کورونا وائرس: عالمی بینک نے ہندوستان کے لیے 1 بلین ڈالر کی ہنگامی مالی امداد کی منظوری دی
نئی دہلی، اپریل 3: عالمی بینک نے جمعرات کے روز ہندوستان کو کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے 1 بلین ڈالر (تقریباً 7،600 کروڑ روپیے) کی ہنگامی مالی امداد کی منظوری دی۔ اس وبائی مرض نے اب تک ملک میں 53 افراد کی جانیں لی ہیں اور 2،000 سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر تصدیق شدہ معاملات 1 ملین کا ہندسہ عبور کرچکے ہیں۔
عالمی بینک نے 25 ممالک کے لیے مجموعی طور پر 1.9 بلین ڈالر کی منظوری دی ہے۔ جس میں سے ہندوستان کو سب سے بڑا حصہ ملا ہے، پاکستان کے لیے 200 ملین جب کہ سری لنکا کے لیے 129 ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔
عالمی بینک نے اپنے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز بورڈ کے ذریعے ہنگامی فنڈ کے پہلے سیٹ کی منظوری کے بعد کہا ’’ہندوستان میں 1 بلین امریکی ڈالر کی ہنگامی مالی امداد سے بہتر اسکریننگ، رابطوں کا پتا لگانے ذاتی حفاظتی سامان کی خریداری، نئے قرنطینہ وارڈ قائم کرنے اور لیبارٹری کی توسیع میں مدد ملے گی۔‘‘
عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپس نے کہا کہ بینک اگلے 15 ماہ کے دوران 160 بلین ڈالر تک کی امداد فراہم کرسکتا ہے۔
یہ امداد ان خبر کے ایک دن بعد ہی سامنے آئی ہے جب عالمی بینک نے انتباہ دیا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل کے ساتھ ساتھ چین کی ترقی پذیر معیشتوں میں تیزی سے سست رفتاری متوقع ہے۔ بینک نے مزید کہا تھا کہ اس بیماری سے لاکھوں افراد غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ اس نے خطے کے ممالک پر زور دیا کہ وہ صحت کی دیکھ بھال کی صلاحیت میں سرمایہ کاری کریں۔ عالمی بینک نے کہا تھا کہ ’’وبائی مرض سے صحت یاب ہونے کا موقع ملے گا، لیکن پائیدار مالی دباؤ کا خطرہ 2020 سے بھی زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار وہ ممالک ہیں جو تجارت، سیاحت اور اجناس پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جو بہت زیادہ مقروض ہیں اور وہ جو مستحکم مالی بہاؤ پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
بینک نے کہا کہ اس کے وسیع تر معاشی پروگرام کا مقصد جلد صحت یابی اور غریبوں اور کمزوروں کی حفاظت میں مدد کرنا ہے۔ میلپس نے کہا ، "ورلڈ بینک گروپ کوویڈ۔19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تیز رفتار اقدام اٹھا رہا ہے اور ہمارے پاس پہلے ہی 65 سے زائد ممالک میں صحت کے عمل آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم اس وبائی مرض کا جواب دینے اور معاشی اور معاشرتی بحالی کو جلد از جلد ممکن بنانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت کو مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ غریب ترین اور انتہائی کمزور ممالک ممکنہ طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اور پوری دنیا میں ہماری ٹیمیں موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے ملکی اور علاقائی سطح پر اس کا حل تلاشنے مصروف ہیں۔‘‘