راج موہن گاندھی
یہ کس قسم کی آگہی ہے جو بھول کی افزائش کرتی ہے۔ ظالموں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے وکیلوں کو حقوق انسانی کے بین الاقوامی اعلامیہ 1948 کی دوسری شق یاد کرنی چاہیے: ’’جب انسانی حقوق کو نظر انداز کردینے اور روند دینے کے نتیجہ میں وحشیانہ کارروائیاں ہوتی ہیں تو انسانیت کے ضمیر مجروح ہوتے ہیں۔۔۔‘‘
اس اعلامیہ کے دیگر حصوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جیسے دفعہ 10: ’’ہر شخص اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین اور اپنے خلاف کسی جرم کے الزام پر ایک آزاد اور غیر جانب دار ٹریبونل کے ذریعہ ایک شفاف اور عوامی سماعت کی مکمل برابری کا حق دار ہے۔‘‘
اور دفعہ 11کہتی ہے: ’’ہر شخص کو جس پر قابل سزا جرم کا الزام ہے یہ حق حاصل ہے کہ اسے ایک عام مقدمہ میں جو اسے اپنے دفاع کے لیے درکار ضروری ضمانتیں دیتا ہو، قانون کے مطابق خاطی ثابت ہونے تک بے قصور سمجھا جائے‘‘۔
بھیما کورے گاؤں، کشمیر، شمال مشرق، اتر پردیش، دلی اور ہندوستان میں کہیں بھی مقدمہ چلائے بغیر گرفتاریاں کسی شخص کو جو ان الفاظ کو جانتا ہو، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کو پھاڑ دینے یا انسانی ضمیر کی وجہ سے چیخنے چلانے پر آمادہ کر سکتا ہے۔
ہمارا اپنا دستور بھی یہی کہتا ہے۔ اس کی شروعات ہی ’’ہم (بھارت کے) عوام‘‘ سے ہوتی ہے۔ اس کے دیباچہ میں تمام شہریوں کے لیے آزادی، برابری، بھائی چارگی اور وقار کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ دفعات جامع لفظوں میں آزادی و مساوات کی ضمانت دیتی ہیں لیکن ہندوستان کی سڑکوں پر اپنی آواز بلند کرنا یا مارچ کرنا آج کوئی محفوظ عمل نہیں ہے۔ اب سے 90 سال پہلے اس کام میں جوکھم کم تھا، اُس دور میں بھی جب ہم برطانوی سامراج کی ایک کالونی ہوا کرتے تھے، گاندھی اور ان کے پیرو کار احتجاجیوں نے نمک قوانین کو توڑنے کا برسر عام اعلان کیا لیکن سلطنت نے گاندھی جی کو اس وقت گرفتار کیا جب تک کہ وہ اور ان کے ساتھوں نے احمد آباد تا ڈانڈی 350 کلو میٹر کا راستہ مکمل نہ کرلیا۔
85 سال کی عمر میں حالات سے میں یوں ہی حیرت زدہ نہیں ہوں۔ میں نے کب سوچا تھا کہ بادشاہ خاں کے اشد حامی یو پی کے فیصل خاں کو ضمانت سے محروم کیا جائے گا یا ہندو روایات کے احترام کی چاہت رکھنے کے جرم پر مقدمہ چلایا جائے گا؟۔
یا یہ کہ تمل ناڈو کے ۸۳ سالہ فادر اسٹین سوامی کو ہندوستان کے دوسرے حصہ میں بے بس آدی واسیوں کی حالت زار سے واقف کروانے پر دہشت گردی کی حمایت کے غیر مصرحہ و غیر یقینی الزامات پر گرفتار کیا جائے گا اور انہیں ایک شفاف اور کھلی قانونی چارہ جوئی تو درکنار، مقدمہ کا حق ہی نہیں دیا جائے گا؟
جس شد و مد کے ساتھ ہندوستان کا طاقتور طبقہ سچ بولنے والوں پر ’’قوم دشمن‘‘ اور ’’غدار‘‘ جیسے فقرے کس رہا ہے وہ ہمارے جبر و استبداد کی سطح کا ایک اشاریہ (Index) ہے۔
دیگر کئی شخصیتیں بشمول خواتین و معمرین جن میں سدھا بھردواج جیسے قانون داں بھی شامل ہیں جو امریکہ کی عیش و آرام کی زندگی کو تج کر چھتیس گڑھ کے بے گھر لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں، اور با کمال اسکالر و اگزیکٹیو آنند تل تمبڈے (بابا صاحب امبیڈکر کی نواسی رما کے شوہر) بھی کیا اسی طرح کے موہوم الزامات پر جیل میں ہوں گے اور انہیں بھی ضمانت دینے سے انکار کیا جائے گا؟
یہ سب کرتے ہوئے کیا ہندوستان کی طرف سے ہمارے حکم رانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں دنیا میں آزادی و امن کے تحفظ کی خاطر سلامتی کونسل میں ایک مستقل نشست ملنی چاہیے؟ ادھر ہندوستان کی بعض ریاستی حکومتیں ’’لو جہاد‘‘ کے فرضی خطرہ کا حوالہ دے کر مذہب یا مذاہب کی تحقیقات پر مصر ہیں اور ممکن ہے وہ جوڑوں کو شادی کی اجازت دینے سے قبل ان کے مالیات کی بھی تحقیق کریں؟ محبت اور شادی کا حق اس قدر فطری، دائمی اور آفاقی انسانی ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں اس کا تذکرہ کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی ہے لیکن ہندوستان کے موجودہ حکمراں اس حق کو چھین کر اسے ریاست کے عہدیداروں کے ہاتھوں میں تھمانا چاہتے ہیں یا اس پر روک لگانے کے درپے ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے، ہمیں لازماً پوچھنا ہوگا کہ آیا ایک ریاست یہ حکم دے سکتی ہے کہ الف اور ب یا بندو اور عبدل دام محبت میں نہیں گھر سکتے یا شادی نہیں کرسکتے؟
بلا شبہ اس معاملہ میں ہندوستان اکیلا نہیں ہے۔ یہ جابرانہ خیال کہ ملک سب کا نہیں بلکہ ایک غالب طبقہ کا ہے، ایک ایسا خیال ہے جسے بسا اوقات نسلی قوم پرستی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ نے کئی اقوام پر اپنی گرفت بنائے رکھی ہے۔ 2016 میں ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی پر قبضہ کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے چار برسوں کے لیے امریکہ میں اپنی کامیابی کو اسی کی علامت بنائے رکھا لیکن امریکی عوام نے انہیں ووٹ کے ذریعہ بے دخل کر دیا۔
دنیا نے رائے دہندوں کے انتخاب کو الٹ دینے کی ٹرمپ کی مایوسانہ کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے جارجیا میں ری پبلکن سکریٹری آف اسٹیٹ براڈ رابن اسپرجر پر جنہوں نے ووٹوں کی گنتی اور دوبارہ گنتی کی نگرانی کی تھی ’’عوام کا دشمن‘‘ جیسا فقرہ کسا ہے۔ تاریخ میں ’’عوام کے دشمن‘‘ ’’غدار‘‘ اور قوم دشمن ایسے فقرے ہیں جو جابر حکومتیں انہیں بے آرام کرنے والی سچائیوں کو اجاگر کرنے والوں پر چسپاں کرتے رہے ہیں جس کی باز گشت ہم ہندوستان میں بھی سن رہے ہیں۔ یہاں کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بات کرنا واضح طور پر ممنوع ہوچکا ہے اور قوم دشمنی کی تعریف میں آتا ہے۔ یہ سوال لازماً کیا جانا چاہیے کہ اگر کوئی تبتیوں اور زنجیانگ کے یغور باشندوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے، تب تو ٹھیک ہے لیکن جب ہندوستانی یا غیر ہندوستانی لوگ کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ٹھیک نہیں ہے؟ جہاں قائدین ناکام ہو جاتے ہیں وہاں شہریوں کو لازماً رہنمائی کرنی چاہیے۔ ہندوستان میں انسانی حقوق کی لڑائی میں اسی وقت پیشرفت ہوسکتی ہے جب ہندو، اکثریت کے ذی اثر طبقات بلا لحاظ قابلیت اس امر کو تسلیم کریں کہ دلت، آدی واسی اور مسلمان مساوی انسانی حقوق رکھتے ہیں۔ جب یہ تسلیمیت ہمارے روز مرہ کے مباحث کا حصہ بنے گی تو پھر سرکاری اداروں اور ہمارے میڈیا کے اندر اس کی پذیرائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ایک اور سوال: کیا ایک ایسے ہندوستان میں جو برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں معمولی اقلیت پر مشتمل ہندوستانی نژاد افراد کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہونے پر مسرور ہو جاتا ہے، کیا مناسب نمائندگی کو ایک انسانی حق نہیں ہونا چاہیے؟
تاہم کرناٹک میں جہاں مسلمان آبادی کا 13 فیصد ہیں، بی جے پی کا ایک وزیر بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کسی مسلمان کو ہماری پارٹی کا ٹکٹ حاصل نہیں ہوگا، اتر پردیش میں جہاں مسلمان 19 فیصد ہیں 403 رکنی ایوان میں بی جے پی کے 300 ارکان اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو کچلنا حالیہ عرصہ میں ایک عیاں حقیقت بن چکا ہے۔ آزادی کے بعد پہلی چھ دہائیوں میں مسلمان ایک صدر، نائب صدر، ایک کابینی وزیر، ایک گورنر، چیف جسٹس، ایک چیف منسٹر، ایک فوجی سربراہ یا ایک پولیس سربراہ بن سکتے تھے۔ ہندوستان کبھی اپنے دامن میں اصول طے کرنے والے ایسے قائدین رکھتا تھا جو برسر عام، پوری قوت اور تکرار کے ساتھ امتیازات یا ڈرانے دھمکانے کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے لیکن آج کے اعلیٰ سیاستدان برے خیالات اور بری نیت رکھتے ہیں اور اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔ سڑک سے گزرنے والے عام ہندوستانیوں کو یہ چیلنج کیا جاتا ہے ’’رہنا ہے تو کہنا ہوگا‘‘۔ اس کی ضرب ایک حملے جیسی ہی ہوتی ہے۔ نعرہ بلند نہ کرنا یعنی خاموش رہنے کا حق ایک مقدس انسانی حق ہے۔ اگر آپ کوئی بات کہنا چاہتے ہیں یا نعرہ بلند کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، آپ ایسا کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنے دل کی بات پوری قوت سے اور اپنے پھیپھڑوں کی گنجائش کے لحاظ سے کہنا چاہتے ہیں تو اس وقت تک کیجیے جب تک آپ میرے کانوں کے قریب نہ ہوں۔ اس میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن مجھے کہنے، سرگوشی کرنے، نعرہ لگانے یا اشارہ کرنے پر مجبور تو نہ کریں چاہے آپ کے لیے اس کے معنی کتنے ہی نیک کیوں نہ ہوں۔ میں اپنے دل کا مالک ہوں، اور آپ میرے ملک کے مالک نہیں ہو جس کے لیے میں نے خواب دیکھے ہیں۔ میں ایک ایسی سرزمین چاہتا ہوں جہاں سب ایک دوسرے کے وقار کا احترام کریں۔
73 سال پہلے 1947 میں آزادی والے اگست کے ایک پر مسرت دن گاندھی جی کلکتہ میں تھے۔ جب ایک پرجوش گروپ نے شہر میں برطانویوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ لگائیں تو انہوں نے قیاس کے عین مطابق اسے پسند نہیں کیا تھا۔ سامراج کے خاتمہ کے مقصد سے شروع کردہ ایک طاقتور تحریک کے عروج کے زمانہ میں زائد از دو دہے قبل گاندھی نے ’’ینگ انڈیا‘‘ میں لکھا تھا ’’میں اپنے دشمنوں سے محبت پر یقین رکھتا ہوں، مجھے اپنے اخلاق سے ہر انگریز پر یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستان کے کسی دور افتادہ کونے میں بھی محفوظ ہے بالکل اسی طرح جیسے وہ مشین گن کے پیچھے خود کو محفوظ خیال کرتا ہے‘‘۔
اب جب کہ 2020 ختم ہو چکا ہے، کیا ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے وطن کے دور افتادہ گوشوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کے مقامات پر آدی واسی اور مسلمان سہمے ہوئے ہیں؟ حکومت کی بندوق یا لاٹھی کا رخ اکثر انہی کی طرف ہوتا ہے بجائے اس کے کہ خطرہ سے دوچار ہندوستان کا دفاع کیا جائے۔
رائے دہی اور انتخابات اہم ہیں۔ تاہم ووٹ سے زیادہ شہری کے دل میں ایک خاموش آگ بالآخر ہمارے گم کردہ حقوق کو بحال کرسکتی ہے۔ یہ پر سوز دل، ایک پولیس افسر، ایک مجسٹریٹ، ایک جج، ایک ٹیچر، ایک رکن اسمبلی، ایک ٹی وی اینکر، ایک شاعر یا کسی کے بھی سینے میں ہو سکتا ہے۔
(بہ شکریہ آوٹ لُک، 18جنوری 2021)
رائے دہی اور انتخابات اہم ہیں۔ تاہم ووٹ سے زیادہ شہری کے دل میں ایک خاموش آگ بالآخر ہمارے گم کردہ حقوق کو بحال کرسکتی ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021