مولانا سید جلال الدین عمری کی علمی خدمات
اہم موضوعات پر وقیع کتابوں کی تصنیف کے ساتھ ساتھ دینی، ملّی، دعوتی وتحریکی سرگرمیوں میں فعال شرکت
رضی الاسلام ندوی
مولانا سید جلال الدین عمری برصغیر ہندو پاک کے ان چند ممتاز علماء میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کی تفہیم وتشریح کے لیے گرانقدر لٹریچر فراہم کیا ہے۔ اسلام کے نظامِ عقائد، قرآنیات وعلوم سیرت، انسانی حقوق، عصری مسائل اور اسلامی معاشرت پر آپ کی کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ ہندوستان کی تحریک اسلامی کے چوٹی کے رہنماوں میں سے ہیں۔ خاص طور سے اسلام کی دعوت کے موضوع پر آپ نے وقیع علمی کام کیا ہے۔
مولانا عمری کی ولادت ۱۹۳۵ء میں جنوبی ہند میں مسلمانوں کے ایک مرکز ضلع شمالی آرکاٹ کے ایک گائوں’پُتّاگرم‘ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے اسکول میں حاصل کی، پھر عربی تعلیم کے لیے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں داخلہ لے کر ۱۹۵۴ء میں فضیلت کا کورس مکمل کیا۔ اسی دوران مدراس یونیورسٹی کے امتحانات بھی دیے اور فارسی زبان وادب کی ڈگری ’منشی فاضل‘ حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (اونلی انگلش) پرائیوٹ سے پاس کیا۔ عمر آباد سے فراغت کے بعد مولانا جماعتِ اسلامی ہند کے اُس وقت کے مرکز رام پور آگئے اور اس کے شعبہ تصنیف وتالیف سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۷۰ء میں یہ شعبہ رام پور سے علی گڑھ منتقل ہو گیا۔ ایک دہائی کے بعد ۱۹۸۱ء میں اسے ’ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرایا گیا اور اس کا دستور اور قواعد وضوابط طے ہوئے۔ مولانا اس کے قیام ہی سے ۲۰۰۱ ء تک اس کے سکریٹری رہے اور اب صدر ہیں۔ اس کے باوقار سہ ماہی ترجمان مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کی ادارت بھی انہی کے ذمے ہے۔ یہ مجلہ جنوری ۱۹۸۲ء سے پوری پابندی سے نکل رہا ہے۔ علمی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی تحقیقات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ملک کی متنوع دینی، ملّی، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہی ہے۔ وہ ۱۹۵۶ء سے جماعت کی اعلیٰ اختیاراتی باڈی’ مجلس نمائندگان‘ کے رکن اور طویل عرصہ سے جماعت کی ’مرکزی مجلس شوریٰ‘ کے رکن ہیں۔ جماعت کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو کے ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۰ء تک پانچ سال مدیر اور جماعت کی تصنیفی اکیڈمی کے چیر مین رہے ہیں۔ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۷ء تک جماعت اسلامی ہندکے نائب امیر، اس کے بعد اپریل ۲۰۱۹ تک اس کے امیر رہے ہیں۔ آج کل جماعت کی قائم کردہ شریعہ کونسل کے چیرمین ہیں۔ اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی سپریم کونسل کے صدر، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اور سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے مینیجنگ ڈائرکٹر ہیں۔ مولانا بین الاقوامی رفاہی تنظیم ’الہیئۃ الخیریۃ العالمیۃ‘ کویت کے رکن بھی رہے ہیں۔
بیرونِ ملک کے مختلف دینی اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر مولانا برطانیہ، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، ایران، پاکستان اور نیپال کے بار بار سفر کر چکے ہیں۔
مولانا اپنی طالب علمی کے دور سے ہی مضمون نگاری اور تحریر کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ ’الانصاف‘ الٰہ آباد اور ماہ نامہ ’تجلی‘ دیوبند میں شائع شدہ بعض مضامین اس دَور کی یادگار ہیں۔ عمر آباد سے فراغت کے بعد چند ماہ اپنے استاد مولانا ابوالبیان حماد عمری مدّظلّہ العالی کے ساتھ مل کر بنگلور سے ہفت روزہ اخبار ’پیغام‘ کے نام سے نکالا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تصنیف وتالیف (موجودہ ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی) سے وابستہ ہو کر علمی وتصنیفی خدمات انجام دیں۔ مولانا نے اب تک مختلف موضوعات پر جو کچھ لکھا ہے وہ اسلامیات کے ذخیرہ میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ان میں سے بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، کچھ منتظر طبع اور کچھ زیر ترتیب ہیں۔ اب تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد چار درجن سے زیادہ ہے۔ مولانا عمری نے یوں تو علوم اسلامیہ کے بہت سے گوشوں میں کام کیا ہے لیکن خاص طور سے درج ذیل گوشوں میں ان کا کام بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔ پچاس (۵۰) سے زیادہ تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔
۱۔ قرآنیات:
مولانا کی تمام تحریروں میں قرآن اور حدیث کو اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ان سے رہنمائی حاصل کرتے، ان سے دلائل اخذ کرتے اور کثرت سے ان کے حوالے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے قرآنی موضوعات پر متعدد مستقل مقالات بھی سپرد قلم فرمائے ہیں۔ ان مقالات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب
(۵۶۰؍ صفحات) ’تجلیات قرآن‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
۲۔ سیرت نبوی:
رسول اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ پر مولانا نے بہ کثرت مقالات تحریر کیے ہیں۔ ان میں آپؐ کی سیرت اور تعلیمات، مکی دور نبوت، دار ارقم، ہجرت حبشہ، تبلیغ کے لیے غیر مسلموں کا تعاون، مواخات مکہ، ختم نبوت، آپؐ کے علمی احسانات، تبلیغی احکام وہدایات، عرب کے وفود دربارِ رسالت میں، آپؐ کے دعوتی مکاتیب، جیسے عنوانات شامل ہیں۔ ان مقالات کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں عصری تقاضوں کو سامنے رکھا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلووں پر اس حیثیت سے بحث کی گئی ہے کہ ان کی روشنی میں عصر حاضر کے بہت سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ سیرت پر ان مقالات کا مجموعہ ’اوراق سیرت‘ (۳۸۴؍ صفحا ت) کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
۳۔ عقائد:
مولانا نے اسلام کے بنیادی عقائد کی توضیح وتفہیم کے لیے متعدد وقیع کتابیں تصنیف کی ہیں۔ موصوف کی کتاب ’خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں‘ عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت سے بحث کرتی ہے۔ اس میں خدا اور مذہب کے بارے میں دور جدید کے بعض نظریات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پھر خدا کے وجود اور رسول کی ضرورت کے بارے میں بڑے عقلی اور سائنٹفک انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس موضوع پر ان کی ایک دوسری اہم کتاب ’انسان اور اس کے مسائل‘ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جن مسائل سے دوچار رہتا ہے ان میں عقائد، اخلاقیات اور قانون کے متعلق مسائل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسلام ان تمام مسائل کا کام یاب حل پیش کرتا ہے۔اسی موضوع پر ایک دوسری کتاب ’خدا کی غلامی۔انسان کی معراج‘ میں بھی بحث کی گئی ہے۔ رسالت کی حقیقت، امکان، ضرورت اور اس سے متعلق مباحث پر مولانا نے علمی انداز میں اپنے مقالات میں بحث کی ہے۔ توقع ہے کہ یہ کتاب جلد ہی سامنے آئے گی۔ عقائد کے موضوع پر مولانا کی ان تحریروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بڑا سائنٹفک اور عقل کو اپیل کرنے والا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
۴۔ معاشرت:
مولانا کا مہتم بالشان کام اسلامی معاشرت پر ہے۔ اس موضوع پر اب تک ان کی نو (۹) کتابیں شائع ہو چکی ہیں: (۱) عورت اسلامی معاشرہ میں (۲) عورت اور اسلام (۳) مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ (۴) مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں (۵) اسلام کا عائلی نظام (۶) قرآن کا نظام خاندان (۷) خاندان کی اصلاح اور اولاد کی تربیت (۸) مسلم پرسنل لا کے بعض مسائل (۹) بچے اور اسلام۔ ان کتابوں میں اسلام میں عورت کی حیثیت، اس کے حقوق اور دائرہ کار سے بحث کی گئی ہے اور دوسری تہذیبوں سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ مخالفین اسلام کی جانب سے اس سلسلے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ ان میں تاریخی حوالے بھی ہیں، خالص کلامی اور فلسفیانہ بحثیں بھی اور فقہی اور قانونی مباحث بھی۔ اس طرح اس موضوع پر مولانا کے کام کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ اس سے اسلامی معاشرت کی واضح تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
۵۔ انسانی حقوق
انسانی حقوق آج کا ایک اہم بین الاقوامی موضوع ہے۔ اس سے مولانا کو خاص دل چسپی رہی ہے۔ اب تک اس موضوع پر ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں: (۱) غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق (۲) اسلام۔ انسانی حقوق کا پاسبان (۳) غیر اسلامی ریاست اور مسلمان (۴) کم زور اور مظلوم۔ اسلام کے سایے میں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر ان کے متعدد کتابچے اور مقالات شائع ہو چکے ہیں۔
۶۔ عصری مسائل:
مولانا کے کام کا ایک پہلو عصری مسائل میں اسلامی نقطہ نظر کی توضیح وتشریح ہے۔ مثلاً غیر مسلموں سے تعلقات کی کیا نوعیت ہونی چاہیے؟ ہندوستان کے پس منظر میں دعوتی مقاصد سے یہ وقت کا ایک اہم موضوع ہے۔ مولانا کی کتاب ’غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘ میں اس پر بہت تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔
آج کل رفاہی کاموں کو بڑی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ مولانا نے اپنی کتاب ’اسلام میں خدمت خلق کا تصور‘ میں اس پر اسلامی نقطہ نظر سے بحث کی ہے۔ اسی موضوع پر انہوں نے اپنی کتابوں ’دولت میں خدا اور بندوں کا حق‘ اور ’انفاق فی سبیل اللہ‘ میں بھی تفصیل سے بحث کی ہے۔
دورِ جدید میں صحت اور مرض کے مسائل نے عالمی اہمیت اختیار کرلی ہے، لوگوں میں پریشانیوں اور تکالیف سے نجات پانے کے مقصد سے خود کشی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے اور قتل بہ جذبہ رحم کی بھی وکالت کی جانے لگی ہے۔ مولانا نے اپنی کتابوں ’صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات‘ اور ’اسلام اور مشکلات حیات‘ میں ان مسائل پر اسلامی نقطہ نظر سے بحث کی ہے۔
مولانا نے اپنی تصنیف ’ تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث‘ میں بھی دور حاضر کے بعض اہم مسائل سے بحث کی ہے مثلاً اسلامی شریعت میں اجتہاد کا عمل، ہندوستان کی شرعی وقانونی حیثیت، دار الاسلام اور دار الحرب کا تصوّر۔ جدید عالمی پس منظر میں، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ، اسلامی ریاست میں غیر مسلموں پر حدود کا نفاذ، غیر مسلموں سے ازدواجی تعلقات، اسلام کا قانون قصاص، قذف اور لعان کے احکام وغیرہ۔ اس سےکتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن، لاقانونیت، تشدّد اور فرقہ واریت وغیرہ پر مولانا نے اپنی کتابوں ’یہ ملک کدھر جارہا ہے؟‘ اور ’ملک وملت کے نازک مسائل اور ہماری ذمہ داریاں‘ میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسلامی سیاست پر جب گفتگو کی جاتی ہے تو اس کا شورائی نظام زیر بحث آتا ہے۔ آج سے نصف صدی قبل مولانا نے ’اسلام کا شورائی نظام‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ اسی زمانے میں یہ پڑوسی ملک سے شائع بھی ہوئی۔ اس موضوع پر مولانا کی ایک اہم تصنیف ’تہذیب وسیاست کی اسلامی قدریں‘ ہے۔
اسلام کے تصور جہاد پر اعتراض کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے۔ اس موضوع پر مولانا نے متعدد پہلوؤں ںسے بحث کی ہے اور تمام اعتراضات کا مدلّل اور شافی جواب دیا ہے۔ مجلہ تحقیقات اسلامی میں مقالات کی قسط وار اشاعت کے بعد اب یہ ’احکام ہجرت وجہاد‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو گئی ہے۔
۷۔ دعوت:
مولانا کی علمی تحقیقات کا ایک مہتم بالشان موضوع ’دعوت ‘ہے۔ انہوں نے دعوت کی ضرورت، اہمیت اور طریقہ کار سے متعلق بہت معیاری انداز میں کام کیا ہے۔ اس موضوع پر آپ کی کتابیں درج ذیل ہیں:
(۱) معروف ومنکر: اس کتاب میں مولانا نے فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت واضح کی ہے۔ اسلام کی دعوت اور اس کی اشاعت کی کوشش کتنی ضروری ہے؟ اس کے لیے کیا وسائل وذرائع مطلوب ہیں؟ اور اس کے لیے کن حدود وآداب کی رعایت کرنا چاہیے؟ ان تمام پہلووں پر بڑی جامع اور مفصل بحث کی ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ IIFSO کے ذریعے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔اس کا ترجمہ عربی، ترکی، انگریزی، ہندی، تمل اور بنگلہ میں ہو چکا ہے۔
(۲) اسلام کی دعوت : اس کتاب میں دعوت ِ اسلامی کے اصول وآداب، طریقۂ کار، میدانِ دعوت میں کام کرنے والوں کے ضروری اوصاف اور دعوت کے لیے تنظیم کی ضرورت پر عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس کے پندرہ (۱۵) ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا ترجمہ انگریزی، ہندی، تلگو، کنّٹر اور تمل میں ہو چکا ہے۔
دعوتی افکار وتصورات پر مولانا کی مزید حسب ِذیل کتابیں شائع ہوئی ہیں:
(۳) سبیلِ رب: دعوت الی اللہ کا راستہ
(۴) اسلام۔ ایک دین دعوت
(۵) دعوت وتربیت۔ اسلام کا نقطہ نظر
(۶) ہندوستان میں اسلام کی دعوت۔
آپ کی بعض دیگر تصنیفات میں بھی دعوتی موضوعات پر مقالات شامل ہیں مثلاً ’راہیں کھلتی ہیں‘، ’اقامت دین‘۔
آپ تقریباً بیس برس سے ملک کے مختلف حصوں میں دعوت کے موضوع پر خطاب کرتے رہے ہیں۔ اس سے الحمد للہ مسلمانوں میں دعوتی جذبہ ابھرا ہے اور دعوتی فضا بنانے میں مدد ملی ہے۔ اس سلسلے کے بعض خطابات شائع بھی ہو چکے ہیں۔
علوم اسلامیہ کے مختلف پہلووں پر مولانا عمری کے ہمہ جہت کام کی متعدد خصوصیات ہیں۔ ان کا تذکرہ ذیل میں اختصار کے ساتھ کیا جاتا ہے:
۱۔ قوتِ استدلال:
مولانا کی تحریروں میں استدلال کی زبردست قوت پائی جاتی ہے۔ ایک عالم دین ہونے کے ناطے ان کی نظر قرآن وحدیث کے ساتھ تفاسیر، شروح ِحدیث اور فقہی مصادر پر بھی رہتی ہے۔ وہ کوئی بات کہتے ہیں تو اس کی تائید میں قدیم مفسرین، محدثین اور فقہاء کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ اس طرح قاری کے سامنے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ مصنف اپنی بات بلا دلیل نہیں کہہ رہا ہے، بلکہ اسے قرآن وحدیث کی تائید حاصل ہے اور سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت اس کی ہم نوا ہے۔
۲۔ عقلی اپیل:
مولانا اپنی بحثوں میں صرف قدماء کے اقوال وآثار سے استدلال نہیں کرتے بلکہ قاری کی نفسیات اور اس کی عقل کو بھی اپیل کرتے ہیں۔ عقائد ہوں یا معاشرت یا سیاست، اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے وہ اطمینان بخش عقلی دلائل فراہم کرتے ہیں۔
۳۔ فقہی توسع:
مولانا کے فکر میں فقہی توسع پایا جاتا ہے۔ وہ فقہی مباحث میں کسی مخصوص مسلک کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ عموماً فقہ کے چاروں مکاتب کی آراء کا ذکر کرتے اور ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر کبھی کسی رائے کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں جو عصری ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ مولانا نے اپنی کتاب ’فقہی اختلافات کی حقیقت‘ میں اس موضوع پر اظہار ِ خیال بھی کیا ہے۔
۴۔ عصری مسائل سے تعرض:
مولانا کی تحریریں تحقیقِ محض کا نمونہ نہیں ہیں اور وہ قدیم تاریخی نوعیت کے موضوعات کا احاطہ نہیں کرتیں، بلکہ ان میں وقت کے زندہ مسائل سے تعرض کیا گیا ہے، ان کے حل پیش کیے گئے ہیں اور ان پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی گئی ہے۔
۵۔ ادب کی چاشنی:
عموماً علمائے دین کی تحریروں میں ادب کی چاشنی مفقود ہوتی ہے۔ ان کے یہاں ادب اور دینیات کا اجتماع مشکل ہی سے ہو پاتا ہے۔ مولانا کی تحریریں اس اعتبار سے بھی ممتاز ہیں کہ وہ دقیق، علمی اور خشک موضوعات پر مشتمل ہونے کے باوجود اپنے اندر ادبی حسن رکھتی ہیں اور ان کے مطالعہ سے اکتاہٹ کے بجائے انبساط کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
۶۔ اعلیٰ تحقیقی معیار:
مولانا کی تحریروں میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ عقائد کا موضوع ہویا دعوت کا، اسلامی معاشرت کا کوئی پہلو زیر بحث ہو یا کسی عصری مسئلہ کا اسلامی حل پیش کیا جا رہا ہو۔ مولانا ہر موضوع پر پوری قدرت، گہرائی اور وسعت ِمعلومات کے ساتھ قلم اٹھاتے ہیں اور اعلیٰ تحقیقی معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان تحریروں میں ثانوی مراجع سے کام نہیں چلایا جاتا بلکہ بنیادی مصادر ومراجع کے حوالے دیے جاتے ہیں۔
٭٭٭
مولانا کا مہتم بالشان کام اسلامی معاشرت پر ہے۔ اس موضوع پر اب تک ان کی نو (۹) کتابیں شائع ہو چکی ہیں: (۱) عورت اسلامی معاشرہ میں (۲) عورت اور اسلام (۳) مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ (۴) مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں (۵) اسلام کا عائلی نظام (۶) قرآن کا نظام خاندان (۷) خاندان کی اصلاح اور اولاد کی تربیت (۸) مسلم پرسنل لا کے بعض مسائل (۹) بچے اور اسلام۔ ان کتابوں میں اسلام میں عورت کی حیثیت، اس کے حقوق اور دائرہ کار سے بحث کی گئی ہے اور دوسری تہذیبوں سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ مخالفین اسلام کی جانب سے اس سلسلے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021