نعیم جاوید، دمام، سعودی عرب
نظر بازی کا چسکہ جب چاٹ بن جاتا ہے تو بے قابو طبیعتیں ہر کھلے زخم پر بھنبھنانے لگتی ہیں۔ بھری محفلوں میں بھی نظر باز لوگ ذہنی طور پر خود کو کسی تنہا اور تاریک غار میں محسوس کرتے ہوئے بڑی بے نیازی سے ٹکر ٹکر گھورتے بلکہ نظریں گاڑے چلے جاتے ہیں۔ اس دیدہ دلیری پر ہر مہذب ذہن حیران رہ جاتا ہے کہ یہ دھڑلے سے کی جانے والی حماقت کا جواز کیا ہے۔ غالباً اس روش پر چلنے والے اپنے اندر کی ایک طاقت ’’نفسِ لوامہ‘‘ کو کچل کچل کر ادھ موا کر چکے ہوتے ہیں۔جسکی وجہ سے دورانِ دیدہ دلیرہ کوئی احتجاج دل کی بستی میں نہیں ہوتا۔ بلکہ ’’ہل من مزید‘‘ کی تونس دیکھی اور محسوس کی جاتی ہوگی۔نظر ونیاز کی یہ وحشی تمنائیں ہر بندھن توڑتی ہوئی ہر سرحد پھلانگتی ہوئی اپنی بے بصیرت آنکھوں سے وہ مزائل داغتی ہیں جِس سے ستر وحجاب کی آخری چوکی بھی پہلے ہی مرحلے میں سر ہو جاتی ہے اور یہ بد نظر لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ صنفِ مخالف کون ہے کیا وہ بزرگی کی عمر میں ہے۔ رشتوں کی بارودی دہانوں پر ہے۔ پرہیزگاری سے اپنے ذات کو منور کرکے اللہ کے ہالہ نور میں رہتی ہے۔ لیکن یار لوگ شوقِ نظارگی میں کچھ ایسی ہی مساوات کے قائل رہتے ہیں جہاں بھلے برے سب انکی نظرِ کرم کی زد میں آجاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم کہاں مضبوط کردار کے قلعہ بند حصار میں رہتے ہیں جو ایسی حیا سوز شعاوں کے کیمائی اثر کو زائل کرسکیں۔ بلکہ ہم تو نفاق کے کچے گھروں کی دہلیز پر سر رکھ کر نیم خواب آنکھوں سے سوتے ہیں تاکہ کوئی دھماکہ ہو اور ہم اپنا گھروندہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں یا خود سپردگی کے لیے دشمن کے کیمپ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اتفاقاً نظریں چار ہونا اور اہتماماً چاند ماری کرنا اپنی جگہ الگ الگ تفصیل رکھتا ہے۔ یہ بڑی عجیب سرگرمی ہے کہ بلا ضرورت کہیں ٹہلتے ہوئے چلے جانا اور خود کو ہر معقول مصروفیت سے فارغ کر کے بڑی ڈھٹائی سے نظارہ بازی کرنا۔ نت نئے بہانے سے، کبھی شادی بیاہ میں رسومات کے بہانے، عرس میں بزرگانِ دین کے تقدس کے بہانے، کہیں شاپنگ کے بہانے، کہیں تعلیمی اداروں میں بچوں کے بہانے، بلکہ قلبِ شہر کے مرکزی تجارتی علاقے میں تو چند خوش پوش اوباش جمع ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ شوقِ نظارگی سے اپنے ذہن ودل کے خلل کو ہیجان میں تبدیل کر سکیں۔ پردہ دار خواتین اپنے متعلقین سے یہ شکایت کرتی ہیں کہ فلاں شخص تو آپکا دوست ہے لیکن بڑی عجیب وغریب بد حواسی سے ہمیں دیکھتا ہے۔ فلاں صاحب تو ہمارے قریب ترین سسرالی رشتہ دار ہیں لیکن انہیں کوئی سمجھائے کہ اپنی نگاہوں کو قابو میں رکھیں۔ کبھی تو نئے رشتوں میں بندھے گھرانے میں دلہن کی بہنیں اور میکے والے کہتے ہیں کہ ’’بیٹی تم اپنے میاں کو سمجھاؤ کہ رشتوں کی پاکیزگی کا خیال کرے۔ہنسی مذاق کے بہانے کیا کیا رعایتیں جنابِ نوشہ لیے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ان جرائم کو غذا یقیناً کئی سمتوں سے ملتی ہے۔صنفِ نازک کا بے ضرورت، بے حجاب رہنا۔ چھوٹے گھروں میں مشترک خاندان اور غیر متعلق افراد کا گھروں کے اندر تک تفریحاً چلے آنا، ہندوانہ رسومات کو سنتوں کے ساتھ شادی کے موقع پر مدغم کرنا۔ خواتین کا مردوں کے پہلو بہ پہلو کام کرنا اور وہ تمام اشتعال انگیز فضائیں جسکو فروغ دینے میں ریڈیو، ٹی وی، فلمیں اور دوسرے درجہ کے ادبی میگزین شامل ہیں۔ دنیا میں ذہن سازی کے لیے ہر طرح کا سامان ہوتا ہے۔ سامانِ خیر بھی وسائلِ شر بھی۔ اب اگر کوئی صرف شر کا خریدار ٹھیرے تو قصور انتخاب کا نکل آئے گا۔
ایک مرتبہ ہمیں ایک صاحب کی نظر بازی کے ایک واقعہ کے بعد انکی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں معلوم کرنے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی۔ پھر جو مواد ہمارے ہاتھ لگا اس پر ہم حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئے۔ نشان زدہ نظارہ باز نہ صرف شریف آدمی ہیں بلکہ کسی بڑے جرم سے انکا ریکارڈ پوری طرح صاف ہے۔صرف بد احتیاطی کی عادی ہیں جسکی وجہ سے خاندان میں ٹھنی رہتی ہے۔ انکے گھورنے کی عادت سے زخمی ہونے والے افرادِ خاندان کسی اور بہانے سے انکو برا بھلا کہتے ہیں۔ دوسرے معاملات میں ان پر اعتماد ظاہر نہیں کرتے جسکو جب جب موقع ملتا ہے انتقاماً ذہنی اذیت پہنچاتا رہتا ہے۔ یہ پوری فضا ردِ عمل کا عنوان رکھتی ہے۔ لیکن موصوف اپنی آنکھیں بچھانے سے باز نہیں آتے۔ جسطرح ’’زندگی‘‘ کئی غیر تحریری قوانین کی اساس پر قائم ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں ایک غیر تحریری قانون یہ ہے کہ کسی صنفِ مخالف کو گھورنا انتہائی جارحانہ اخلاق سوز عمل ہے۔
اور نگاہوں کی لاسلکی سے سامنے والے نظارہ باز کی ذہنی نشریات پڑھ لیتے ہیں اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا رخ دوسری جانب پھیر کر یا آنکھیں بند کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپکی اودی پیلی نشریات قبیح ہیں اور قطعاً اسکی ترسیل کی گنجائش نہیں۔ آپ اپنی گشتی نشریات اٹھائیے، یہاں اس قسم کے سر گرمی نہیں ہوگی۔ یہ مجنونانہ عمل عجب بد حواسی پھیلاتا ہے۔ اس نظر فروش کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ خود اسکا جسم ہیجان انگیز و کریہی جھٹکے کھا رہا ہے۔ کتے کی طرح رال ٹپکا رہا ہے خود تھوک رہا ہے اور خود نگل رہا ہے۔ وہ بھری محفل میں اوروں کی نگاہوں میں اپنا وقار کھو رہا ہے۔ کبھی بال سنوارنے کی غرض سے سنورے بال منتشر کر رہا ہے۔ ضرورت سے زیادہ باچھیں کھول کر خود کو مہذب ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غرض اس کے ہاتھ پاوں گردن اور قدم ایسے نفسیاتی دباؤ میں سرگرمی دکھلا رہے ہوتے ہیں جو اُسے احمق ثابت کرنے کیلے کافی ہوتے ہیں۔ یہ بد نگاہی اسے شدید نفسیاتی شکنجوں میں کس رہی ہوتی ہے جو اس کو ذہنی خلجان، قلبی اضطراب پر ہنگام تنفس اور غیر متوازن گردشِ خون سے اسکی شخصیت کے خیر پسند عناصر کو روند کر ہوسناکی کی طرف اس کا رجحان بڑھا دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا سہارا سب سے مضبوط سہارا ہوگا۔ اس صداقت سے کس کو انکار ہو گا جس میں کہا گیا کہ بدنگاہی آنکھوں کا زنا ہے۔ بلکہ ایک مرتبہ حج کے ہنگام میں جہاں بے پردگی ہو ہی جاتی ہے۔ حضرت فضل بن عباسؓ کی نگاہ کسی انجان عورت کے چہرے پر بلا ارادہ ٹہر گئی تو نبی رحمتؐ نے اپنے دستِ شفقت سے انکے چہرے کو دوبار دوسری جانب کیا۔ آج نبیؐ کی تعلیمات تقاضہ کرتی ہیں کہ نگاہوں کو بے قابو نہ ہونے دیا جائے۔ قرآن کی آرزو یہ ہے کہ ’’غضّ بصر‘‘ کو رواج دیا جائے بلکہ نبیؐ آخر زماں کے اُٹھے ہاتھوں کی لاج رکھ لی جائے ’’نگاہوں پر قابو پاکر یا چہرے کو دوسری سمت پھیر کر‘‘۔ ہمیں نیچی نگاہوں کا ادنیٰ ترین تحفہ یہ ملتا ہے کہ عزائم ورفعت ملتی ہے اور سکونِ دل نصیب ہوتا ہے بلکہ زندگی قابو میں آجاتی ہے۔ صرف ایک نگاہِ بے قابو پر قابو پانے سے۔
[email protected]
آج نبیؐ کی تعلیمات تقاضہ کرتی ہیں کہ نگاہوں کو بے قابو نہ ہونے دیا جائے۔ قرآن کی آرزو یہ ہے کہ ’’غضّ بصر‘‘ کو رواج دیا جائے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021