کرپشن کا ناسور ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

گھوٹالے در گھوٹالے: مودی ماڈل کے کھوکھلے دعوے بے نقاب

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کرپشن کی گنگا، سر پنچوں، وزیروں اور افسروں کے قدموں میں
ملک میں بدعنوانی اور گھوٹالوں کا کینسر ترقیاتی منصوبوں اور وعدوں کو کھا رہا ہے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جو امکانات سے پُر ہے، لیکن طویل عرصے سے بدعنوانی کے خطرناک مرض سے نبرد آزما ہے۔ جیسے دیمک کسی عالیشان عمارت کو کھا جاتی ہے، ویسے ہی گھوٹالے ہمارے ملک کی ترقی کو کھا رہے ہیں۔ ترقی کو چند لوگوں نے اپنی لالچی خباثت کی وجہ سے یرغمال بنا لیا ہے۔
ملک کے شہریوں کے ساتھ یہ بد عہدی اور بے ایمانی بہت دور تک اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ہماری معیشت پر پڑتا ہے بلکہ تجارت کے گلیاروں تک کرپشن کی بدبو ہمارے سماج کے مختلف طبقوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہم آنے والی نسل کے لیے تابناک مستقبل کی کوشش کرتے ہیں لیکن کرپشن ہماری اجتماعی خواہشات پر بوجھ بن گیا ہے۔
شہریوں کا ایک بڑا طبقہ خطِ افلاس سے نیچے جھونپڑ پٹیوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے، وہ روزانہ مختلف طرح کی مصیبتوں کو جھیلتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں، ان کے جائز حقوق تک انہیں حاصل نہیں ہوتے۔
بھارتی معیشت پر گھوٹالوں کا اثر ہمہ جہتی اور تباہ کن ہے۔ یہ گھوٹالے گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متزلزل کر دیتے ہیں۔ اس سے دنیا میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ نتیجتاً، وسائل (ریونیو) کے بہتر استعمال میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور کروڑوں لوگ غربت کے گھن چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ سماج کے سب سے کمزور، غریب اور حاشیے پر موجود لوگ اس معاشی تباہی کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔
کرپشن کے خلاف مایوسی اور ناامیدی کا احساس سماج پر چھا جاتا ہے۔ لوگوں کا نظام اور حکم رانوں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں سماجی بگاڑ اور بدامنی جنم لیتی ہے۔
ہمیں قومی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے کرپشن اور گھوٹالوں کی اس گندگی کو دور کرنا ہوگا اور اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ آزاد بھارت کی تاریخ ایسے ہی گھوٹالوں سے اَٹی پڑی ہے، جنہوں نے نہ صرف سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ ہماری اجتماعی ضمیر پر بد نما داغ بھی ثبت کیا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال 2012 کا کوئلہ گھوٹالہ ہے جس میں نجی کمپنیوں کو مبینہ طور پر ایک شفاف اور مسابقتی عمل کے بغیر کوئلہ بلاک الاٹ کیے گئے۔ کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (CAG) نے اپنی رپورٹ میں 1,86,000 کروڑ روپے کے ممکنہ نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
ایک اور گھوٹالہ جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، وہ تھا 2G اسپیکٹرم اسکیم، جو 2010 میں سامنے آیا۔ اس گھوٹالے میں 2G اسپیکٹرم کے حقوق مبینہ طور پر کم قیمت پر الاٹ کیے گئے تھے۔ نتیجہ میں اس وقت کے وزیر مواصلات، اے راجہ کو استعفیٰ دینا پڑا اور اس سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کے پالیسی اداروں میں ہلچل مچ گئی، جس نے حکومت کی بنیادوں کو ہلا دیا۔
اسی طرح بہار کا چارہ گھوٹالہ اور مدھیہ پردیش کے وہ متعدد گھوٹالے جن میں 2500 سے زائد لوگ گرفتار ہوئے جن میں 56 افراد کی اموات ہوئیں۔ اس میں اکشے سنگھ جیسے صحافی کو بھی پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا۔
وجے مالیا بینک گھوٹالہ ایک اور مثال ہے، جس میں کنگ فشر کے مالک نے نو ہزار کروڑ روپے کا قرض بینکوں سے لے کر ملک سے فرار اختیار کی۔ اسی فہرست میں میہول چوکسی اور نیرو مودی بھی شامل ہیں، جنہوں نے مجموعی طور پر تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالے کیے اور ملک سے فرار ہوگئے۔
حکومت کی ملی بھگت سے ملک کے دولت مند سیٹھوں اور صنعت کاروں کا بینکوں سے 25 لاکھ کروڑ روپے کا قرض معاف کر دیا گیا، کیونکہ حکم راں جماعت کو ان ہی کمپنیوں سے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے ہزاروں کروڑ روپے کا چندہ ملا تھا۔
ایسے چھوٹے بڑے گھوٹالوں کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔ ان چالاکیوں اور عیاریوں سے نکالی گئی رقم قومی خزانے میں جانے کے بجائے صنعت کاروں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔ وہی رقم جو صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں لگنی چاہیے تھی، وہ چند زر پرست افراد کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ نتیجتاً امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے، اور یہ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
یوں معاشی تنزلی اور غربت کا بدبو دار چکر جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ، گھوٹالے ایک غیر یقینی اور خطرناک ماحول پیدا کرتے ہیں، جس سے گھریلو اور غیر ملکی، دونوں طرح کی سرمایہ کاری میں کمی آ جاتی ہے۔ نتیجتاً روزگار کی فراہمی اور معاشی ترقی رک جاتی ہے۔
ملک میں ہر طرف کرپشن اور گھوٹالوں کا دور دورہ ہے۔ کوئی ریاست یا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس مرض کے جراثیم سے پاک ہو۔ حالیہ دنوں میں مودی کے ماڈل گجرات میں منریگا کے اکہتر کروڑ روپے اڑا لیے گئے۔ اس ضمن میں پولیس نے ضلع داہود کے موجودہ تعلقہ وکاس ادھیکاری (YDO) درشن پٹیل کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس طرح گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد 7 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، دیوگڑھ انتخابی حلقہ کے بچو بھائی کھابڑ، جو کرشی راجیہ منتری ہیں، ان کی ایجنسی بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے لیے 35 ایجنسیوں کے مالکان نے فرضی سرٹیفکیٹس اور دیگر جعلی ثبوتوں کے سہارے 2021 سے 2024 کے درمیان اکہتر کروڑ روپے کی ہیرا پھیری کی۔ اس معاملے میں منتری کے بیٹے اور ایک افسر کی گرفتاری نے اسے مزید بڑا بنا دیا ہے۔ شکایت میں بتایا گیا ہے کہ دھانپور اور دیوگڑھ بالیا تحصیل میں سڑک بنانے کے کام میں الگ الگ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ صرف کاغذ پر سب کچھ دکھا کر پوری رقم وصول کر لی گئی۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے پانچ دنوں کا ریمانڈ لیا ہے تاکہ اس نیٹ ورک میں ہونے والے گھوٹالے کی سچائی تک پہنچا جا سکے۔ اس معاملے میں بلونت کھابڑ کے بھائی کی تلاش بھی جاری ہے۔
حزبِ اختلاف کے کانگریس رہنما امیت چاوڑہ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو ’’آپریشن گنگا جل‘‘ کی شروعات اپنے وزیروں سے کرنی چاہیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اگر غیر جانب دارانہ جانچ ہوئی تو گھوٹالے میں صرف 71 کروڑ نہیں، بلکہ 100 کروڑ سے بھی زیادہ کی رقم سامنے آ سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی حکومت ملزمین پر سخت کارروائی کرتی ہے یا نہیں۔ مگر مرکزی بی جے پی قیادت نے کرپشن میں ملوث اکثر ملزمین کو سزا دلوانے کے بجائے ’بھگوا واشنگ مشین‘ سے دھو کر بڑے بڑے گھوٹالوں میں ملوث لوگوں کو اونچے عہدوں پر بٹھایا، یہاں تک کہ بعض کو وزارتِ اعلیٰ تک سونپ دیا گیا۔
عجب ایم پی کا غضب گھوٹالہ:
سانپ سے کٹوا کر 11 کروڑ 26 لاکھ روپے مدھیہ پردیش کے خزانے سے گھوٹالہ بازوں نے اڑا لیے۔ یہ معاملہ 2019 سے 2022 کے درمیان کا ہے۔ کمل ناتھ سے شیو راج سرکار تک یہ گھوٹالہ ہوتا رہا۔ سچن نائک نامی شخص کو جانچ کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس میں 37 مزید لوگ تھے جن میں سے 21 کی گرفتاری ہو چکی ہے۔ جانچ افسر روہت کوشل سنگھ کے مطابق، سیونی کے کیولاری تحصیل میں قدرتی آفات کے تحت دی جانے والی راحت رقم میں 11 کروڑ 26 لاکھ روپے کا غبن ہوا۔ 47 لوگوں کے کھاتوں میں یہ رقم منتقل کی گئی۔ ’دوارکا بائی‘ کے نام پر سانپ کے کاٹنے کے سبب 29 بار رقم دی گئی۔ ’شری رام‘ کے نام سے 28 بار سانپ کٹوا کر راحت کی رقم نکالی گئی۔ اس میں فرضی تاریخوں اور جعلی کاغذات کے ذریعے یہ رقم نکالی گئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ایم پی عجب ہے، سب سے غضب ہے‘‘۔ اس میں ایک ایس ڈی ایم، تحصیل دار سمیت 46 ملازمین و دیگر افراد کو ملزم بنایا گیا ہے۔
دوسری طرف، مدھیہ پردیش میں پنچ اور سرپنچ نے مل کر انتخاب لڑنے کے لیے 26 لاکھ روپے کا قرض لیا۔ کرود پنچایت میں خواتین کے لیے ریزرو سیٹ ہے۔ انتخابات کے بعد دبنگوں نے کرود پنچایت پر قبضہ کر لیا۔ کرود پنچایت کا الیکشن لڑنے کے لیے لکشمی بائی نے ہیم راج سنگھ سے بیس لاکھ روپے ادھار لیا تھا۔ ایسے حالات میں پنچایتی راج کے ذریعے ترقی کی گنگا کیسے بہے گی؟
اسی طرح آج سے سات سال قبل گورکھ پور کے بی آر ڈی ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی بند ہونے پر 30 بچوں کی موت ہو گئی۔ مگر دیگر ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق 80 بچوں کی موت واقع ہوئی۔ آکسیجن سلنڈر کے سپلائر نے ڈی ایم اور پرنسپل کو خط لکھ کر اطلاع دی تھی کہ اگر میرا بقایا ادا نہ کیا گیا تو ہم آکسیجن کی فراہمی بند کر دیں گے، کیونکہ سپلائر کا دعویٰ تھا کہ کالج پر ساٹھ لاکھ روپے بقایا ہیں، جب کہ اصل میں یہ رقم دس لاکھ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ افسر شاہی اور گھوٹالہ باز مل کر انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دہلی، تلنگانہ وغیرہ میں گھوٹالوں کے سبب حکومتیں تک بدل گئیں۔ وزرا کو کئی ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔
بدعنوانی اور غفلت کی یہ مثالیں صرف سرکاری محکموں تک محدود نہیں بلکہ برآمدی تجارت جیسے حساس شعبے میں بھی اسی طرح کی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔اکنامک ٹائمز کے مطابق آموں کے جلد خراب ہونے اور انہیں واپس بھیجنے کے بھاری اخراجات کے سبب تمام ایکسپورٹروں نے فیصلہ کیا کہ آموں کو امریکہ ہی میں ضائع کر دیا جائے۔ تقریباً چار کروڑ روپے مالیت کے آم تابکاری (Radiation) کی سطح زیادہ ہونے کی وجہ سے محفوظ تو رہے مگر قابلِ استعمال نہیں رہے۔ دو ایکسپورٹروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ریڈیئیشن کے عمل میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے میں ایک عادلانہ نظام پیش کرتا ہے اور لوگوں کو حکم دیتا ہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِل (سورۃ البقرہ: 188) "اپنے مال آپس میں ناحق طریقوں سے مت کھاؤ۔”
اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
"رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہے۔”
لوگ رشوت اور کرپشن کے ذریعے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہاں تک فرمایا:
"حرام مال سے پلے ہوئے جسم کی عبادت اللہ قبول نہیں کرتا اور وہ جہنم میں جلنے کے قابل ہے۔”
جب لوگ رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے دوسروں کے حقوق پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف سماجی انصاف کو پامال کرتے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال بظاہر وقتی فائدہ دے سکتا ہے مگر اس کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہر مہذب معاشرہ اور تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ ظلم، فریب اور دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا سنگین جرم ہے۔ ایسی کمائی انسان کے کردار کو گھن لگا دیتی ہے اور اس کے اعمال کی قدر و قیمت کو مٹا دیتی ہے، کیونکہ جو رزق ظلم و بے انصافی سے حاصل ہو وہ کسی بھی معاشرتی و اخلاقی مقصد کے لیے ہلاکت خیز ہے۔

 

***

 جب لوگ رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے دوسروں کے حقوق پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف سماجی انصاف کو پامال کرتے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کیا گیا مال بظاہر وقتی فائدہ دے سکتا ہے مگر اس کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہر مہذب معاشرہ اور تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ ظلم، فریب اور دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا سنگین جرم ہے۔ ایسی کمائی انسان کے کردار کو گھن لگا دیتی ہے اور اس کے اعمال کی قدر و قیمت کو مٹا دیتی ہے، کیونکہ جو رزق ظلم و بے انصافی سے حاصل ہو، وہ کسی بھی معاشرتی یا اخلاقی مقصد کے لیے ہلاک خیز ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025