نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ

الجھنوں میں گرفتار نسل نو کو صحیح رخ دینے کی ضرورت

مجتبیٰ فاروق
(پی ایچ ڈی اسکالر، مانو، حیدر آباد )

 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پندرہ سال سے چوبیس سال تک کی عمر کو نوجوانی کی عمر کہا جاتا ہے۔ اسی میں بچپن اور لڑکپن کا دور (Adolescents age) بھی شامل ہیں۔ World population statistics کے ایک بیان کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں پچاس فیصد آبادی پچیس سال سے نیچے کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مذکورہ بالا تعریف کی رو سے جب ہندوستان کا تذکرہ کیا جائے تو ایک سروے کے مطابق ہندوستان کو نوجوانوں کا ملک (Country of the youth) کا درجہ حاصل ہے۔ ریفرنس بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق ایشائی ممالک میں نوجوانوں کا تناسب مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم ممالک اور معاشروں میں غیر مسلم معاشروں کی نسبت نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے۔
نوجوان ہر قوم کا اہم اثاثہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی اہمیت اور ان کا رول اقوام متحدہ نے بھی محسوس کیا اور اس تعلق سے 1985میں پہلی بار نوجوانانِ عالم کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا جس کا موضوع Participation, Development, Peace قرار پایا۔ اس کے بعد اکیسویں صدی کے آغاز سے نوجوانوں کے رول اور ان کے مسائل میں باقاعدگی سے دلچسپی لینا شروع کیا۔ 1998 میں 8 سے/12 اگست تک چلنے والی ایک کانفرنس (Conference Of Ministers Responsible For Youth) میں ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں جنرل اسمبلی نے ہر سال 12؍اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن (International Youth Day) منانے کا فیصلہ کیا اور اس کا نفاذ 2000میں ہوا۔ تب سے لے کر آج تک اقوامِ متحدہ ہر سال 12؍اگست کے دن کو نوجوانوں کے رول اور ان کے مسائل کے حوالے سے کوئی نہ کوئی عنوان مقرر کرتا ہے اور اُس دن نوجوانوں کے تئیں مختلف مسائل اور ایشوز کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ 2015 کے لیے Youth Civic Engagement کا عنوان مقرر کیا گیا تھا۔ مذکورہ عنوان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے تئیں اقوام متحدہ نے 2016 کے لیے "Eradicating Poverty and Achieving Sustainable Consumption and Production” عنوان مقرر کیا تھا تاکہ نوجوان طبقہ غربت کے خاتمہ کے لیے اور ترقی کے حصول کے لیے بیدار ہوجائے۔ 2017ء کے لیے بہت ہی اہم موضوع کا انتخاب کیا گیا جس کا عنوان "Youth Building Peace” تھا ۔ 2018 میں ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا گیا تھا جس کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی یعنی ”Safe Spaces For Youth” ۔ موجودہ دور میں نوجوانوں کا تحفظ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور آج نوجوان نسل اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہی ہے۔ اس پہلو سے یہ عنوان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 2019 کے لیے "Transforming Education” کے عنوان سے موضوع قرار پایا جس میں یہ کوشش کی گئی کہ نوجوانوں کو تعلیم کے تعلق سے ہمہ گیر انداز سے بیدا کیا جائے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے نوجوانانِ عالم کے لیے ایک اور موضوع کا انتخاب کیاجس کا عنوان "Youth Engagement for Global Action” تھا۔ اس کے ذریعہ سے مقامی سطح سے لے کے بین الاقوامی سطح تک نوجوانوں کے رول پر بحث کی گئی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کا رول کتنا اہم ہے۔
قوتوں، صلاحیتوں، حوصلوں، امنگوں، جفا کشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی، فتح و شکست، ترقی وتنزلی اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی ہو یا ملکی، سائنسی ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی۔ غرض کہ سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا رول نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے۔ روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا، عرب بہاریہ ہو یا مارٹن لوتھرکنگ (1929-1968) کا برپا کردہ انقلاب غرض کہ ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ رہا ہے۔ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعہ سے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،سماجی ہو یا عسکری ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انہی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ خیر اور شر بھی انہی کے ذریعہ سے پھیلایا جاتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں قرآن مجید نوجوانوں کی اہمیت اور رول کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا رول اس طرح سے بیان کرتا ہے :
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ نَبَأَہُم بِالْحَقِّ إِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی(الکہف:۱۳)
ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی۔ یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے وقت کے ظالم حکمراں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالمگیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں :
وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ إِلَٰہاً لَقَدْ قُلْنَا إِذاً شَطَطاً (الکہف:۱۴)
ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردئے جب وہ اٹھے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے۔
ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانہ میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسیٰ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنہوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسیٰ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّن قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِمْ أَن یَفْتِنَہُمْ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِیْ الأَرْضِ
(یونس :۸۳) ’’موسیٰ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا ‘‘۔ مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی جامع اور معنی خیز بھی ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ اور ذریۃ نوجوان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زیر نظر آیت میں نوجوانوں کی افادیت اور ان کے رول کے بارے میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح اس طرح کی ہے کہ پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے کی جرأت چند لڑکوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ ان کو خطرات سے پُر نظر آ رہا تھا۔ یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کے آبادی میں سے بھی محمد ﷺ کا ساتھ دینے کے لیے بھی جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہیں تھے بلکہ چند باہمت نوجوان ہی تھے وہ نوجوان ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقت اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ علی بن ابی طالب، جعفر طیار، زبیر بن طلحہ، سعد بن ابہ وقاص، مصعب بن عمیر، عبد اللہ بن مسعود، عبد الرحمٰن بن عوف، بلال حبشی اور صہیب رومی (رضی اللہ عنہم) کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن جراح، زید بن حارثہ، عثمان بن عفان اور حضرت عمر فاروق (رض) تیس اور پنتیس سال کے درمیان تھے۔ ان میں زیادہ عمر کے حضرت ابو بکر صدیق ؓ تھے اور ایمان لاتے وقت وہ بھی ۳۸ سال کے تھے۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ملتا ہے جن کی عمر نبی کریم ﷺ سے زیادہ تھی وہ عبیدہؓ بن حارث تھے ایک صحابی آپؐ کے ہم عمر تھے یعنی عمار بن یاسرؓ ۔‘‘
(تفہیم القرآن، سورہ یونس)
احادیث میں بھی نوجوانوں کے رول اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حاکم، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی گزاری، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، وہ لوگ جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے صدقہ پوشیدہ انداز سے کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ چل نہ سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔ (بخاری) مذکورہ حدیث میں سب سے پہلے ایک صالح نوجوان کا تذکرہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دربار میں نوجوان کثرت سے آتے تھے اور آپ ان کی تربیت میں بے حد دلچسپی لیتے تھے۔ ایک نوجوان جن کا نام ابو فراس ہے انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسول مجھے جنت میں آپ کی معیت چاہیے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو فراس! اگر جنت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو پھر تم زیادہ سے زیادہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ تمہیں محمد ﷺ کی جنت میں رفاقت مل جائے۔
نوجوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کر سکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ ۱۔ عمر کن کاموں میں گنوائی۔ ۲۔ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی۔ ۳۔ مال کہاں سے کمایا۔ ۴۔ کہاں خرچ کیا ۔ ۵۔ جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا۔ اس حدیث مبارکہ میں چار سوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا اس میں جوانی کا دور بھی شامل ہے مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمر شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کا تعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علامہ اقبالؒ نے ’’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘‘ فرمایا ہے۔ عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں اسامہ بن زید ؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں خالدؓ بن ولید ؓنے بار گاہ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دور شباب ہی میں حضرت علی ؓ حضرت مصعب بن عمیرؓ ، عمار بن یاسرؓ ، اور چار عباد اللہ جن میں ابن عمرؓ، ابن عباس، ابن زبیرؓ اور ابن عمرو ابن العاص ؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،علامہ ابن خلدون اور امام غزالی جیسے مجددین علوم کی گہرائیوں میں اترے۔ اسی دور شباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیادؒ اور محمد بن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سر زمین پر جہاں فرعون کے نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں، کو دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے کیونکہ بڑے بڑے معرکے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دئے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمون سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ایک جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۲۔ صحت کو بیماری سے پہلے ۳۔ خوشحالی کو ناداری سے پہلے ۴۔ فراغت کو مشغولیت سے پہلے ۵۔ زندگی کوموت سے پہلے ۔ ( ترمذی )
دور حاضرمیں نوجوان طبقہ بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل سے دو چار ہے تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پر یشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک طرف ناقص تعلیم و تر بیت اور حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کر دہ مسائل نے اس کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری طرف نت نئے افکار کے پیدا کردہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہوا ہے جن سے سماج کا یہ اہم طبقہ تذبذب اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل پا رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے بہ آسانی نبرد آزما ہو سکے۔ اس سلسلے میں ماں باپ، علما اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول ادا کریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں قوم وملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر رول ادا کر سکے۔ قوموں اور تحریکوں کے لیے یہی طبقہ امید کی کرن اور مستقبل کی تعمیر کا ضامن ہے۔
کشتی حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
‏عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارہ تو ہے
***

دور حاضرمیں نوجوان طبقہ بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تو دوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ ناقص تعلیم و تر بیت اور حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کر دہ مسائل نے اس کو پریشان کر رکھا ہے-مطلوبہ رہنمائی نہ ملنے کے باعث نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے ۔ اس سلسلے میں ماں باپ، علما اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول ادا کریں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021