پولیس کے ذریعے تشدد اور بربریت کروانے کے لیے یوپی کے وزیر اعلی کو بر خاست کیا جائے: جماعت اسلامی ہند

جماعت اسلامی ہند نے مطالبہ کیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کیو برخاست کیا جائے کیونکہ انھوں نے مظاہروں پر قابو پانے کے نام پر پولیس کے ذریعے تشدد کروایا اور ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا۔
جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے قومی صدر سید سعادت اللہ حسینی نے سی اے اے مخالف مظاہروں پر قابو پانے کے نام پر اترپردیش پولیس کے اپنے ہی شہریوں پر تشدد اور بربریت کی شدید مذمت کی۔
’’ہم یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو برخاست کیے جانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں ، جو اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہے ہیں اور انھوں نے ریاستی مشینری کے ناجائز استعمال کے ذریعہ ایک خاص برادری کو نشانہ بنا کر اترپردیش میں خوف کی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ امیر جماعت نے کہا۔
انھوں نے مظاہرین کے خلاف یوپی کے وزیر اعلی کے ’’بدلے‘‘ کی سیاست کی بھی شدید مذمت کی۔
اعلی سطحی عدالتی تحقیقات
میڈیا رپورٹس اور فیکٹ فائنڈنگ ٹیموں کے مطابق ، یوپی پولیس نے متعدد مواقع پر پر امن احتجاج پر بلا اشتعال فائرنگ کی ، انھوں نے گھروں میں داخل ہوکر شہریوں کی املاک کو تباہ کیا، اور نوجوانوں اور بوڑھوں کو حراست میں لیا ہے۔ ویڈیو ثبوتوںمیں دکھایا گیا ہے کہ یوپی پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ ڈالے اور پھر گھروں کے سامان، کاروں اور دیگر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی۔
امیر جماعت نے کہا کہ یہ تمام زیادتیاں مسلم برادری پر کی گئی ہیں۔ اتر پردیش میں 20 سے زائد اموات کی اطلاعات ہیں ، سیکڑوں زخمی ہیں اور ہزاروں گم نام افراد پر مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے تاکہ پولیس کو لوگوں کو گرفتار کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ سی اے اے مخالف مظاہرین اور ان کے گھروں میں رہنے والوں کے خلاف جو کچھ کیا گیا وہ پولیس دہشت گردی اور بربریت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک جمہوری ریاست کو ’پولیس اسٹیٹ ‘ میں تبدیل کردینے کے مترادف ہے۔
امیر جماعت نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کے ذریعہ یوپی پولیس کے خلاف تشدد اور توڑ پھوڑ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلی سطحی عدالتی انکوائری پینل قائم کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ پینل مظاہرین کے ذریعے تشدد کی بھی تحقیق کرے اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
تاہم انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر سی اے اے کے احتجاج کے دوران تشدد صرف بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں ہی میں ہی کیوں ہوا۔
’’غیر بی جے پی ریاستوں میں سی اے اے مخالف مظاہروں میں تشدد کیوں نہیں ہوا ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضرور بی جے پی ریاستوں میں کچھ گڑبڑ ہے۔ ہمارا احساس ہے کہ پولیس بڑے پیمانے پر تشدد میں ملوث ہے ، ‘‘ جناب حسینی نے کہا۔
پولیس نے صرف یوپی ، کرناٹک اور آسام میں مظاہرین پر فائرنگ کی – یہ تینوں ریاستیں بی جے پی کے زیر اقتدار ہیں۔ دہلی پولیس نے بھی، جو مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے اور فی الحال بی جے پی کی کمان میں ہے ، اس نے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔
املاک کو ہونے والے نقصان کے ہرجانے کے حوالے سے یوپی انتظامیہ کی مذمت کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ یہ اقدام سپریم کورٹ کے طے شدہ تمام معیارات کے منافی ہے اور مطالبہ کیا کہ ’’مسلم برادری کے خلاف یوپی حکومت کے اس رویے کو ختم ہونا چاہیے۔‘‘
یوپی پولیس نے جو کیا وہ دہشت گردی اور بربریت ہے
یوپی کی زمینی صورتحال کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے ملکی امور کے سکریٹری ملک معتصم خان ، جو مغربی یوپی کے متاثرہ اضلاع کا دورہ کرنے والی سول فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے ، نے کہا: ’’احتجاج سے پہلے ہی یوپی پولیس نے مظاہروں کو دبانے کا کام کیا ۔ علما کو بتایا گیا کہ سی اے اے اچھا ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔‘‘
جناب ملک معتصم خان نے مزید کہا : ’’اگر بالفرض کچھ لوگ تشدد میں ملوث ہوئے ہیں ، تو کیا پولیس بھی تشدد کرے گی؟ پولیس نے فائرنگ کرنے سے مکر گئی ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مظاہرین نے ایک دوسرے کو ہلاک کیا؟ ‘‘
’’ہلاک ہونے والے تمام افراد کے جسم کے بالائی حصوں میں گولیاں لگی تھیں۔ یوپی پولیس اور حکومت نے مظاہرین کے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے وہ ملک کے دشمن ہوں۔ ‘‘

انھوں نے بھی یوگی کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا۔ ’’یہ بات بی جے پی کے مفاد میں ہے کہ وہ آئین اور اخلاقیات کو برقرار رکھنے کے لیے یوپی حکومت کو برخاست کرے۔‘‘
جماعت اسلامی نے ریٹائرڈ آئی جی پولیس ایس آر داراپوری ، اداکار اور کارکن صدف جعفر ، دیپک کبیر اور محمد شعیب اور سیکڑوں دیگر بے گناہ افراد کے خلاف مقدمات فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
جماعت اسلامی ہند نے الزام لگایا کہ اتر پردیش کی اپوزیشن جماعتیں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں اور انھوں نے یوپی پولیس کے ذریعہ اپنے ہی شہریوں پر کیے گئے خوفناک مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ جماعت نے متنبہ کرتے ہوا کہا : ’’انہیں اس بے حسی کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی۔‘‘