نادانستہ لغزش یا غداری؟ ایک کشمیری طالبہ کی آزمائش

ایک پوسٹ، ایک خوف اور ایک فیصلہ: عدلیہ نے انصاف کی لاج رکھ لی

شاہجہاں مخدوم

2019ء کے بعد سے ہندوستان میں قوم پرستی کی ایک نئی شکل نے عوامی و شخصی زندگی کے خد و خال کو تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون (CAA) سے لے کر سوشل میڈیا پر کی گئی ایک پوسٹ تک ہر عمل کو اب ’’محب وطن‘‘ یا ’’غدار‘‘ کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر کشمیری عوام اور مسلم طلبہ کے تئیں سماجی بدگمانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے ہی ایک افسوسناک اور چشم کشا واقعہ میں پونے کی ایک کشمیری طالبہ محض ایک سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر نہ صرف اپنی تعلیم سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہوئی بلکہ اس کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا۔
اس طالبہ نے ’’آپریشن سندور‘‘ سے متعلق ایک پوسٹ شیئر کی تھی۔ یہ پوسٹ اس کی ذاتی تحریر نہ تھی اور نہ ہی اس میں اس کی طرف سے کوئی ذاتی رائے شامل تھی۔ اس نے فوراً پوسٹ کو حذف کر دیا اور اپنے فعل پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ اس کے باوجود اس پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا، پولیس نے اسے حراست میں لے لیا اور تعلیمی ادارے نے اس پر داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ یہ واقعہ 2016ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) کے طالب علم لیڈر کنہیا کمار کی گرفتاری کی یاد دلاتا ہے، جس پر محض چند نعرے لگانے کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا، باوجود اس کے کہ ثبوت موجود نہ تھے۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کے مطابق تعزیراتِ ہند کی دفعہ 124A (غداری) کو اب اختلافِ رائے کو دبانے کا آلہ بنا دیا گیا ہے۔ 2014ء سے 2021ء کے درمیان غداری کے 325 مقدمات درج کیے گئے مگر صرف 6 مقدمات میں سزا سنائی گئی۔ یعنی 98 فیصد مقدمات بے بنیاد ثابت ہوئے، جبکہ ان مقدمات کے شکار افراد کو سماجی بائیکاٹ، تعلیمی رکاوٹوں، ملازمتوں کے خاتمے اور ذہنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس ڈیٹا کو پونے کی طالبہ کے واقعہ سے جوڑا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح قانونی خوف کے تحت نوجوانوں کے اظہارِ خیال کی آزادی کو کچلا جا رہا ہے۔
اس واقعہ میں کشمیر سے جڑی ہوئی سماجی تعصبات کی جھلک بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ 2019ء میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پورے ملک میں کشمیری باشندوں کے خلاف بد اعتمادی کی فضا اور زیادہ گہری ہو گئی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، پلوامہ حملے کے بعد محض دس دنوں کے اندر ملک کی گیارہ ریاستوں میں کشمیری طلبہ پر حملے درج ہوئے۔ اب کشمیری شناخت بھی شک کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی ہے۔
ایسے پس منظر میں ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ محض قانونی حکم نہیں بلکہ اخلاقی و سماجی رہنمائی کا ایک دستاویز ہے۔ جسٹس گوری گوڈسے اور جسٹس سوماسیکھر سندریسن نے قرار دیا کہ طالبہ کا عمل ایک ’’نادانستہ لغزش‘‘ تھا جس میں بدنیتی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ عدالت نے طالبہ کی عمر، ذہنی بلوغت اور اس کے اصلاحی اقدامات کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ یہ فیصلہ تعلیمی اداروں کے لیے ایک آئینہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
تعلیمی اداروں کو محض سزا دینے والے دفاتر نہیں بلکہ سیکھنے، سمجھنے اور کردار سازی کی جگہ ہونا چاہیے۔ جب اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں فوری طور پر معطلی یا اخراج جیسے سخت اقدامات کرتی ہیں تو وہ اپنی اخلاقی قیادت سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کا کردار صرف قانون کی پابندی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ ’’سماجی ضمیر‘‘ کا مظہر بھی ہونے چاہیے۔ مگر آج کے دور میں بیشتر ادارے خوف کے تحت فیصلے کر رہے ہیں۔
اسی سلسلے میں پروفیسر علی خان محمودآباد کا مقدمہ بھی قابلِ ذکر ہے، جنہوں نے اظہارِ رائے کی آزادی پر عائد پابندیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ انہوں نے کہا: ’’نظریاتی غلطی کی اصلاح ممکن ہے مگر اس پر کسی کو تعلیمی حق سے محروم کرنا نا انصافی ہے۔‘‘
ممبئی ہائی کورٹ نے بھی اسی طرزِ فکر کو اپنایا۔ عدالت نے تعلیمی ادارے سے پوچھا: جب پوسٹ حذف کر دی گئی، معذرت کر لی گئی اور اس میں کسی ذاتی رائے کا دخل نہ تھا تو پھر طالبہ کو تعلیم سے محروم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ عدالت نے ادارے کے اقدام کو ’’غیر معقول خوف پر مبنی ردِ عمل‘‘ قرار دیا۔
یہ واقعہ ہمارے لیے ایک وسیع تر سماجی پیغام کا حامل ہے: ہم ایک ایسے معاشرے میں ڈھلتے جا رہے ہیں جہاں اظہار کو ایک امکان کے بجائے خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس رجحان کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں پر پڑ رہا ہے۔ ان کی معمولی لغزشوں کو جرم میں تبدیل کر دیا جا رہا ہے۔ خوف اور قوم پرستی کا یہ گٹھ جوڑ ہمارے سماجی تانے بانے کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
ایسے نازک حالات میں عدالتی استدلال ایک سہارا ضرور ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک وسیع تر معاشرتی مکالمے کی ضرورت ہے، جہاں اسکول، کالج، والدین اور میڈیا مل کر نئی نسل کو قانونی شعور، اظہار کی ذمہ داری اور فکری آزادی کی قدر سکھائیں۔ بصورتِ دیگر، سوچ سہمے ہوئے ذہنوں میں گھٹتی رہے گی اور حب الوطنی محض کھوکھلے نعروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
(شاہجہاں مخدوم سینئر صحافی اور مراٹھی ہفت روزہ ’’شودھن‘‘، ممبئی کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں)

 

***

 عدالتی اعداد و شمار اس تلخ حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہندوستان میں غداری کے بیشتر مقدمات آخر کار بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں مگر اس دوران متاثرہ افراد کو جو اذیتیں سہنی پڑتی ہیں، تعلیمی رکاوٹیں، ملازمتوں کا ضیاع، ذہنی دباؤ اور سماجی تنہائی—وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ کشمیر سے وابستہ تعصبات اور وہاں کے باشندوں کو مسلسل شک کی نگاہ سے دیکھنے کا رجحان بھی اسی نا انصافی کا حصہ ہے جو مذکورہ طالبہ کے خلاف سخت کارروائی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس تناظر میں ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ محض ایک قانونی حکم نہیں بلکہ سماجی شعور کا آئینہ ہے جس میں طالبہ کے عمل کو بدنیتی پر مبنی جرم کے بجائے ایک نادان لغزش تسلیم کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا گیا کہ معذرت اور اصلاحِ حال کے باوجود تعلیم کے حق سے محرومی کا کیا جواز باقی رہتا ہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025