پانی زندگی کا لازمی جز مگر آب رسانی انسانی نظام کی محتاج
دنیا کی ایک تہائی آبادی کوصاف پینے کاپانی میسرنہیں
مقبول احمد سراج، بنگلورو
کرۂ ارض کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اسے تین عظیم نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ نعمتیں ہیں ہوا، پانی اور سورج کی روشنی۔ انہیں کی بدولت ہماری یہ زمین انسانوں، حیوانوں اور پیڑ پودوں کے لیے موافق ماحول فراہم کرتی ہے۔ ان تینوں کو ہم مجموعی طورپر ’حیات‘ یا Life سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہوا، پانی اور سورج کی روشنی میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی بھی اس کرۂ ارض کو غیرحیات بخش بنا دے گی۔
اتفاقاً یہ تینوں ہمیں مفت دستیاب ہیں۔ ہوا اور روشنی تو ہر جاندار تک خود ہی پہنچتے ہیں، مگر پانی کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ یہ فطرت میں دستیاب تو ضرور ہے مگر اس تک رسائی انسانی تدبیر پر منحصر ہے۔ یعنی یہ Available ضرور ہے مگر Accessibility مشروط ہے۔ لہٰذا یہ ان قدرتی وسائل میں سے ہے جس کے لیے کسی نظام کی ضرورت ہے۔ اس وسیلے کی ذخیرہ اندوزی، اس کی تنظیف (Cleaning) مستقبل کے لیے اس وسیلہ کا تحفظ (Conservation) سبھی کچھ آب رسانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہی نہیں اس وسیلہ کو کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے اور بعض معاملات میں اسے ذاتی مِلک بھی قرار دیا جاتا ہے، گرچہ ابھی تک اس کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل گردانا جاتا ہے۔ مگر تیز رو مدنی تہذیب کی پیش رفت سے یوں گمان ہوتا ہے کہ مستقبل میں یہ قدرتی وسیلہ کہیں قوموں کے درمیان تصادم کا باعث نہ بن جائے۔
آئیے ہم ورلڈ واٹر ڈے (World Water Day) کے اس موقع پر دنیا میں پانی کی تقسیم پر ایک نظر ڈالیں۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ کرۂ ارض کے 71 فیصد رقبہ پر سمندر محیط ہیں مگر دنیا میں موجود پانی کی محض ڈھائی فیصد مقدار استعمال کے قابل ہے۔ اسے ہم میٹھا پانی کہتے ہیں گرچہ انگریزی میں اسے Freshwater کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس میٹھے پانی کا 77 فیصد حصہ دو قطبین اور ہمالیہ کے گلیشیرز میں منجمد ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیرز میں منجمد پانی سالوں بھر پگھل کر ہندوستان، چین، پاکستان، نیپال، برما، افغانستان اور بنگلہ دیش کی دریاؤں کو سیراب کرتا رہتا ہے۔ دراصل یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی ان ممالک میں رہائش پذیر ہے۔ میٹھے پانی کا بقیہ 22 فیصد حصہ زمین کی تہوں میں محفوظ رہتا ہے جسے عرف عام میں Groundwater کہتے ہیں۔ دنیا کے تمام دریاؤں میں بہنے والا اور جھیلوں اور تالابوں میں ٹھہرا ہوا پانی Surface Water کہلاتا ہے جو دنیا میں موجود میٹھے پانی کا محض ایک فیصدحصہ ہے۔
معلوم ہوا کہ کرۂ ارض کا صرف ایک فیصد پانی دنیا کے تقریباً آٹھ ارب انسانوں کے استعمال آتا ہے۔ پانی بادلوں کی شکل میں برستا ہے، دریاؤں میں بہتا ہے اور پھر سمندروں میں داخل ہو کر تبخیر (Evaporation) کے عمل سے دوبارہ بادلوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس پورے عمل کو Watercycle کہتے ہیں۔ اس پانی کو Renewable Water کہتے ہیں۔ بارش میں برسنے والے اس پانی کا 69 فیصد آبپاشی اور جانوروں کی افزائش کے کام آتا ہے۔ 19 فیصد حصہ صنعتوں اور تجارت کے اداروں میں استعمال کر لیا جاتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔ بقیہ دو فیصد پانی وہ ہے جو دریاؤں میں بہتا ہے اور جھیلوں میں سکوت پذیر نظر آتا ہے۔ کرۂ ارض پر موجود پانی کی مجموعی مقدار 1.4 کھرب مکعب کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ مگر ساری دنیا میں ہر برس برسنے والے پانی کی کل مقدار 41,000 مکعب کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ دراصل یہ واحد تازہ پانی ہے جو آسمانوں، کرۂ ارض، سمندروں اور بادلوں کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے اور ہماری تمام تر ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ ہزاروں برسوں سے اس مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے۔ ہاں البتہ موسموں کے ردّوبدل سے ان کی خطہ واری تقسیم میں فرق آتا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں کہیں سیلاب تو کہیں خشک سالی واقع ہوتے رہتے ہیں۔قدرت نے کرۂ ارض پر پانی کو مادّے کی تینوں حالتوں میں وجود بخشا ہے۔ اگر قطبین اور کوہساروں میں یہ ٹھوس شکل (برف) میں پایا جاتا ہے تو سطح زمین پر یہ رقیق بن کر بہتا ہے، گرمی کی حدّت اسے بھاپ بنا کر کرۂ باد میں لے جاتی ہے۔ یہ اپنی تینوں حالتوں میں انسانوں کے استعمال میں آتا ہے۔ انسان اسے تین مختلف Sources سے حاصل کرتا ہے۔ زیر زمین پانی کو گراؤنڈ واٹر (Groundwater) کہتے ہیں جو کنوؤں اور بورویل سے حاصل ہوتا ہے۔ سطح زمین پر پایا جانے والا پانی Surface Water ہے جو جھیلوں، تالابوں سے ملتا ہے۔ پانی کی تیسری قسم بہنے والا پانی (Running Water) کہلاتا ہے جو جھرنوں اور ندیوں سے حاصل ہوتا ہے۔
مگر جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا ہے کہ ہوا اور سورج کی روشنی کی طرح پانی ہرکس و ناکس کو اور ہر جگہ حاصل نہیں ہے۔ پانی تک رسائی دنیا کے نصف سے زیادہ لوگوں کے لیے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ شہری آبادی میں مسلسل اضافہ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ اگر ہم اسکول میں پڑھی گئی تاریخ پر غور کریں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ دنیا کی تقریباً تمام بڑی تہذیبوں نے ندیوں کے کناروں پر جنم لیا اور وہیں پھلی پھولیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان بسنے والے قافلوں کو یہاں وافر مقدار میں پانی دستیاب تھا جب کہ دور دراز کے علاقوں میں پانی کی رسائی ممکن نہ تھی۔ آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آج پانی کی رسائی ہر جگہ ممکن ہے مگر یہ ہر جگہ دستیاب نہیں۔ مثلاً اب ٹکنالوجی کی بدولت سو منزلہ عمارتوں، سمندر پر تیرتے لکژری جہازوں اور ہوائی جہازوں میں پانی کی رسائی ممکن ہے، مگر بڑھتی آبادی کے بوجھ کے باعث یہ وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔ یعنی آج پانی کی Availability کم اور Accessibility زیادہ آسان ہے۔ ٹکنالوجی نے اس بات کو بھی ممکن بنا دیا ہے کہ پانی کے ذخائر بنائے جائیں، گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے، آئندہ نسلوں کے لیے اس کا تحفظ کیا جائے اور بلندیوں تک اسے اٹھایا جا سکے۔
یونیسکو کی 2019 کی ورلڈ واٹر رپورٹ کے مطابق بڑھتی آبادی کے باعث دنیا میں ہر برس پانی کے استعمال میں ایک فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے اور 2050 تک اسی صورتحال کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔
اقوامِ متحدہ نے دنیا کو صحت مند اور خوشحال بنانے کے جو سترہ نشانے مقرر کیے ہیں ان میں ہر فرد تک صاف پانی کی سربراہی اور مکانات سے گندے پانی کی نکاسی کو ساتویں مقام پر رکھا ہے۔ ان نشانوں کو 2030 تک پورا کیا جانا ہے۔ مگر آب رسانی کی موجودہ صورتِ حال کے مطابق فی الحال دنیا کے دو کھرب عوام ان ممالک میں رہتے ہیں جن کو Water Stressed قرار دیا گیا ہے، بقیہ چار کھرب عوام ان ممالک کے باشندے ہیں جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ یعنی انہیں سال کے ایک یا دو ماہ پانی کی شدید کمیابی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ دنیا کے دس میں سے تین افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ دنیا کے دس میں سے چھ افراد ایسے ٹائلٹ استعمال کرتے ہیں جہاں سے انسانی فضلہ کی نکاسی کا نظم انتہائی غیر تشفی بخش ہے اور ان دس میں سے ایک کو ٹائلٹ کی عدم موجودگی میں کھلے میدانوں یا کھیتوں میں حاجت سے فراغت حاصل کرنی پڑتی ہے۔
دنیا کے نو ممالک ایسے ہیں جن کے پاس میٹھے پانی کے وافر ذخائر موجود ہیں اور یہ دنیا کے 60 فیصد میٹھے پانی کے ذخائر کے مالک ہیں۔ یہ ممالک برازیل، روس، کناڈا، چین، کولمبیا، امریکہ، پیرو اور بھارت ہیں۔ مگر ان کے پانی کے ذخائر کو فی کس پانی کی دستیابی کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو صورتحال تھوڑی مختلف بنتی ہے۔ مثلاً برازیل میں سالانہ فی کس 31,795 مکعب میٹر پانی دستیاب ہے جبکہ امریکہ میں 7,153 مکعب میٹر شمار کی جاتی ہے۔ ہندوستان اپنی کثیر آبادی کی وجہ سے محض 1,275مکعب میٹر فی کس میٹھے پانی کا متحمل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر شخص کو اپنی تمام تر ضروریات کے لیے سالانہ 1,000 مکعب میٹر پانی دستیاب ہو تو ایسے ملک کو اقوامِ متحدہ کے نشانوں کے مطابق تشفی بخش کہیں گے۔
میٹھے پانی کے ناکافی وسائل والے ممالک تقریباً سترہ ہیں جن میں اسرائیل، اردن، لیبیا، قطر، موریطانیہ، متحدہ عرب امارات، کویت، جیبوتی، مالٹا اور غازہ کی پٹی شامل ہیں۔ مثلاً اسرائیل سالانہ اپنے اندرونی وسائل سے محض فی کس 1.67 مکعب میٹر میٹھا پانی فی کس مہیا کر سکتا ہے۔ کویت کا معاملہ اس سے بھی نازک ہے اور وہاں فی کس محض ایک چوتھائی مکعب میٹر پانی ہی حاصل ہے۔ ان میں سے دولت مند ممالک سمندری پانی کی تبخیر سے اپنی ضرورت کا پانی حاصل کر لیتے ہیں۔
ان سے پرے کوئی 33 ممالک ایسے ہیں جن کے پاس میٹھے پانی کے دریا ضرور ہیں مگر یہ دریا کئی ممالک سے ہو کر بہتے ہیں لہٰذا ان کے پانیوں پر ان کے مالکانہ حقوق نہیں۔ بیری لیوی نامی سائنس دان اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ دنیا کی ندیوں میں بہنے والے کل پانی کا 60 فیصد حصہ دویا دو سے زائد ممالک سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایسی ندیوں کی تعداد 253 ہے اور ان کے حصے دار ممالک کی تعداد 145 ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان کے 34 فیصد بہتے پانی اور پاکستان کے 76 فیصد بہتے پانی کا معاملہ یہی ہے اور ان دریاؤں کے منابع کسی اور ملک میں واقع ہیں۔
دریائی تنازعات مستقبل میں بین الملکی کشمکش اور جنگوں پر منتج ہو سکتے ہیں حالانکہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے آبی تنازعات اور پانی کے سلگتے مسائل سے متعلق فکر انگیز تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں جو سائنسدان اس مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالے گا وہ دو نوبل انعامات کا حقدار ہو گا ایک سائنس کا اور دوسرا امن کا۔ اس بات پر ہر کوئی متفق ہے کہ پانی تک رسائی ہر نفس کا بنیادی حق ہے مگر اسے کیونکر حل کیا جائےاس پر مستقل تحقیق کی ضرورت ہے۔
دریائی تنازعات مستقبل میں بین الملکی کشمکش اور جنگوں پر منتج ہو سکتے ہیں حالانکہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے آبی تنازعات اور پانی کے سلگتے مسائل سے متعلق فکر انگیز تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں جو سائنسدان اس مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالے گا وہ دو نوبل انعامات کا حقدار ہو گا، ایک سائنس کا اور دوسرا امن کا۔ اس بات پر ہر کوئی متفق ہے کہ پانی تک رسائی ہر نفس کا بنیادی حق ہے مگر اسے کیونکر حل کیا جائے اس پر مستقل تحقیق کی ضرورت ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021