’’کیا کسی خاص امتحان میں ہوں؟‘‘
کورونا وائرس سے ساری دنیا ہنوزپریشان ہے، ایسے میں ویکسین کی تیاری کی خوش آئند خبریں مختلف ممالک سے مل رہی ہیں لیکن ویکسین کے نتائج جو منظر عام پر آرہے ہیں، وہ پریشان حال عوام کو مزید پریشان کررہے ہیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ ٹرائل ویکسین ڈوز لگوانے والے ہریانہ کے وزیر داخلہ انیل وج کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آگیا۔ چند دن قبل امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور سوپر پاور ملک سے یہ خبر آئی تھی کہ ملٹی نیشنل کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے کورونا ویکسین کے کلینکل ٹرائل کو فی الحال روک دیا ہے کیوں کہ جن رضاکاروں کو یہ ویکسین دی جا رہی ہے، ان میں سے ایک رضاکار عجیب و غریب مرض میں مبتلا پایا گیا…یہ تو ایک نہ شد دو شد والی بات ہوگئی…
کورونا ویکسین ہی جب کسی کو کورونا میں مبتلا کر دے یا کسی اور عجیب و غریب مرض میں مبتلا کردے تو پھر آدمی یہ کہنے پر مجبور بھی ہوسکتا ہے کہ ”کورونا سے ڈر نہیں لگتا صاحب، ویکسین سے ڈرلگتا ہے“ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو ویکسین کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں اور ہر صورت میں وہ ویکسین لگوانا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں ہندوستانی کرکٹر ہربھجن سنگھ کو،کورونا وائرس کی ویکسین پر تبصرہ کر نا مہنگا پڑگیا…انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا تھا ”ہندوستان میں کورونا ویکسین کے بغیر وائرس سے صحت یابی کی شرح 93.6 فیصد ہے، کیا ہمیں واقعی کورونا کی ویکسین کی ضرورت ہے؟“اس ٹوئٹ پر ہربھجن کو سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک ٹوئٹر صارف نے ہربھجن سنگھ کی ٹوئٹ پر تبصرہ کیا کہ آپ کی ٹوئٹ دیکھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ آپ جیسے لوگوں کو سب سے زیادہ ویکسین کی ضرورت ہے۔کل تک کورونا موضوع بحث بنا ہوا تھااورآج اس کا ویکسین بحث کا موضوع بن گیا ہے۔اسی دوران اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والا نقصان صرف ویکسین کے آنے سے ختم نہیں ہو گا بلکہ اس میں کئی برس یا شاید عشرے لگ جائیں گے۔حالیہ دنوں میں کورونا وائرس پر عالمی ردِ عمل کا جائزہ لینے کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا کہ عالمی وبا سے پیدا ہونے والا نقصان بہت بڑا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چیف نے تمام ملکوں میں ویکسین کی منصفانہ ترسیل پر بھی زور دیاہے۔دوسری جانب ویکسین سے متعلق یہ سوال ہر خاص و عام میں گردش کررہا ہے کہ کیا کورونا ویکسین ان افراد کو بھی دی جائے گی جو صحت مند ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عام آدمی کو اس وقت مزید پریشان کردیتا ہے جب ویکسین سے متعلق منفی رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں۔ان حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے امریکی نومنتخب صدر جوبائیڈن نے ویکسین سے متعلق جو اعلان کیا ہے وہ قابل تعریف اور امریکی عوام کو راحت پہنچانے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی عوام پر کورونا وائرس ویکسین لگوانے کے لیے کوئی دباونہیں ڈالا جائے گا۔ نومنتخب امریکی صدر نے عوام کے خدشات دور کرنے کے لیے سب کے سامنے کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کی خواہش کا بھی اظہار کیاہے۔
کورونا ویکسین کی تیاری سے متعلق یہ سوال بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ آخر ویکسین میں ہوتا کیا ہے؟میڈیا رپورٹس کے مطابق،اس وقت دنیا میں بہت سے کورونا ویکسینز تیار کی جا رہی ہیں جن میں سے کچھ میں اسی وائرس کی کمزور شکل کو استعمال کیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرازنیکا کی تیار کردہ ویکسین میں ایک غیر نقصان دہ وائرس کا استعمال کیا گیا ہے جو سارس کووڈ 2 یعنی کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیارکردہ ویکسینوں میں ایک جنیاتی کوڈ کا استعمال کیا گیا ہے جو انسانی مدافعاتی نظام کے ردعمل کی وجہ بنتا ہے اور انہیں ایم آر این اے ویکسینز کہا جاتا ہے۔یہ ویکیسنیز انسانی خلیوں میں رد و بدل نہیں کرتیں بلکہ یہ صرف انسانی جسم کو کورونا کے وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ویکسین آپ کو بیمار نہیں کرتی بلکہ یہ آپ کے جسم کے مدافعاتی نظام کو اس قدر مضبوط کرتی ہے کہ اگر کوئی مخصوص وائرس جسم میں داخل ہو تو اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ کچھ افراد میں ویکسین لگنے کے بعد معمولی علامات ضرور ظاہر ہوتی ہیں، جیسے پٹھوں میں درد، ہلکا سا بخار وغیرہ… یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن لیکن جب کوئی وزیر ویکسین لگوانے کے بعد کورونا مریض بن جائے یا پھر کوئی رضا کار عجیب و غریب مرض میں مبتلا ہوجائے تو پھر کیسے کوئی ویکسین کو محفوظ سمجھنے کی غلطی کرے گا؟
ویکسین سے متعلق عوام میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے بعداگر حکومت اسے لگوانا لازمی قراردے تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ ویکسین کی تیاری اور اس کے استعمال میں جلدی نہ کی جائے، اسے مختلف مراحل سے گزارا جائے، سو فیصدی مطمئن ہونے کے بعد بھی امریکی نو منتخب صدر کی طرح اعلان کرنا مناسب ہوگا کہ عوام پر کورونا وائرس ویکسین لگوانے کے لیے کوئی دباونہیں ڈالا جائے گا۔یاد رہے کہ یہ اُس ملک کے نو منتخب صدر کا کہنا ہے جہاں کورونا نے بہت زیادہ قہر برپا کیاہوا ہے۔ کورونا اور پھر ویکسین سے متعلق ہلچل پیدا کرنے والی خبریں پڑھ اور سن کرہر عام آدمی کے قلب و ذہن میں یہ سوال ابھرنا لازمی ہے:
’’کیا کسی خاص امتحان میں ہوں؟‘‘
(اداریہ روزنامہ منصف مورخہ ۷/دسمبر۲۰۲۰ء)
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020