زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ملک میں کوویڈ-۱۹ کے سرکاری اعداد وشمار وبائی مرض کے حقیقی پیمانے کو بڑی حد تک کم کر کے دکھائے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وبائی مرض کے دوران ملک میں ہونے والی روزانہ اموات کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی جو دنیا بھر کے ایک روزہ اعداد وشمار میں سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں اندراجات کا نظام انتہائی ناقص ہے اور تو اور بڑے پیمانے پر اس مرض کی تشخیص بھی نہیں ہو پا رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں وبائی مرض سے متاثرین کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ اموات کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے اس کے لیے ورائی اندارج (extrapolation) کی ضرورت ہوتی ہے جو متاثرہ مریض سے حاصل ہوسکتی ہے جو اس کے رشتہ داروں پر منحصر ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے کئی ایک ماہرین کی مشاورت سے بڑے پیمانے پر اینٹی باڈی ٹیسٹ کے نتائج اور اموات کی گنتی کا تجزیہ کیا ہے تاکہ ملک میں ہونے والی تباہی کے حقیقی اعداد وشمار کا اندازہ لگایا جا سکے۔ بیماری کے ان تجزیوں میں سب سے کم درجہ کا تخمینہ سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اعداد وشمار دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والی تباہی سے کہیں زیادہ ہیں۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ لاکھوں اموات کا اندراج ہی نہیں کیا گیا ہے۔
آخر کیوں بھارت نے سرکاری اعداد وشمار کو کم بتایا ہے؟ ۲۴ مئی تک ملک میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۲ کروڑ ۹۸ لاکھ ۴۸ ہزار ۸ سو افراد کوویڈ سے متاثر ہیں وہیں ۳ لاکھ ۷ ہزار ۲ سو ۳۱ لوگوں نے اس وبائی مرض سے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ ایسے ممالک جنہوں نے مرض سے متعلق سخت ترین نگرانی کر رکھی تھی ان کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد سے کہیں زیادہ افراد اس مرض سے متاثر ہیں۔ کئی افراد ایسے بھی ہیں جنہیں یہ مرض لاحق ہو گیا لیکن انہوں نے ٹسٹ نہیں کروایا ان کا اندراج ہی نہیں ہو پایا۔ جمعہ کے روز عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ کوویڈ-۱۹ کی عالمی سطح پر اموات کی تعداد دو تا تین گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ملک میں اعداد وشمار کو کم کرکے بتانے کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ اسپتال مریضوں کو شریک کرنے سے بے بس ہیں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اسپتالوں داخلہ نہیں لے پا رہے ہیں جبکہ اسپتالوں میں بنیادی سہولتیں ہی نہیں ہیں کئی مریض تو اسپتال جانا ہی نہیں چاہتے۔ کیوکو شیوڈا جو ایموری یونیورسٹی میں ماہر وبائی امراض ہیں ان کا کہنا ہے کہ اموات کے اعداد وشمار کم اس لیے بھی ہیں کیوں کہ اسپتال والے مریضوں کو شریک نہیں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے کوویڈ مریضوں کی اموات گھروں میں ہو رہی ہیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ چنانچہ یہ اموات سرکاری گنتی میں شامل نہیں ہورہی ہیں۔ ایسی لیباریٹریز جو موت کی وجہ کی تصدیق کرسکتی ہیں وہ بھی انہی مسائل کا شکار ہیں۔ دوسرے محققین نے بھی یہ بات بتائی ہے کہ کوویڈ کے چند ہی ٹیسٹ کے آلات دستیاب ہوتے ہیں اور سرکاری طور پر محدود ٹیسٹ ہی ہو پاتے ہیں۔ وبائی مرض سے متاثرہ فرد کے خاندان کے لوگ یہ کہنا ہی نہیں چاہتے کہ ان کے مریض کی موت کوویڈ سے ہوئی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں طبی ریکارڈ رکھنے کا نظام سرے سے ہے ہی نہیں اگر ہو بھی تو وہ انتہائی ناقص ہے۔ کوویڈ-۱۹ سے پہلے بھی ملک میں ہونے والی اموات میں ہر پانچ میں سے چار اموات پر کوئی طبی طور پر تحقیقات نہیں کی جاتی تھیں۔ نیویارک ٹائمز کے سروے کے مطابق ایک بہت ہی محتاط اندازہ یہ ہے کہ کوویڈ متاثرین کی تعداد سرکاری اعداد وشمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ تعداد اصل تعداد سے ۱۵ گنا زیادہ ہو تو ۴۰۴ اعشاریہ ۲ ملین تک ہو سکتی ہے جبکہ اموات کی تعداد ۶ لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ ۲۴ مئی تک وبائی مرض سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۲۶ اعشاریہ ۹ ملین اور مرنے والوں کی تعداد ۳ لاکھ تھی۔ موجودہ شرح اموات کا فیصد صفر اشاریہ ۱۵ فیصد ہے اور اگر ۲ گنا کر لیا جائے تو یہ ۶ لاکھ ہو جاتے ہیں۔ ملک میں کوویڈ سے متاثرہ مریضوں اور اس سے ہونے والی اموات سے متعلق قابل قدرقیاس تخمینے تک پہنچنے کے لیے ہم نے ملک بھر میں تین اینٹی باڈی ٹیسٹوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا ہے جسے سیروسروے کہا جاتا ہے۔ ہرسیروسروے میں آبادی کے ایک ذیلی سیٹ کا جو تقریباً ۳۰ ہزار افراد پر مشتمل ہوتا ہے کوویڈ-۱۹ اینٹی باڈی ٹیسٹ کیا گیا ان کے خون کے معائنوں سے پتہ چلا ہے کہ ان کے خون میں اینٹی باڈیز پائے گئے ہیں۔ انہی اعداد وشمار کو سامنے رکھ کر ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ آبادی میں کس قدر یہ مرض پھیلا ہوا ہے اسی سروے کو سیروپری ویلینس کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے اینٹی باڈی ٹیسٹ کرنے سے متاثرین کا اور اموات کا ریکارڈ رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ آسان اس وجہ سے کہ کوویڈ-۱۹ سے متاثرہ تقریباً ہر شخص کے اندر اس سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز تیار ہو جاتے ہیں۔ اس سروے سے متاثرین کی شناخت کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور اعداد وشمار کا اندازہ صحیح لگایا جا سکتا ہے۔ ییل اسکول آف پبلک ہیلتھ کےماہر وبائی امراض ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈین وینبرگر نے کہا کہ ’’یہاں تک کہ وسیع پیمانے پر ہونے والے سیروسروے کی بھی اپنی حدود ہیں۔ بھارت جیسے کثیر اور متنوع آبادی والے ملک میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ کوئی بھی سیروسروے پوری طرح نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر وینبرگر نے کہا ’’اس کے باوجود سروے سے متاثرین اور اموات کا حقیقت پسندانہ تخمینہ لگایا جا سکتا ہے، تخمینہ لگانے کا یہ ایک جدید طریقہ ہے، یہ ہمیں ایک نقطہ آغاز فراہم کرتا ہے مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی کوشش سے تخمینہ لگانے کا صحیح اندازہ فراہم ہو سکتا ہے۔‘‘ مریضوں کی تعداد کا انتہائی محتاط اندازہ بھی سرکاری اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارا پہلا اندازہ بھی مریضوں کے سرکاری اعداد وشمار سے ۱۵ گنا زیادہ ہے۔ سرکاری رپورٹوں میں وبائی مرض سے متاثرین کی تعداد ہمارے تخمینے سے ۱۵ گنا کم لکھی گئی ہے۔ اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح انفیکشن فیٹالیٹی ریٹ آئی ایف آر صفر اعشاریہ ۱۵ فیصد ہے۔ یہ دو تخمینے یعنی ۱۵ گنا اور صفر اشاریہ ۱۵ فیصد ہمارے محتاط اندازے ہیں جو ہم نے ماہرین سے جمع کیے ہیں۔ اس حساب سے ہلاکتوں کی تعداد تقریباً دو گنا ہو جاتی ہے اگر آج تک کے اعداد وشمار کو گنتی میں لیا جائے۔ فرض کیجیے کہ متاثرین کی تعداد اصل تعداد سے ۲۰ گنا زیادہ ہو تو یہ تعداد ۵۳۹ ملین ہو گی کیوں کہ ۲۴ مئی کو مریضوں کی تعداد ۲۷ ملین ہو چکی تھی تو اسی اندازے کے مطابق مریضوں کے مرنے کی تعداد بھی بڑھ کر ایک اعشاریہ ۶ ملین ہو جائے گی۔ ۲۴ مئی کو یہ تعداد ۳ لاکھ تک پہنچ چکی تھی موجودہ مریضوں کے مرنے کی تعداد کو اگر ۵ اعشاریہ ۳ فیصد سے ضرب دیا جائے تو یہ تعداد ۱ اعشاریہ ۶ ملین ہو جاتی ہے۔
ملک میں قومی سطح پر ہونے والے تازہ ترین سیروپریولنس مطالعہ سے جو موجودہ لہر سے پہلے جنوری میں اختتام پزیر ہوا اس کے مطابق ہر ۲۶ متاثرین میں سے ایک کے مرنے کی رپورٹ درج کی گئی ہے جو حقیقت میں بہت کم ہے یعنی اموات کی شرح اعشاریہ ۳ فیصد ہی درج کی گئی ہے۔ جب کہ بھارت میں مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد وشمار سے تقریباً ۵ گنا زیادہ ہے۔ ڈاکٹر رامانن لکشمی نارائن جو سنٹر برائے علم الحرکت برائے امراض اور معاشیات وپالیسی کے ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ ’’بیشتر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی وبائی مرض سے متاثرین اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد کو کم بتایا گیا ہے۔ ممکنہ صحیح اعداد وشمار تک پہنچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کو ایک جگہ جمع کر کے اس کا تخمینہ لگایا جائے جو میرے اندازے کے مطابق لگ بھگ پانچ سو سے چار سو ملین تک ہو سکتا ہے‘‘۔اس بات کا قوی امکان ہے اور یہی حقیقت کہ قریب تر صورت حال بھی ہو گی کہ اگر متاثرین کی تعداد اصل تعداد سے ۲۶ گنا زیادہ ہو تو یہ تعداد ۷ سو ملین سے زیادہ ہو گی کیوں کہ ۲۴ مئی کو مریضوں کی تعداد ۲۷ ملین ہو چکی تھی لہٰذا اسی اندازے کے مطابق مریضوں کے مرنے کی تعداد بھی بڑھ کر ۴ اعشاریہ ۲ ملین ہو جائے گی جبکہ ۲۴ مئی کو یہ تعداد ۳ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ موجودہ مریضوں کے مرنے کی تعداد کو اگر ۱۳ اعشاریہ ۷ فیصد سے ضرب دیا جائے تو یہ تعداد ۴ اعشاریہ ۲ ملین ہو جاتی ہے۔ لیکن صورت حال حقیقی منظرنامہ سے کچھ زیادہ ہو گی۔ یہ صورت حال رپورٹ ہونے والے متاثرین کا تھوڑا سا زیادہ تخمینہ کرتی ہے اور اسی تناسب سے اموات کی شرح بھی زیادہ ہو گی یعنی اعشاریہ ۶ فیصد جو پہلے والی صورت حال سے دو گنا ہے۔ موجودہ لہر نے ملک کے شعبہ صحت کے نظام کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، اسپتالوں میں بستروں کی عدم دستیابی آکسیجن کی عدم فراہمی بنیادی طبی سہولیات کے فقدان نے اموات کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس زبردست دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا گیا تخمینہ بعید از قیاس نہیں ہے۔
ہم نے کس طرح تخمینہ کا اندازہ لگایا؟
اب تک بھارت نے کوویڈ-۱۹ وبائی مرض کے دوران تین مرتبہ قومی سیروسروے کرایا ہے۔ تینوں ہی سرویز سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرین کی اصل تعداد مصدقہ کیسوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
بھارت میں ہونے والے تین قومی سیروسروے کے نتائج:
نوٹ : سیرو سروے میں اصل اعداد وشمار کا تخمینہ مجموعی متاثرین کی جملہ تعداد کو جمع کر کے کیا گیا ہے اور اس طرح متاثرین کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
جب بھی ایک سروے کے نتائج جاری کیے گئے تھے اس وقت وبائی مرض کے پھیلاؤ کا تناسب کم از کم ۱۳ اعشاریہ ۵ فیصد اور زیادہ سے زیادہ ۲۸ اعشاریہ ۵ فیصد کا رہا۔ آخری سیروسروے مکمل ہونے کے بعد تعداد میں کمی یا زیادتی واقع ہوسکتی ہے لیکن اگر تعداد یوں ہی برقرار رہتی ہے تو اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کی تقریباً نصف آبادی کو وبائی مرض نے متاثر کیا ہو گا۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021