ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر افطار سے ٹھیک پہلے پولیس کی 40 رکنی ٹیم نے دستک دی، پیر کو تفتیش کے لیے آفس بلایا

نئی دہلی، 6 مئی: دہلی پولیس اسپیشل سیل کی 40 رکنی ٹیم آج افطار کے اوقات سے ٹھیک آدھے گھنٹے پہلے دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر جا پہنچی۔

ان کے کنبہ کے افراد نے بتایا کہ متعدد افراد مبینہ طور پر ڈاکٹر خان کو حراست میں لینے آئے ہیں۔ ان کے کنبہ کے افراد نے بتایا کہ انھوں نے ڈاکٹر خان سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ چلیں کیونکہ ان کے خلاف درج بغاوت کے معاملے میں وہ پوچھ گچھ کے خواہاں تھے۔ تاہم انھوں نے انھیں اٹھانے کا خیال ترک کردیا کیونکہ مقامی افراد ڈاکٹر خان کی حمایت میں بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔

ان کے کنبہ کے ایک فرد نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ڈاکٹر خان سے ڈیڑھ گھنٹہ مختلف امور پر بات کی۔ اس نے بتایا کہ ’’انہوں نے پیر کے روز ڈاکٹر خان کو اپنے دفتر میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پولیس نے کوئی تحریری حکم نہیں دیا۔ انھوں نے صرف زبانی کہا۔

جامعہ نگر کے ابوالفضل انکلیو کے ڈی بلاک میں رہنے والے ان کے ایک ہمسائے نے بتایا کہ ڈاکٹر خان پچھلے 35 سالوں سے وہاں رہتے ہیں اور وہ ہمیشہ سب کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔ ان کے ہمسائے نے کہا ’’یہ حقیقت کہ پولیس کے 40 اراکین ڈاکٹر خان کے گھر پر اترے، اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ پولیس ڈاکٹر خان اور ان کے کنبہ کے ممبروں اور ان سب لوگوں کو دہشت زدہ کرنا چاہتی ہے جو بی جے پی کے مسلمانوں کو دبانے کے ایجنڈے کی راہ میں کھڑے ہیں اور ہر اس فرد کو گرفتار کرکے شمال مشرقی دہلی فسادات میں ملوث کر رہی ہے، جس نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا۔‘‘

ڈاکٹر خان کے خلاف برادریوں کے مابین بغاوت اور بغض کو فروغ دینے سے متعلق دفعہ 124A اور 153B کے تحت ایک کیس ان کے ایک ٹویٹ کے بعد وسنت کنج سوسائٹی کے ایک رہائشی کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جس میں ڈاکٹر خان نے مبینہ طور پر مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے کویت کا شکریہ ادا کیا تھا۔

ڈاکٹر خان نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج انھیں ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف لڑنے سے روک نہیں سکتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے ’’آرا اور اعتقادات‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ’’ملک میں اب اور آئندہ بھی نفرت انگیز سیاست کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’ایف آئی آر، گرفتاری اور قیدیں اس راستے کو تبدیل نہیں کرتی ہیں جو میں نے اپنے ملک، اپنے عوام اور ہندوستانی سیکولر آئین کو بچانے کے لیے شعوری طور پر منتخب کیا ہے۔‘‘