نیپال کے ذریعے ہندوستان میں کورونا پھیلانے کا نام نہاد ‘منصوبہ’ ، آخر کیا ہے سچ؟

افروز عالم ساحل

نئی دہلی: ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے نام نہاد ‘کورونا جہاد’ کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ظالم مکھیا کے ذریعے ہندوستان میں کورونا وبا پھیلانے کا نام نہاد ‘منصوبہ’ سامنے آگیا ہے۔

بتا دیں کہ 3؍ اپریل 2020 کو بہار بارڈر سیکیورٹی فورس کے مشرقی چمپارن کے رام گڑھوا پنکوٹہ کی 47 ویں بٹالین نے بہار میں مغربی چمپارن کے ضلع مجسٹریٹ اور بتیا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو ایک خفیہ خط لکھ کر بتایا ہے کہ ’’معتبر ذرائع سے یہ پتہ چلا ہے کہ نیپال کے پارسا ضلع کے سیروا پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے جگناتھ پور گاؤں کا ظالم مكھيا ہندوستان میں کورونا وبا پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس نے لاک ڈاؤن کے دوران مختلف مسلم ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانی مسلمان شہریوں کو پہونچانے کی ذمہ داری لی ہے۔ ذرائع کے مطابق تقریباً 200 ہندوستانی مسلم شہری (مسلم ممالک میں کام کرنے والے) 05 سے 06 پاکستانی شہریوں کے ساتھ کٹھمانڈو کے راستے نیپال پہنچے ہیں اور وہ اس وقت نیپال کے چندنبرسا اور خیروا کی مساجد یا مدرسوں میں مقیم ہیں۔ ذرائع کے مطابق 40 سے 50 مزید مشتبہ ہندوستانی مسلمان شہری آج پہنچیں گے اور اگلے دنوں میں ان کے مزید آنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ شہری راستے میں اپنے جسم کے درجۂ حرارت کو کم کرنے کے لیے پیراسیٹامول لے رہے ہیں اور وہ کورونا پوزیٹیو ہوسکتے ہیں۔‘‘

بارڈر سیکیورٹی فورس کے کمانڈنٹ کے ذریعہ بھیجے گئے اس خط کے بعد اب 07 اپریل کو مغربی چمپارن، بیتیا کے ضلع مجسٹریٹ نے "کورونا مشتبہ ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ نیپال سے ہندوستان آنے کے عمل سے متعلق” عنوان کے ساتھ بتیا اور بگہا کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس کے ساتھ ساتھ گوناہا، میناتانڈ، سکٹا اور بگہا 2 کے بلاک ڈویلپمنٹ آفیسر کو خط لکھ کر 40 سے 50 کورونا کے مشتبہ ہندوستانی مسلمانوں کے ہندوستان آنے کی اطلاع دی ہے۔ ساتھ ہی صاف طور پر کہا ہے کہ ہند – نیپال سرحد پر مناسب نگرانی کی جانی چاہیے اور کسی بھی مشکوک سرگرمی پر کڑی نگرانی کی جائے۔

اس خط کے میڈیا میں آنے کے بعد حکومت بہار کے محکمۂ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری عامر سبحانی نے میڈیا کو دیے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے میں ریاست کے تمام سرحدی اضلاع کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ ابھی تک نیپال سے کوئی بھی بہار میں داخل نہیں ہوا ہے۔

سکریٹری داخلہ نے صاف طور پر کہا ہے کہ کوئی بھی غیر قانونی طور پر بہار میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ پولیس ہر طرف چوکس نظر رکھے ہوئے ہے۔

وہیں ظالم مکھیا خود فیس بک لائیو آکر ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ انھوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے اور اس کے پیچھے کسی بڑی سازش کی بو آ رہی ہے۔

ایک جانکاری کے مطابق ظالم مکھیا نیپال کے پارسا ضلع کے جگناتھ پور میونسپلٹی کے میئر ہیں، جو بہار نیپال کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ علاقہ بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے شہر بیتیا کی سکٹا سرحد سے ملحق ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہندوستان اور نیپال کے درمیان یہاں کوئی سرحد نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے دیہات ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں اور دونوں اطراف کے لوگ آسانی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔

لیکن بارڈر سیکیورٹی فورس نے اپنے خط میں اس کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ نیپال سے ہندوستان اسلحہ کی غیرقانونی فراہمی اور ایف آئی سی این اسمگلنگ میں بھی شامل ہے۔ اس پر ظالم کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا یہ الزام بھی غلط اور بے بنیاد ہے۔ میں نیپال کا منتخب عوامی نمائندہ ہوں۔ میں نے اس الزام کے سلسلے میں ویر گنج میں مقیم ہندوستان کے قونصل خانہ میں شکایت درج کرا چکا ہوں۔ بتادیں کہ ظالم نیپال کمیونسٹ پارٹی کا مقامی رہنما ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نیپال میں گذشتہ انتخابات میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔

اس متلق ہم نے بیتیا ڈی ایم کندن کمار سے بھی بات کرنے کی کوشش کی، لیکن خبر لکھے جانے تک ان تک رسائی نہیں ہوسکی۔ لیکن بتادیں کہ آن لائن دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ نیپال میں اب تک صرف 9 کورونا مریض پائے گئے ہیں۔ ایسے میں  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 40-50 کورونا مریض کہاں سے آ گئے؟ کیا نیپال حکومت جھوٹ بولتی ہے یا پھر بارڈر سیکیورٹی فورس کے ذریعہ دی ہوئی معلومات غلط ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا بارڈر سیکیورٹی فورس کے ایک خفیہ خط کے بعد بہار حکومت نے بھی ان سارے الزامات کی تحقیقات کی ہیں؟ کیا بہار حکومت نے اس سلسلے میں نیپال حکومت سے بات کی؟ سوال یہ بھی ہے کہ ہندوستان نیپال کے ساتھ بہت بہتر تعلقات رکھتا ہے ، تو کیا ایسے میں بارڈر سیکیورٹی فورس کے ذکر کردہ مقامات پر چھاپہ مار کر نام نہاد ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب یہ خط خفیہ تھا تو پھر یہ خفیہ کیوں نہیں رہا؟