نصب العین کے تعین کے بغیر حقیقی کامیابی کا تصور ناممکن

برائیوں کا سیلاب روکنے حکمت عملی ناگزیر۔نوجوان، سوشل میڈیا میں اپنی سرگرمی مؤثر بنائیں

محمد صادر ندوی

 

موجودہ دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیوی نظام معاملات میں جس قدر آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں۔ ہر باشعور اور عقلمند قوم، سیاست واقتصادیات، معاشرت وتجارت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اپنے افکار ونظریات، تہذیب وتمدن، کلچر اور اپنے مشن کے فروغ کے لیے اس کا استعمال کر رہی ہے۔ لیکن امت داعیہ ہونے کی حیثیت سے اپنے دین کی تبلیغ، اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت، اس کے کلچر وثقافت کو فروغ دینے میں ہم مسلمانوں کا جو کردار ہونا چاہیے تھا وہ مفقود نظر آتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس کا استعمال اپنے مفاد میں کریں ہماری اکثریت دشمنوں کے جال میں پھنس کر خود ان کی مدد کرتی ہے اور ان کے غلط مقاصد کی تکمیل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کا ساتھ دیتی ہے۔
جنوری 2021 کے سروے کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 4.66 بلین ہے۔ یعنی دنیا کی کل آبادی کا 59.5 حصہ اس کا استعمال کرتا ہے۔ اگر ہم ممالک کے اعتبار سے دیکھیں تو 2019 کے سروے کے مطابق چین، ہندوستان اور امریکہ بالترتیب سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ممالک ہیں۔ چین میں اس کے یوزرس کی تعداد 854 ملین ہے جب کہ ہندوستان میں 560 ملین ہے۔ اس طرح ہمارا ملک انٹرنیٹ کے معاملہ میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی اتنی کثیر تعداد دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کو اگر ایک ملک تسلیم کرلیا جائے تو دنیا کا نصف سے زائد حصہ اس ملک میں بستا ہے، پھر کیوں کر یہ ضروری نہ ہو کہ ہم اس کے استعمال کو ناگزیر سمجھیں۔افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے درمیان اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اس کے جائز وناجائز ہونے پر بحث کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس کی حیثیت سیلاب کے اس تیز بہاؤ کی مانند ہے جسے روکنے کی سعی لا حاصل ہے البتہ اسے صحیح رخ دینے میں خیر ہے۔ قرآن اور سیرت کے واقعات میں اس طرف واضح اشارات موجود ہیں کہ زمانہ کے تقاضوں کے لحاظ سے دعوت دین کے وسائل اختیار کرنا ہی اسلام کی بہترین خدمت ہے نہ کہ اس سے دوری، انحراف اور روگردانی کرنا؟ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ’’ ھد ھد ‘‘ نامی پرندہ کو خبر رساں کے طور پر استعمال کیا جس کا تذکرہ سورۃ النمل میں تفصیل سے موجود ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام کی دعوت کے لیے اپنے زمانے میں رائج دعوت کے تمام طریقوں (ذرائع ابلاغ ) کو اختیار کیا۔ چنانچہ ان کے درمیان خطابت کا زور تھا تو اللہ نے آپ کو خطابت کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا۔ قوم کو کسی اہم خبر سے مطلع کرنے کے لیے کوہ صفا پر چڑھ کر ندا لگائی جاتی تھی۔ آپ نے کھلم کھلا دعوت کا آغاز اسی مقام سے کیا۔ جب دشمنانِ اسلام نے شاعری کے ذریعہ اسلام اور شارح اسلام کی ہجو کی تو حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد اللہ بن رواحہ کی شکل میں شعرائے اسلام نے ان کا جواب انہیں کی زبان میں دیا۔ شاہان وملوک عجم کو دعوت دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تو زمانے کے اصول کے مطابق خط وکتابت کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ دعوت وتبلیغ کے لیے رائج الوقت ذرائع کا استعمال اسلام میں مطلوب ہے نہ کہ ممنوع۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے نقصانات
قبل اس کے کہ میڈیا کے صحیح اور مؤثر استعمال پر گفتگو ہو، یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد ہیں، وہیں اس کے بہت سے ایسے نقصانات ہیں جن سے دور رہنا بے حد ضروری ہے :
حقائق سے فرار:
یہ زندگی کی تلخیوں اور شیرینیوں سے فرار کا راستہ دکھاتا ہے۔ انٹرنیٹ کی اس معاشرت میں حقائق کے اعتراف (Recognising the Reality) اور اس کا سامنا کرنے (Facing the Reality) سے زیادہ حقائق کی تخلیق (Creating the Reality) کا داعیہ کام کرتا ہے۔ چنانچہ اس معاشرہ میں ایک معذور آدمی خود کو تندرست ظاہر کرتا ہے۔ ساٹھ سال کا بوڑھا خود کو ایک خوبصورت نوجوان کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ مصنوعی زبان، مصنوعی ذخیرۂ الفاظ، مصنوعی تہذیبی علامات، مصنوعی رشتے، مصنوعی تعلقات، مصنوعی سودے اور مصنوعی دولت۔ غرض وہاں کی ہر شئی مصنوعی اور مرضی کے موافق نظر آتی ہے۔
تشخص کا خاتمہ:
تعلقات وروابط کی اس دنیا میں آدمی کا تشخص اور پہچان نہ صرف اس کی مرضی کے مطابق تشکیل پاتی ہے بلکہ ضرورت اور خواہشات کے تحت بدلتی بھی رہتی ہے۔ مرد جب چاہے عورت بن جاتا ہے، عورت جب چاہے مرد بن جاتی ہے اور یہ محض ڈرامہ نہیں ہوتا بلکہ تبدیل شدہ شناخت کے اپنے جذبات، داعیات اور حوصلے ہوتے ہیں۔ یعنی حقیقی مرد کا سائبرستانی نسوانی وجود، خالص نسوانی جذبات کے تحت کام کرتا ہے۔اہلِ اسلام کے لیے سب سے اہم اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ نفاق کی بد ترین قسم ہے۔
حقیقی سماجی ربط کا فقدان :
حقیقت کی دنیا میں انسان کی خوبیوں، خامیوں، کمالات واوصاف سے اس کے گرد وپیش میں رہنے والے لوگ واقف ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ دوسروں کی اچھائی اور برائی کا اثر لیتا ہے اور خود بھی ان پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن انٹرنیٹ اور سائبرستان کی دنیا میں چوں کہ آدمی اپنی شناخت خود ڈیزائن کرتا ہے اس لیے وہ خود کو خوابوں کے ایسے شہزادے کی حیثیت سے پیش کرتا ہے جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کوہ قاف کی پریاں قطار لگائے کھڑی ہوں۔ یہاں کی ہر چیز چوں کہ اس کی مرضی کے موافق ہوتی ہے اس لیے وہ حقیقت کی اس دنیا سے کترانے لگتا ہے جہاں دوسرے افراد پر اس کی خوبیاں اور خامیاں دونوں اجاگر ہوتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں سماج دھیرے دھیرے کمزور پڑنے لگتاہے۔
یک رنگی:
تمدن، متنوع دلچسپیوں، مختلف صلاحیتوں اور افکار ونظریات کے تعامل سے پروان چڑھتا ہے۔ یہاں کی دنیا میں انسان کو اپنے سے مختلف مزاج رکھنے والے بے شمار افراد سے تعلق رکھنا پڑتا ہے جو تہذیب وتمدن اور انسانیت کی ارتقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ لیکن سائبرستانی دنیا قدرت کے اس قانون سے بغاوت کرتی ہے۔ اگر کسی کو کیمسٹری سے دلچسپی ہے تو اس کی دنیا صرف کیمیا دانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے شب وروز صرف اسی کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ اس کے علاوہ چیزوں سے اسے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہاں رشتے، تعلقات اور روابط یک رنگ جزیرے میں محدود ہیں نہ مذاکرات کی گنجائش ہے نہ تبادلہ افکارکی۔
خاندانی نظام کا انحطاط :
سائبرستانی دنیا میں گم ہوجانے کی وجہ سے حقیقی خاندانی زندگی پر کتنا اثر پڑ رہا ہے اس کے اثرات اور نتائج آئے دن ہم اخباروں اور نیوز چینلوں میں دیکھتے رہتے ہیں۔
نشہ یا لت:
سائبرستانی دنیا کا سب سے بھیانک پہلو اس کی نشہ یا لت (Addiction) بننے کی صلاحیت ہے۔ نفسیاتی معالجین لمبے مباحث کے بعد اب اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ آئی، اے، ڈی(Internet Addiction Disorder) باقاعدہ ایک مرض ہے۔ ڈاکٹر رہین گولڈ نے انٹریٹ کو پلگ ان ڈرگ (Plug in drug) کا نام دیا ہے۔ یعنی ایسی نشہ آور دوا جسے پلگ لگا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس مرض کا شکار صرف کمپیوٹر میں دلچسپی لیتا ہے۔ بیوی، بچوں، پیشہ وکیرئر اور زندگی کی دیگر سرگرمیوں سے اس کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ اس مرض کا شکار نوجوان بچوں اور بچیوں کے ساتھ وہ گھریلو خواتین بھی ہیں جو دن کا اکثر وقت اکیلے گزارتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:سائبرستان، سوشل میڈیا اور مسلم نوجوان۔ از سید سعادت اللہ حسینی، ص؍۷ تا ۱۷)۔
سوشل میڈیا کا صحیح اور مؤثر استعمال
سائبرستان اور سوشل میڈیا کے نقصانات پر بحث کرنے کے بعد ذہن میں یہ سوال اٹھنا ضروری ہے کہ پھر اس کو کیسے مؤثر بنایا جائے اور اس کا صحیح استعمال کیسے کیا جائے؟ اس سلسلے میں چند چیزیں قابل غور ہیں جن پر عمل کرنے سے ممکن ہے کہ اس میں ہمارا کردار بھی مؤثر ہوگا اور نوجوانوں کے استعمالات کو صحیح رخ بھی مل سکے گا:
نصب العین کا تعین:
نصب العین کے تعین کے بغیر زندگی کے کسی بھی میدان میں حقیقی کام یابی کا تصور ناممکن ہے۔ مثلاً ہم اس کا استعمال وقت کو ضیاع سے بچانے، جلدی معلومات حاصل کرنے، زندگی کی دوڑ دھوپ میں سہولت پیدا کرنے، دور رہنے والے عزیز واقارب سے رابطہ کرنے، اسلام کی دعوت وتبلیغ، ایک دوسرے کی تربیت، سماجی جد وجہد وغیرہ کرنے کے لیے کرتے یا کر سکتے ہیں۔ جب مقصد کا تعین ہو گیا تو پھر ان کے علاوہ چیزوں پر (بالخصوص مادی اور حیوانی خواہشات کی تسکین کا سامان، جذبات کو برانگیختہ کرنے والی حیا سوز اور عریاں مناظر، اسی طرح ایسی ویڈیوز جو بظاہر معلوماتی اور فائدہ مند نظر آتی ہوں لیکن ان میں وقت کا ضیاع ہو) قطعاً ہماری توجہ مرکوز نہیں ہونی چاہیے۔
صحیح پلیٹ فارم کا انتخاب:
علمی کاموں کے لیے مناسب ترین پلیٹ فارم اکیڈمیا (Academia) ہے۔ اس کے واسطے سے دنیا بھر کی لائبریریز سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ پروفیشنل نیٹ ورکنگ کے لیے مناسب ترین لنکڈان (Linkedin) ہے۔ یہ ایک امریکن پروفیشنل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں پر آپ اپنے experience صلاحیت وقابلیت (skills) اور (details (share کر سکتے ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوز کے لیے انسٹاگرام (Instgram) ہے۔ آن لائن تصاویر اور میڈیا کی شیئرنگ کے لیے پنٹریسٹ (Pintrest) ہے۔ اہم خبروں، لوگوں کے رجحانات اور افکار ونظریات سے واقفیت کے لیے Twitter اور YouTube وغیرہ ہیں۔‘ اپنے ماتحت کو مذکورہ پلیٹ فارمس، اسی طرح اہم معلوماتی اور اسلامی ویب سائٹس، ان سے استفادہ کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرنا اور ساتھ ہی وقت کی تحدید بھی کرنا اور وقت مقررہ سے زائد استعمال پر روک لگانا کیوں کہ انٹرنیٹ کی شعاعوں کا اثر انسان کے ذہن ودماغ پر بھی پڑتا ہے۔‘ یہ کوشش ہو کہ تنہائی میں حد درجہ انٹرنیٹ کےاستعمال سے گریز کیا جائے ورنہ پھر شیطان اپنے جال میں پھنسانے میں دیر نہیں کرتا۔
اپنے ماتحت اسی طرح کم سن بچوں کو زیادہ سے زیادہ مشغول رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان کی توجہ موبائل کی طرف کم ہو جائے، ساتھ ہی ان کے سامنے اس کے استعمال سے بھی گریز کیا جائے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر ہی رنگ پکڑتا ہے۔
تحقیق کے بغیر کسی بات کو فارورڈ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو تحقیق کیے بغیر دوسروں سے بیان کردے‘‘ ۔
دین کے جزوی اور اختلافی مسائل پر بے جا بحث ومباحثہ کو سوشل میڈیا پہ نہ لایا جائے اور نہ اپنی زبان سے غیر مہذب الفاظ کا استعمال کیا جائے کہ اس سے ہمارے دین کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور دشمنوں کو ہمارے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘ ایسے pages, groups اور شخصیات سے وابستہ رہیے جن کے افکار مثبت ہوں۔ منفی سوچ رکھنے والی جماعتوں، تحریکوں اور افراد سے جس طرح داخلی (حقیقی) دنیا میں دور رہنا ضروری ہے اسی طرح خارجی دنیا یعنی سوشل میڈیا کی دنیا میں بھی دور رہیے۔‘ اگر دل بہلانے کے لیے یوٹیوب وغیرہ پر کچھ دیکھنا ہی ہو تو ایسی چیزوں کا انتخاب کیجیے جن سے آپ اور آپ کے متعلقین کے اندر بلند حوصلہ، محنت اور مسابقت کا جذبہ، اچھائی کی ترغیب، غلط کاموں پر ٹوکنے کا جذبہ پیدا ہو۔‘
زمانہ کا ایک اصول ہے ’’الحدیدُ بالحدید ِیُفلِحُ‘‘ لوہا لوہے ہی سے کاٹا جا سکتا ہے۔ آج جس تیزی اور کثرت سے فلمیں، سیریلز اور ویب سیریز بنائی جارہی ہیں اور ان کو جس قدر عام کیا جا رہا ہے، ان سے بچنا ناممکن سا لگتا ہے۔ ایسے وقت میں اگر ہم صرف وعظ ونصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں تو شاید ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ ہمیں اس زہر کے تریاق کے طور پر اس میدان میں بھی آگے آنا ہوگا۔ اس سلسلےمیں ہمارے بہت سے دانشوروں نے اس طرف لوگوں کی توجہ دلائی ہے اور عملی طور پر پیش قدمی بھی ہوئی ہے لیکن اتنے بڑے سیلاب کے مقابلہ میں ہماری محدود دائرہ کی کوشش بالکل ناکافی ہے۔ ہمیں ایک لائحہ عمل کے ساتھ اس جانب مکمل پیش قدمی کرنی ہو گی اور اس میں چند امور کی رعایت مناسب ہو گی:اسلام کا تعارف جس طرح تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح شارٹ فلم اور ویڈیوز کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ تعلیمات قرآنی کی روشنی میں اسلامی سوسائٹی کس نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کے نمایاں خدوخال کو اجاگر کیا جائے اور یہ دکھایا جائے کہ اس میں جینے والا ہر فرد کس قدر امن وامان سے زندگی بسر کرتا ہے، اسی طرح وہ مسائل جن کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں اعتراضات ہیں ان کی حقیقی صورت کو تمثیلی طور پر پیش کیا جائے۔ نیز اسلامی معاشرہ کا غیر اسلامی معاشرہ سے موازنہ پیش کیا جائے کہ ایک وہ سوسائٹی جو بے جا رسومات میں جکڑی ہوئی ہے۔ شادی بیاہ، نکاح، طلاق، وراثت، سیاست، معاملات، تجارت وزراعت اور انفرادی واجتماعی زندگی میں ظلم وناانصافی اور کرپشن کا شکار ہے۔ دوسری طرف وہ معاشرہ جو خالص اسلامی اصولوں پر قائم ہے اس میں کس قدر امن وسکون ہے، ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق دیا جا تا ہے، وہاں اخوت ومساوات کا درس ہی نہیں بلکہ عملی نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے، اس معاشرہ کا حاکم مخدوم نہیں بلکہ قوم کے خادم کی شکل میں ہوتا ہے۔
اس طرح کی اسلامی فلموں کے ذریعے ہم صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ برادران وطن کے ذہن ودماغ کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ تجویز بظاہر تو یہ صرف ایک خام خیالی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس طریقے سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیوں کہ جب ایک جھوٹ کو دس مرتبہ دہرا کر سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تو پھر ایک سچ کو سچ کہنے میں جھجک کیوں اور اس کا فائدہ کیوں کر نہ ہو؟ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم عزم مصصم کے ساتھ میدان میں اتریں اور احساس کمتری کو بالائے طاق رکھ کر اپنی کوشش کو مزید سے مزید تیز تر کرتے چلے جائیں۔
آخر میں اس کے موثر استعمال کی مثالیں دینا موضوع سے غیر متعلق نہ ہو گا۔ الحمد للہ ہمارے بعض اسلامی اسکالر سوشل میڈیا (بالخصوص یو ٹیوب) کے ذریعے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بر صغیر میں مولانا طارق جمیل، مفتی طارق مسعود، انجینئر محمد علی مرزا، ڈاکٹر ذاکر نائک، قاسم علی شاہ اور ان کے علاوہ خاصی تعداد ہے جو اس پلیٹ فارم کے ذریعے اسلامی دعوت واصلاح کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ جو اس کے مؤثر استعمال سے غافل ہے اس طرف ان کی توجہ مبذول کرائی جائے اور اس کے مضر پہلووں سے روشناس کراتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کیا جائے۔
(مضمون نگار ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی،علی گڑھ میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے وابستہ ہیں )
***

اسلام کا تعارف جس طرح تحریروں اور تقریروں کے ذریعے کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح شارٹ فلم اور ویڈیوز کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ تعلیمات قرآنی کی روشنی میں اسلامی سوسائٹی کس نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کے نمایاں خدوخال کو اجاگر کیا جائے اور یہ دکھایا جائے کہ اس میں جینے والا ہر فرد کس قدر امن وامان سے زندگی بسر کرتا ہے، اسی طرح وہ مسائل جن کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں اعتراضات ہیں ان کی حقیقی صورت کو تمثیلی طور پر پیش کیا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021