جنوبی ہند (دعوت نیوزڈیسک)
پابندی سے معیشت پر برے اثرات کا اندیشہ۔آرڈیننس کے کئی نکات مضحکہ خیز
کرناٹک اسمبلی میں انسداد گئوکشی بل کو پاس کرنے کے بعد لیجسلیٹیو کونسل میں پیش نہ کر کے حکومت نے آرڈیننس کے راستے سے اس کو قانون کی شکل دی ہے۔ ریاستی گورنر واجو بھائی والا نے اس آرڈیننس پر دستخط کے ذریعے اسے منظور کر دیا۔ آرڈیننس کے تحت اب ریاست میں مویشیوں کے ذبیحہ پر سخت سزا کی تجویز ہے۔ اب مویشی ذبح کرنے پر 3 سے 7 سال تک کی سزائے قید اور 3 سے 5 لاکھ روپوں تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ دوبارہ جانوروں کا ذبیحہ کرنے والوں پر 7 سال کی سزائے قید اور 1 سے 10 لاکھ روپوں تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ مویشیوں کے زمرے میں گائے، بچھڑا، بیل اور 13 سال سے کم عمر کے نر اور مادہ بھینسیں شامل ہیں۔ بیف کی تشریح انہی مذکورہ مویشیوں کے گوشت کے طور پر کی گئی ہے۔ مویشیوں کے ذبیحہ کی اجازت صرف اسی صورت میں دی گئی ہے جب کہ جانور بہت زیادہ بیمار ہو یا متعدی بیماری میں مبتلا ہو۔ 13 سال سے زیادہ عمر کی بھینس کو ذبح کرنے کی اجازت متعلقہ حکام کی طرف سے سند ملنے کی شرط کے ساتھ دی گئی ہے۔اس آرڈیننس میں کئی ایک مضحکہ خیز پہلو ہیں جیسے بھینس کا ذبیحہ غیر قانونی مگر 13 سال سے زائد عمر والی بھینس کی اجازت ہے بایں طور بیف پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعہ لوگوں اپنی پسند کی چیز کھانے کے دستوری حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی اس قانون کے نفاذ میں حکومت کی مدد کرنے والوں کی حفاظت کی جو ضمانت دی گئی ہے وہ بھی تشویشناک امر ہے۔ اس میں خدشہ ہے کہ فرقہ پرست جانور لے جانے کے نام پر ماضی میں دیگر ریاستوں میں جس قسم کی حرکتیں کر چکے ہیں وہ اب کرناٹک میں دہرائی جاسکتی ہیں کیونکہ انہیں اب قانونی جواز مل گیا ہے۔ نئے آرڈیننس کی رو سے ذبیحہ روکنے میں تعاون کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہو گی بلکہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس طرح پولیس افسر کو اختیار دیا ہے گیا ہے کہ وہ مشتبہ مقامات کی تلاشی لے سکتا ہے۔ اس سے بھی لوگ خدشہ محسوس کر رہے ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے پولیس اب بیف رکھنے کو ہی بنیاد بنا سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس قانون میں پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو جرمانہ عائد کر کے معاملہ ختم کر ے یا مقدمہ درج کر کے کارروائی کرے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو ریاست میں رشوت ستانی کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔ چونکہ ریاست میں 1964 کے قانون کے مطابق گائے کے ذبیحے پر پابندی ہے لیکن مقامی انتظامیہ یا پولیس سے قصائیوں کے اندرونی لین دین سے معاملہ پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ اب چونکہ ملک میں عدم برداشت کے ماحول نے عمومی شکل اختیار کی ہے تو فرقہ پرست عناصر اب اسے سختی سے نافذ کرنے کے لئے مشتبہ معاملات کو ہوا دیتے رہیں گے۔ یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس نئے قانون کی وجہ سے کسانوں کی پہلے ہی سے بدحال معیشت اور برباد ہو جائے گی کیونکہ انہیں ایسے جانوروں کو فروخت کرنے کا اختیار نہیں ہو گا جو دودھ دینا بند کریتے ہیں۔ اس قانون سے جہاں چمڑے کی صنعت متاثر ہو گی وہیں بے روزگار ی کے تناسب میں بھی اضافہ ہوگا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے صرف آر ایس ایس لابی کو خوش کرنے کے لئے جمہوری نظام کا قتل کیا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ بیف کے ایکسپورٹ پر پابندی نہیں، کھانے اور فروخت کرنے پر پابندی نہیں لیکن صرف ذبیحہ پر پابندی عائد کر کے حکومت نے نہ صرف عوام کو دھوکہ دیا ہے بلکہ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ خفیہ ذرائع سے یہ بھی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ بیف کی درآمدات کی کمی دور کرنے کے لئے ملک کی مختلف ریاستوں میں ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اگرچہ ریاست میں مسلمان گوشت کے کاروبار سے منسلک ہیں مگر گائیں فروخت کرنے والوں میں ہندوؤں کی دوسری ذات کے لوگ زیادہ ہیں۔ دلت، اور ہندوؤں میں گوڑا اور کچھ مقامات پر دوسری اور ذات کے لوگ بھی بیف کھاتے ہیں۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے سینئر لیڈر سدا رامیا نے آرڈیننس نافذ ہونے سے پہلے بالکل دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’مجھے بیف پسند ہے اور میں اسے کھاؤں گا‘ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے بیان پر کس حد تک قائم رہتے ہیں کیونکہ بی جے پی اور اس کے ورکروں سے انہوں نے کہا تھا ’’جسے جو کھانا پسند ہے وہ ملک کے آئین کے مطابق کھانے کا حق رکھتا ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا ۔ اب اس قانون کے نفاذ میں سختی لانے کی بات کہی جا رہی ہے۔
اس دوران اب تک اس قانون کی مخالفت کرنے والی مسلم اور دلت تنظیموں نے حکومت کی طرف سے آرڈیننس کی شکل میں اسے نافذ کرنے کی کوشش کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرناٹک جمعیت القریش بیف مرچنٹس اسوسی ایشن نے ریاست کے سابق ایڈووکیٹ جنرل روی ورما کمار سے عدالت میں اس معاملے کی پیروی کرنے کی گزارش کی ہے جس کیلئے انہوں نے رضا مندی بھی ظاہر کر دی ہے۔ دوسری طرف اس آرڈیننس کے خلاف ہائی کورٹ میں داخل مفاد عامہ کی درخواست کو ہنگامی بنیادوں پر سماعت کے لیے عدالت نے منظور کر لیا ہے۔ مگر اس وقت عدالتی نظام کا جو رجحان ہے اسے دیکھتے ہوئے اس پی آئی ایل سے زیادہ امیدیں وابستہ رکھنے کی گنجائش بہت ہی کم دکھائی دے رہی ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021