائی سخت تبصرے سامنے آئے تھے، وہیں عمر خالد کی عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے دلی کی ایک عدالت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ دنیش کمار نے میڈیا کو اپنے ضوابط پر عمل کرنے کا مشورہ د یتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حالانکہ پریس اور نیوز میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر وہ اپنی ڈیوٹی ٹھیک طرح سے نہ کریں اور احتیاط نہ برتیں تو ’میڈیا ٹرائل‘ کے نتیجے میں بدگمانی پھیلنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔‘‘ بلکہ دیکھا جائے تو بدگمانی ہی نہیں نفرت کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے۔ قانون کا یہ بنیادی اصول ہے کہ جب تک جرم عدالت میں ثابت نہ ہو جائے ملزم بے قصور تصور کیا جاتا ہے، مگر حالیہ دنوں میں بھارتی میڈیا نے مقدمے کی سنوائی سے قبل ہی ملزم کو مجرم بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فی الحال میڈیا ٹرائل کی زد میں ہمیشہ کی طرح مسلمان ہی ہیں۔ محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر کے بہانے پوری مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کی پھر سازش رچی جارہی ہے۔ ’زی نیوز‘ کے ایک پروگرام’تال ٹھوک کے‘ میں اینکر کشمیر میں ملیٹنٹوں کی طرح آپریشن آل آؤٹ کی بات کرتے ہیں۔ یعنی باضابطہ طور انہیں دہشت گردوں سے تعبیر دی جاتی ہے۔ تقریباً اسی نہج پر اکثر میڈیا نظر آتا ہے یہاں تک کہ جن چینلوں کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ بھی محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر سمیت دیگر کی گرفتاری کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنے سے قاصر رہے ہیں۔ جن میں ’دی للن ٹاپ‘ قابل ذکر ہے۔
محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر سمیت دیگر پر کئی ہزار افراد کو جراً مذہب تبدیل کرانے کا الزام ہے۔ ان لوگوں کا نام آئی ایس آئی سے جوڑا گیا۔ٹیرر فنڈنگ کی بھی بات آئی۔ ان لوگوں پر این ایس اے قانون لگانے کی بھی بات کی گئی۔ صرف پولیس کے بیانات پر میڈیا نے ایسا ہو ہنگامہ مچایا کہ گویا سپریم کورٹ نے ہی فیصلہ سنا دیا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محمد عمر گوتم آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے آئین کی دفعہ 25 کے تحت تبدیلی مذہب کا کام سر انجام دے رہے تھے اور تمام لوازمات ملحوظ خاطر رکھ رہے تھے۔ واضح ہو کہ تبدیلی مذہب کے لیے مقامی کورٹ میں جاکر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کلکٹر کو تیس دنوں کا نوٹس دینا ہوتا ہے۔ ڈی ایم یا تو تبدیلی مذہب کی اجازت دے گا یا پھر مداخلت کر کے مذہب کی تبدیلی کی وجہ جاننے کی کوشش کرے گا اور مطمئن ہونے پر ہی تبدیلی مذہب کی اجازت دے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو اسلام قبول کر چکے ہیں ان میں ایسے کتنوں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے ان قواعد کو نظر انداز کیا؟ بلکہ اس کے برعکس خود نو مسلم افراد جو محمد عمر گوتم کے ہاتھ اسلام قبول کر چکے ہیں میڈیا کے سامنے آ کر اپنا بیان درج کرایا اور کہا کہ ان کے ساتھ کوئی زوروزبردستی نہیں کی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فارن کانٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA) غیر سرکاری تنظیموں کیلئے غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرتا ہے جن میں مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی فنڈز وصول کرنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے رجسٹریشن کا سرکاری سرٹیفکیٹ حاصل کریں۔کوئی تنظیم مذہبی، نسلی، سماجی، لسانی، علاقائی گروپوں، ذاتوں یا برادریوں کے درمیان ہم آہنگی ’’کو منفی انداز میں متاثر کر رہی ہے تو حکومت رجسٹریشن سرٹیفکیٹ ٓکی درخواست یا فنڈز ٹرانسفر کرنے کی پیشگی اجازت کو منسوخ کر سکتی ہے۔ تو اگر محمد عمر گوتم واقعی باہر سے فنڈا کٹھا کر رہے تھے تو پھر ایجنسی کیا کر رہی تھی؟
کشمیر میں بھی بعض سکھ خواتین کی طرف سے اسلام قبول کر کے مقامی مسلم نوجوانوں سے شادیاں کرنے کے تازہ واقعات موضوعِ بحث بنے۔جبکہ خود نومسلم خواتین نے کیمرہ کے سامنے آ کر کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ حالانکہ ایوان صحافت کشمیر میں پریس کانفرنس کے دوران کل جماعتی سکھ کارڈی نیشن کمیٹی نے یہ واضح کیا ہے کہ سکھ برادری دلی اور اتر پردیش کی سیاست کیلئے وادی کو سیاسی میدان میں تبدیل کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہیں دے گی۔ روز نامہ سہارا میں 29 مئی 2021 کو چھپی ایک امریکی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ’’ہندوستان میں مذہبی آزادی کی حالت پھر منفی بتائی گئی ہے۔ یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل رلیجنس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) کی طرف سے جاری سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی حالت کو منفی قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان کو ’کنٹری آف پارٹیکلر کنسرن‘ یعنی ’فکر انگیز حالات والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی گئی ہے‘۔
بھارت میں مذہب کی آزادی (Freedom of religion) انسداد تبدیلی مذہب کے قوانین (anti-conversion laws) ہمیشہ آپس میں ٹکراتے رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاسی فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے جان بوجھ کر ان دنوں میں واضح فرق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنا قابل قبول نہیں مانا تھا، لیکن بعد میں اس نے اپنا فیصلہ بدلتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے کسی مذہب کی قید نہیں ہے۔ وہیں کے ایس پُٹّاسوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی کی شخصی آزادی میں مداخلت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود آر ایس ایس نظریات کے حاملین ملک میں ڈر اور خوف کا ماحول بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔1967 میں سب سے پہلے انسداد تبدیلی مذہب کا قانون منظور کیا گیا۔ فی الحال اروناچل پردیش، اڈیشہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، گجرات،ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، اتر اکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون ہے۔ سپریم کورٹ میں اتر پردیش اور اتر اکھنڈ کے تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ وہیں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی میں مذہب تبدیلی آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں۔ تبدیلی مذہب کے نام پر شر پسند عناصر’لو جہاد‘ جیسے الفاظ وضع کر دیتے ہیں۔ یوں تو’لو جہاد‘ کا لفظ پہلی بار 2009 میں سننے میں آیا تھا لیکن یہ لفظ 2017 میں ملک کی عدالتوں میں بھی موضوع بحث بنا۔ کیرالا ہائی کورٹ نے ہادیہ اور شفیع جہاں کی شادی کو لو جہاد مان کر مسترد کر دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2018 میں اس فیصلے کو غلط ٹھیرایا تھا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے لو جہاد کے نظریے کو بھی پورے طور پر مسترد کر دیا تھا۔ جہاں تک بات بین المذاہب شادیوں کی ہے تو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہونے والی کل مجموعی شادیوں میں صرف دس فیصد شادیاں انٹر کاسٹ ہوتی ہیں جبکہ بین المذاہب شادیاں 2.1 فیصد ہی ہوتی ہیں۔ لیکن زمینی حقیقت سے منہ موڑنے والے لوگ نفرت کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مرکزی حکومت، قومی خواتین کمیشن اور متعدد پولیس تفتیشیں آج تک اس دعوے کی تصدیق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکیں کہ مسلمان مرد ’لوجہاد‘کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت ’لوجہاد‘کے حوالے سے کوئی اعداد وشمار یا اس کی واضح تعریف پیش کرسکی ہے۔
***
تبدیلی مذہب کے نام پر شر پسند عناصر’لو جہاد‘ جیسے الفاظ وضع کر دیتے ہیں۔ یوں تو’لو جہاد‘ کا لفظ پہلی بار 2009 میں سننے میں آیا تھا لیکن یہ لفظ 2017 میں ملک کی عدالتوں میں بھی موضوع بحث بنا۔ کیرالا ہائی کورٹ نے ہادیہ اور شفیع جہاں کی شادی کو لو جہاد مان کر مسترد کر دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2018 میں اس فیصلے کو غلط ٹھیرایا تھا۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے لو جہاد کے نظریے کو بھی پورے طور پر مسترد کر دیا تھا۔ جہاں تک بات بین المذاہب شادیوں کی ہے تو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہونے والی کل مجموعی شادیوں میں صرف دس فیصد شادیاں انٹر کاسٹ ہوتی ہیں جبکہ بین المذاہب شادیاں 2.1 فیصد ہی ہوتی ہیں۔ لیکن زمینی حقیقت سے منہ موڑنے والے لوگ نفرت کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021