
ڈاکٹر ایم اے سلیم بمعروف وَن وے سلیم
کرناٹک کے شعبۂ پولیس کا ایک خاموش خادم، باو قار اصلاح کار
محمد طلحہ سیدی باپا، بھٹکل
جب ادارے خالی خول بننے لگیں، اعتماد متزلزل ہو اور قیادتیں اخلاقی امتحان میں ناکام دکھائی دیں تو ایسے میں اگر کوئی شخصیت تدبر، رحم دلی اور نظم و نسق کے امتزاج کے ساتھ اُبھرے، تو وہ صرف ایک افسر نہیں بلکہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتی ہے۔ کرناٹک پولیس کے نئے ڈائریکٹر جنرل و انسپکٹر جنرل، ڈاکٹر ایم اے سلیم، ایسی ہی ایک شخصیت ہیں جن کے فیصلوں میں توازن، مزاج میں وقار اور قیادت میں خدمت کا سچا جذبہ نظرا ٓتا ہے۔
26 جون 1966 کو بنگلور کے نواحی قصبے میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر ایم اے سلیم کا سفر علم و عمل کی جستجو سے عبارت ہے۔ کامرس میں ماسٹرز کی ڈگری (M.Com) حاصل کرنے کے بعد انہوں نے 1993 میں انڈین پولیس سروس میں شمولیت اختیار کی، پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے پولیس مینجمنٹ میں ماسٹرز اور بنگلور یونیورسٹی سے ٹریفک مینجمنٹ پر ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ یہ محض اسناد کی فہرست نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پولیسنگ کو صرف ملازمت نہیں بلکہ علم، فکر اور معاشرتی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ان کی خدمات کا آغاز گلبرگہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ہوا۔ بعد میں اُڈپی، ہاسن، میسور اور بنگلور جیسے شہروں میں اہم ذمہ داریاں سنبھالیں۔ لیکن عوامی سطح پر ان کی شناخت اس وقت قائم ہوئی جب انہوں نے بنگلور کے پیچیدہ ٹریفک نظام میں انقلابی اصلاحات نافذ کیں اور ’وَن وے سلیم‘ کے لقب سے جانے گئے۔ 120 سے زائد سڑکوں کو یک طرفہ بنا کر انہوں نے شہری زندگی کو ایک نئی جہت دی۔ جدید ترین ٹریفک مینجمنٹ، اسکول جانے والے بچوں کے لیے محفوظ راستے اور والدین و اساتذہ کو ہم قدم بنا کر شہری نظم و ضبط کی ایک مؤثر مہم کو عملی شکل دی۔
ڈاکٹر سلیم کی شخصیت محض ایک ماہر منتظم کی نہیں بلکہ ایک درد دل رکھنے والے مصلح کی بھی ہے۔ CID کی قیادت کے دوران انہوں نے زیر التواء مقدمات کی تعداد 830 سے کم کر کے 360 کر دی۔ سائبر کرائم اور مالیاتی دھوکہ دہی جیسے جدید مسائل کے حل کے لیے الگ شعبے قائم کیے اور پولیسنگ کو شفافیت، تجزیے اور جواب دہی کے جدید اصولوں پر استوار کیا۔
میدانِ عمل کے ساتھ ساتھ وہ فکر و دانش کی دنیا میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ کتابیں ان کے لیے صرف مطالعہ کا ذریعہ نہیں بلکہ قیادت کا روحانی ایندھن ہیں۔ وہ انتظامی حکمتِ عملی، اخلاقیات اور انسانی رویوں پر مبنی کتب سے مسلسل رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ ان کی قیادت صرف ضابطہ نہیں بلکہ اسلامی اقدار اور خاندانی تربیت سے جڑی ہوئی ہے جہاں عدل، خدمت اور امانت جیسے اصول مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے بقول، ان کے والد نے انہیں انصاف کا سلیقہ سکھایا اور والدہ نے خاموشی میں صبر کا ہنر بخشا ہے ۔
ڈاکٹر سلیم کی علمی و عملی خدمات کو کئی اعلیٰ اعزازات سے سرفراز کیا گیا ہے، جن میں صدر جمہوریہ کا پولیس میڈل برائے نمایاں خدمات (2009، 2017)، نیشنل ای گورننس ایوارڈ اور بین الاقوامی سطح پر دیا جانے والا پرنس مائیکل روڈ سیفٹی ایوارڈ شامل ہے۔ 2023 میں انہیں الامین ایجوکیشنل ٹرسٹ، بنگلور کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
نوجوان افسران ان کے اندر صرف ایک سینیئر نہیں بلکہ ایک باعمل رہنما دیکھتے ہیں۔ عوام ان کی قدر اس لیے کرتے ہیں کہ اُن میں بات کو توجہ سے سننے کی خو، سچائی کو سمجھنے کی وسعت اور وقت پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک قیادت کا مطلب زور زبردستی نہیں بلکہ مشاورت، شفافیت اور عوامی خدمت ہے۔
ایسے دور میں جب طاقت اور اصول ایک ساتھ کم ہی دکھائی دیتے ہیں، ڈاکٹر سلیم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اقتدار اور انکساری، قانون اور اخلاق، نظم و نسق اور رحم دلی سب ایک شخصیت میں جمع ہو سکتے ہیں۔
ان کا سفر ایک چھوٹے سے قصبے سے ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے تک نہ صرف نوجوان افسروں بلکہ ہر بیدار شہری کے لیے ایک مثال ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ قیادت خوف سے نہیں، اعتماد سے قائم ہوتی ہے۔ اور اصل خدمت وہ ہے جو قانون کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی جوڑ دے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025