نیکی کے بے شمار راستے

یحییٰ نعمانی

 

انبیاعلیہم السلام کی بعثت انسانوں پر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں کی کامرانی اور دنیا اور آخرت میں ان کی فلاح یابی کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجتا ہے تاکہ ان کو اپنی رحمت و فضل اور ثواب و اجر سے نوازے۔ رسول ﷺ کے بارے میں قرآن میں بڑی تاکید کے ساتھ یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ آپﷺ کی بعثت تو صرف اس مقصد سے ہوئی ہے کہ انسانوں کو اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب فرمایا جائے۔ کرم و رحمت اور فضل و نوازش کے اس مبارک ارادہ ربانی ہی کے نتیجہ میں بعثت محمدی ہوئی ہے۔
وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین
نبوت کے فیضان کی شکل میں خدائی رحمت و کرم طرح طرح سے ظاہر ہوتے ہیں اور یقیناً اس کا کامل ترین ظہور اس ہدایت و رہنمائی کی شکل میں ہوا ہے جس نے انسانوں کو جود و عطا کے خزانوں اور دنیا و آخرت کی سرفرازیوں سے بہرہ مند کرنے والے بے شمار نیک اعمال کا پتہ دیا۔نبوت محمدیؐ کے ذریعہ انسانوں کو جو علوم دیے گئے ہیں ان میں سے ایک بڑا مبارک اور شوق افزا علم نیکی اور بھلائی کے کاموں اور اعمال صالحہ کے ثواب کا علم ہے۔ رسول ﷺ نے انسانوں کو بتلایا کہ خدا نیکیوں کا بڑا قدر دان ہے۔ وہ معمولی معمولی خیر کے کام پر بے شمار اجر و ثواب عطا فرماتا ہے۔ در حقیقت اس کو اپنے کرم و بخشش اور جود و سخا کے لیے ’’بہانوں‘‘ کی تلاش ہے۔ بس ذرا بندے کی طرف سے اطاعت شعاری اور بندگی کا اظہار ہوجائے۔ وہ بے حد و حساب ثواب دیتا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں رسول ﷺ کے بے شمار ارشادات منقول ہیں جن میں آپ نے معمولی معمولی کاموں کو بڑی بڑی نیکیاں قرار دیا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم اجر کی خوش خبری سنائی ہے۔ ذیل میں آپ کے ایسے ہی کچھ ارشادات نقل کیے جا رہے ہیں۔ توفیق ہو تو انسان خیر و ثواب کے خزانے جمع کر سکتا ہے۔
(۱) حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولﷺ سے دریافت کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ پر ایمان اور اس کے راستے میں جہاد۔ پھر میں نے پوچھا: کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے میں زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وہ غلام جو اپنے مالک کے نزدیک سب سے عمدہ ہو اور سب سے قیمتی ہو۔ پھر میں نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ اگر میں یہ دونوں کام نہ کرسکوں؟ آپﷺ نے فرمایا: کوئی آدمی کچھ کام کررہا ہو یا کچھ بنا رہا ہو تو اس کی مدد کر دو، یا کسی کمزور کا کچھ کام کر دو۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر میں اعمال صالحہ نہ کرسکوں؟ آپؐ نے فرمایا لوگوں کو تم سے تکلیف نہ پہنچے، یہ تمہاری طرف سے اپنے اوپر صدقہ ہے۔ (بخاری)
(۲) حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کے ہر ہر جوڑ پر روز (اللہ کی نعمتوں کے شکر کے طور پر ) صدقہ لازم ہے۔ (صحابہ کرام کو لازمی طور پر فکر ہوئی ہوگی کہ اتنے صدقے کون کرسکتا ہے؟ مگر ) آپ نے مزید فرمایا کہ ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے۔ ایک مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے۔ نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے۔ بدی سے روکنا صدقہ ہے اور ہر جوڑ کے بدلے ایک صدقہ کرنے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ چاشت کے وقت دو رکعت پڑھ لی جائیں۔ (اسی سے انسان کے ہر جوڑ کی طرف سے ایک صدقہ ہوجائے گا) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی کو سواری پر سوار کرادو یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی کا سامان اٹھوا دو یہ بھی صدقہ ہے۔ نماز کو جاتے ہوئے ہر قدم صدقہ ہے۔ راستے میں سے کوئی گندگی یا تکلیف دہ چیز ہٹادو یہ بھی صدقہ ہے۔ (صحیح مسلم)
(۳)حضرت ابو ذرؑ ہی فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کچھ غریب مسلمانوں نے حاضر ہوکر یوں گزارش کی کہ : اے اللہ کے رسول! مال دار سارا اجرو ثواب لے جاتے ہیں، ہم نماز و روزے کی نیکیاں کرتے ہیں تو وہ بھی کرتے ہیں مگر وہ اپنی ضروریات سے زائد مال میں سے صدقہ کرتے ہیں(اور ہم غریب حسرت ہی کرتے رہتے ہیں) آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہارے لیے بھی صدقہ کرنا ممکن بنایا ہے۔ سن لو! یقیناً ہر مرتبہ سبحان اللہ کہنے میں صدقہ کا ثواب ہے۔ ہر مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کہنے میں صدقہ کا ثواب ہے۔ نیکی کا حکم صدقہ ہے۔ بدی سے روکنا صدقہ ہے۔ (یہاں تک کے آپﷺ نے یہ تک فرمایا کہ) تم لوگوں کے لیے اپنی بیویوں سے اپنی حاجت پوری کرنا بھی صدقہ ہے۔ لوگوں نے سوال کیا: اگر ہم اپنی خواہش پوری کریں تو بھی ہم کو ثواب ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: جائز طریقے سے خواہش پوری کرنے پر ثواب ملے گا۔ (صحیح مسلم)
سبحان اللہ! کوئی انتہا ہے اس جود و کرم کی!
(۴) حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:کسی نیکی اور اچھے کام کو کم مت سمجھنا، چاہے وہ بس اتنا ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے کشادہ پیشانی سے مل لو (صحیح مسلم)
(۵) حضرت ابوذرؓ سے ہی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرایا کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیہ بھیجنے میں کسی چیز کو کم نہ سمجھے(بس جو بھی ہدیہ کرسکے وہ اللہ کے نزدیک بہت ہے)چاہے وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو
(صحیح بخاری)
یعنی جو میسر ہو وہ پڑوس میں ہدیہ بھیج دیا جائے۔ اس کو حقیر اور بے حقیقت نہ سمجھا جائے۔ نہ بھیجنے والی کسی تھوڑی سی چیز کو کم سمجھے اور نہ ہی لینے والی آنے والی چیز کو حقیر سمجھے۔ یہاں تک کہ اگر کچھ اور میسر نہ ہو، صرف بکری کا ایک کھر (یعنی اس کے پائے کے بالکل نچلے حصے کا بھی نصف) ہو تو بس وہی بھیج دے اور جس کے یہاں پہنچے وہ اس کو پوری قدر و محبت کے ساتھ لے۔ اس لیے کہ اللہ کے یہاں اتنے کام کا بھی بہت ثواب ہے۔

جو بندے اپنے معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کر رہے تھے ان کو اللہ تعالٰی کی عبادت کی طرف بلایا جائے اور اس کام کو انجام دینے کے لیے قرآن مجید کی ان آیات کا سہارا لیا جائے جن میں اللہ تعالٰی نے سارے انسانوں کو بڑے محبت بھرے انداز میں مخاطب فرمایا!
یا ایها الانسان ما غرك بربك الكریم. الذی خلقك فسواك فعدلك. فی أی صورة ما شاء ركبك.
(الانفطار 6 – 8)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021