کوویڈ 19: ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کے لیے امریکا چین سے ہرجانے کا مطالبہ کرسکتا ہے
واشنگٹن، اپریل 28: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ امریکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر چین سے ہرجانے کا مطالبہ کرسکتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ووہان کے ایک جنگلی حیات کی منڈی میں شروع سے پھیلا ہے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کورونا وائرس ٹاسک فورس بریفنگ میں کہا ’’ہم چین سے خوش نہیں ہیں۔ ہم اس ساری صورت حال سے خوش نہیں ہیں، کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ اسے اس کے مرکز پر ہی روکا جا سکتا تھا۔‘‘ امریکی صدر نے کہا کہ چین کو جواب دہ رکھنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی حکومت اب کچھ ’’انتہائی سنجیدہ تحقیقات‘‘ کر رہی ہے۔
ٹرمپ نے اس رپورٹ کے بارے میں ایک سوال کا جواب بھی دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ جرمنی نے چین سے 165 بلین ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا امریکا بھی ایسا ہی کرے گا، ٹرمپ نے کہا ’’امریکا اس سے کہیں زیادہ نقصانات کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ’’جرمنی جس رقم کی بات کر رہا ہے، ہم اس سے کہیں زیادہ رقم کی بات کر رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک حتمی رقم کا تعین نہیں کیا ہے۔ یہ بہت ٹھوس ہے۔ یہ دنیا بھر کا نقصان ہے۔ یہ امریکا کا نقصان ہے، لیکن یہ دنیا کو پہنچنے والا نقصان بھی ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے ریوٹرز کے مطابق جرمنی کی وزارت داخلہ نے بھی اس ماہ کے شروع میں یہ الزام لگایا تھا کہ چینی سفارت کاروں نے جرمن حکومتی عہدیداروں سے را بطہ کیا تاکہ وہ انھیں ایسے مثبت بیانات دینے کی ترغیب دیں کہ بیجنگ اس وبائی بیماری کو کس طرح سنبھال رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے خط کے مطابق ’’وفاقی حکومت نے ان درخواستوں کی تعمیل نہیں کی ہے۔‘‘
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکا میں دنیا میں سب سے زیادہ کوڈ 19 واقعات ہیں – 9،88،000 سے زیادہ۔ اس میں 56،000 سے زیادہ اموات بھی ریکارڈ کی گئیں، جو عالمی سطح پر اموات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکا نے اس بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے کہ آیا کورونا وائرس کی ابتدا ووہان میں ایک اعلی سیکیورٹی لیب میں ہوئی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں لیبارٹری کے ڈائریکٹر نے اس وبا کے پھیلاؤ کا ان سے کسی بھی تعلق سے انکار کیا تھا۔ ٹرمپ نے بار بار اس وبائی امراض کو سنبھالنے میں چین کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس پر اعداد و شمار کو بھی چھپانے کا الزم عائد کیا ہے۔
حالاں کہ چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔