نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست پر جواب دینے کے لیے دہلی ہائی کورٹ نے مرکز کو 3 ہفتوں کا وقت دیا
نئی دہلی، فروری 27— دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کو مرکزی حکومت کو شمال مشرقی دہلی تشدد کی ایس آئی ٹی تحقیقات اور بی جے پی رہنماؤں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے لیے ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست پر اپنا جواب داخل کرنے کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی۔ عدالت اس کیس کی اگلی سماعت 13 اپریل کو کرے گی۔
چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل بنچ نے دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کی پیش کش کو قبول کیا کہ صورت حال ایف آئی آر کے اندراج کے لیے "سازگار” نہیں ہے۔
بنچ نے اپنے حکم میں نوٹ کیا ’’ایس جی نے عدالت کے سامنے پیش کیا تھا کہ یونین اس معاملے پر قابو پا لے گی۔ مزید یہ بھی پیش کیا گیا کہ یونین نے تمام ویڈیوز دیکھیں اور مناسب کارروائی کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے کیونکہ آج کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ دہلی حکومت کے قائمہ وکیل راہل مہرا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اب تک 48 ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں۔ ان پیش رفتوں کی روشنی میں یونین آف انڈیا کو جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی ہے۔‘‘
ایک مختلف بنچ، جس نے کل اس کیس کی سماعت کی تھی، نے دہلی پولیس کی "سازگار” دلیل کو قبول نہیں کیا تھا اور دہلی پولیس کمشنر کو 24 گھنٹوں کے اندر نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں ایف آئی آر کے اندراج کے بارے میں "ہوش سے فیصلہ لینے” کا حکم دیا تھا۔ جسٹس ایس مرلی دھر اور تلونت سنگھ کی بنچ نے کمرہ عدالت میں مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما اور کپل مشرا سمیت بی جے پی کے کچھ رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقاریر دیکھنے کے بعد یہ حکم منظور کیا تھا۔
شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تین دن تک جاری رہنے والے بڑے پیمانے پر تشدد پر جسسٹس مرلی دھر اور سنگھ کی بنچ پولیس اور حکومت پر بھاری طور پر اتر آیا تھا جس میں کم از کم ایک پولیس اہلکار سمیت تین درجن کے قریب افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ممتاز حقوق کارکن ہرش مندر کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے بنچ نے کہا تھا: ’’ہم اس شہر میں 1984 کا دوسرا منظر نامہ نہیں ہونے دے سکتے ہیں۔ اس عدالت کی نگرانی میں نہیں۔‘‘ بنچ نے ایڈووکیٹ زبیدہ بیگم کو بھی متاثرہ افراد کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے اور اس عدالت کے احکامات پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے عدالت کے نوڈل افسر کی حیثیت سے کام کرنے کا تقرر کیا۔ وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ انھیں ضروری مدد فراہم کرے۔ عدالت نے مرکزی اور دہلی حکومت میں حکام سے متاثرین تک پہنچنے کو بھی کہا تھا۔
تاہم ہائی کورٹ کے حکم کے چند گھنٹوں بعد بنچ کے ایک جج جسٹس ایس مرلی دھر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں منتقل کردیا گیا۔
جمعرات کی صبح کانگریس پارٹی نے جسٹس مرلی دھر کی راتوں رات منتقلی کے حکومتی اقدام کی مذمت کی۔
واضح رہے کہ شمال مشرقی دہلی میں بی جے پی رہنما کپل مشرا نے علاقے میں سی اے اے کے حامی ریلی کی قیادت کی اور پولیس کو سی اے اے مخالف مظاہرین کی سڑکیں صاف کرنے کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا، بصورت دیگر اس کے لوگ سڑکوں پر آجاتے اور پھر پولیس کو بھی نہیں سنتے اس کے فورا بعد ہی اتوار کی سہ پہرسی اے اے کے حامی اور مخالف مظاہرین کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں اور اگلے دو دن- پیر اور منگل- کو شمال مشرقی دہلی کے متعدد حصوں میں بڑے پیمانے پر تشدد دیکھا گیا جس میں (جمعرات کی سہ پہر تک) 35 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں- ان میں سے بہت سے افراد شدید زخمی ہیں- اس کے علاوہ دکانوں، گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا۔