وزیر اعظم کی تنقید کے کچھ ہی گھنٹوں بعد جموں و کشمیر حکومت نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ پر پی ایس اے لگایا
سرینگر، فروری 7: وزیر اعظم نریندر مودی کے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی تنقید کرنے کے چند گھنٹے بعد جموں و کشمیر حکومت نے ان دونوں سابق وزرائے اعلی پر سخت پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) لگا دیا۔
دو دیگر کشمیری رہنماؤں سرتاج مدنی اور علی محمد ساگر پر بھی پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس کے ہمراہ ایک مجسٹریٹ نے سب جیل نامزد سرکاری بنگلے میں محبوبہ مفتی کو پی ایس اے کی فائل سونپی اور آرڈر کی تعمیل کی۔ عمر، جو ہری نیواس محل میں زیر حراست ہے، جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے، پر بھی پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پی ایس اے کے تحت، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبق ایک غیر قانونی قانون، کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کی سماعت یا ضمانت کے تین ماہ سے لے کر دو سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
التجا مفتی نے اپنی ماں محبوبہ مفتی کے ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا ’’محترمہ مفتی کو کچھ عرصہ قبل PSA کا آرڈر ملا۔ جموں و کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلی پر پی ایس اے لگانے کی توقع ایک خود مختار حکومت سے کی تھی جو نو سال کے بچے پ بھی ’’بغاوتی تبصرے‘‘ کا الزام لگا کر گرفتار کر لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کتنے عرصے سے اس کے خلاف خاموش رہیں گے جب وہ اس قوم کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔‘‘
گذشتہ سال حکومت نے پی ایس اے کے تحت ایک اور سابق وزیر اعلی اور سرینگر سے لوک سبھا ممبر فاروق عبد اللہ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ 82 سالہ فاروق کو اپنے گھر میں حراست میں لیا گیا ہے جسے سب جیل نامزد کیا گیا ہے۔
محبوبہ کے چچا اور سابق ایم ایل اے سرتاج مدنی اور نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر کے خلاف پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج ہونے کے فوراً بعد پی ایس اے دو سابق وزرائے اعلیٰ پر بھی لگایا۔
اس سے قبل ہی وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں صدر کے خطاب کے شکریہ کی تقاریر پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزرائے اعلیٰ پر تنقید کی تھی۔
انھوں نے کہا تھا ’’اس (محبوبہ) نے کہا کہ ہم نے 1947 میں غلط فیصلہ کیا تھا … کیا یہاں کے لوگ ان بیانات کی حمایت کرتے ہیں؟ عمر عبد اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے ایسا زلزلہ آئے گا کہ کشمیر ملک سے الگ ہوجائے گا۔ فاروق عبد اللہ نے کہا 370 کا خاتمہ کشمیر کی آزادی کے لیے راہیں کھولے گا… کیا کوئی ایسی زبان سے راضی ہوسکتا ہے؟‘‘
آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ریاست کے دو مرکزی علاقوں لداخ، اور جموں و کشمیر میں تقسیم کے بعد کشمیر ابھر رہا ہے۔
در حقیقت کشمیر کی پوری سیاسی قیادت 5 اگست ے جیل میں بند تھی۔ ان جیلوں میں تین سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبد اللہ اور فاروق عبداللہ بھی قید ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار نے انکشاف کیا ہے کہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد 5،161 سے زیادہ افراد جن میں پتھراؤ کرنے والوں، شرپسندوں، زمینی کارکنوں اور سیاستدانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔