
ملک کو کمزور اور کھوکھلا کون کررہا ہے؟
دراندازی پر سخت کارروائی مگر اعلیٰ عہدیدار کی جاسوسی پر خاموشی؟
نور اللہ جاوید
گرفتاریوں میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر فرق۔ مسلم شہری گرفتار ہوں تو میڈیا میں شور، ورنہ خاموشی!
اسلام اور وطن سے محبت ساتھ ساتھ ۔ مسلمان ملک سے محبت پر صفائی کیوں دیں؟
پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد ایک طرف ملک بھر میں بنگلہ دیش کے نام پر کچی بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے تو دوسری طرف ملک کی ایجنسیاں جاسوسی کے الزامات میں متعدد افراد کو گرفتار کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں کارروائیاں موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن ان کا تعلق ملک کی سلامتی سے جوڑا جا رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان معاملات میں حکومت اور انتظامیہ کی اپروچ کیا ہے؟
دوسرا اور شاید زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آخر ملک کی سلامتی اور مفادات کو سب سے زیادہ نقصان کون پہنچا رہا ہے؟ آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے جوڑ کر پوری کمیونٹی کو موردِ الزام ٹھیرایا جاتا رہا ہے۔ تاہم ماضی اور حال دونوں میں ایسے کئی اعلیٰ افسروں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں جو ملک کے حساس اداروں میں کام کر رہے تھے اور جن کا تعلق مسلم طبقے سے نہیں تھا۔ لیکن ان گرفتاریوں کو وہ میڈیا کوریج نہیں ملتی جو مسلمانوں کے کسی بھی مشتبہ فرد کی گرفتاری پر دی جاتی ہے۔
یقیناً کسی فرد واحد کے جرم کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کو ذمہ دار ٹھیرانا درست نہیں، مگر یہ اصول صرف مسلمانوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ کئی سال قبل ایک ہائی پروفائل کرکٹ میچ میں سکھ کرکٹر کے ہاتھ سے کیچ چھوٹنے پر اس کے مذہب کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے یہ رویہ عیاں ہوتا ہے کہ مذہبی شناخت اکثر فیصلہ کن پیمانہ بن جاتی ہے۔
غیر ملکیوں کی شناخت کر کے انہیں قانونی طریقے سے ملک بدر کرنے کا حق یقیناً ہر ملک کو حاصل ہے۔ ملک کے وسائل، دولت اور سہولتوں پر پہلا حق اسی ملک کے شہریوں کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی غیر ملکی ان سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو دراصل وہ اس ملک کے اصلی شہری کا حق چھینتا ہے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد بنگلہ دیشی شناخت کے نام پر جو کارروائیاں کی گئیں وہ ایک منظم اور پرانی روایت کا تسلسل ہیں، لیکن ان کی شدت اور نوعیت اس بار مختلف اور زیادہ ظالمانہ ہے۔
یو پی اے حکومت کے دور میں بھی بنگلہ دیشی دراندازوں کی شناخت کر کے انہیں ملک بدر کیا گیا تھا مگر اس بار جس انداز میں گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، دہلی، ہریانہ، میگھالیہ اور آسام میں بنگلہ دیشیوں کے نام پر غریب مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ غیر معمولی اور قابلِ مذمت ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی افراد کو محض اس لیے گرفتار کیا گیا تاکہ ان سے پہلگام حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کروایا جا سکے۔
احمد آباد میں چشم زدن میں 700 سے زائد مکانات کو منہدم کر دیا گیا۔ سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں بیشتر یہیں کے شہری تھے۔ آسام میں تو قانون کی حکم رانی ہی ختم ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کی ایک ہدایت کو بنیاد بنا کر بھارتی شہریوں کو بنگلہ دیش میں دھکیلا جا رہا ہے۔
اسی ہفتے آسام کے ایک ماسٹر خیر الاسلام کی ملک بدری کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ خیر الاسلام بتاتے ہیں کہ ان کے والد یہیں کے شہری ہیں تو وہ غیر ملکی کیسے ہو سکتے ہیں؟ محض نام کے اسپیلنگ میں فرق کی بنیاد پر آسام ٹربیونل نے انہیں غیر ملکی قرار دے دیا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں ان کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے، اس کے باوجود انہیں راتوں رات گرفتار کر کے پہلے حراستی کیمپ اور پھر ہند و بنگلہ دیش کے درمیانی علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔
دو دن قبل آسام کے کوکرا جھار علاقے میں ایک خاتون کو رات کے وقت پولیس نے اٹھایا اور سرحد پر پہنچا دیا۔ تاہم جب سیکیورٹی اہلکاروں کو احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے تو خاتون کو واپس بھیج دیا گیا۔ مگر جس حالت میں خاتون کو رات میں گرفتار کیا گیا وہ کسی بھی جمہوری ملک میں ناقابلِ قبول ہے۔
سوال یہ ہے کہ آسام میں جس طریقے سے شہریوں کی ملک بدری کی جا رہی ہے کیا وہ انصاف کے معیار پر پورا اترتی ہے؟ جب سپریم کورٹ میں مقدمات زیر سماعت ہیں تو اس سے قبل اس طرح کی کارروائیاں قانون اور عدالت کا مذاق نہیں ہیں؟ کیا شہریوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے عدالتی چارہ جوئی کا حق حاصل نہیں ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ این آر سی میں باہر رہ جانے والوں کی اکثریت بنگلہ دیشی ہندوؤں کی ہے مگر یہ کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف کیوں ہو رہی ہے؟ اس سے قبل روہنگیائی شہریوں کی ملک بدری کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔ دہلی پولیس نے رات کی تاریکی میں روہنگیائی شہریوں کو گرفتار کیا، انہیں پہلگام حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا اور پھر انہیں انڈومان نکوبار کے سمندر میں کشتی کے ذریعے لائف جیکٹ پہنا کر چھوڑ دیا۔
اگرچہ بھارت اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں، تاہم انسان ہونے کے ناطے ہر فرد کے بنیادی حقوق ہیں۔ ایسے میں اس قسم کی کارروائیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور اگر ان واقعات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو بھارت کی انسان دوست شبیہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔
بھارت کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں پر غداری کا ٹیگ لگا دیا گیا۔ پاکستان کا لفظ مسلمانوں کے لیے ایک گالی بن گیا۔ آزادی کے فوری بعد ہی دارالعلوم دیوبند جس نے تحریک آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا، پولیس کے شب خون سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پہلگام حملے کے بعد ملک بھر میں کارروائیاں اسی ذہنیت کا تسلسل اور ایک نئی شکل ہیں۔
آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف پولرائزیشن ہے۔ 2025 میں اسمبلی انتخابات میں پولرائزیشن کے ذریعے جیتنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آسام ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی بنیادی مسائل کا شکار ہے اور شمال مشرقی ریاستوں میں باغی گروپس مضبوط ہو رہے ہیں۔ آسام میں الفا علیحدگی پسند گروپ پھر سر اٹھانے لگے ہیں۔
شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے آسام کی آسامی شہریوں کی ناراضگی کو کم کرنے کے لیے بے رحمانہ انداز میں ملک بدری کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جس کا شکار بھارت کے شہری ہو رہے ہیں۔ فارن ٹربیونل جس طریقے سے کام کرتا ہے وہ شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ان اضلاع میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت یا اچھی خاصی آبادی ہے، مقامی آسامی شہریوں کو ہتھیاروں کی فراہمی آسان بنانے کے لیے لائسنس قوانین میں نرمی کر رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ حکومت کا کام روزگار فراہم کرنا، تعلیم دینا اور بنیادی سہولتیں مہیا کرنا ہے مگر حکومت کی ترجیحات میں روزگار، تعلیم اور صحت کے بجائے ہتھیار فراہم کرنا اہم ایجنڈا بن چکا ہے۔
بلاشبہ دراندازی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس کی آڑ میں غریب مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کی جانی چاہیے۔
اس پوری کارروائی کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ حقوق انسانی کے ادارے اور میڈیا اس معاملے میں خاموش ہیں۔ حالیہ برسوں میں جو پروپیگنڈا کیا گیا ہے، اس سے میڈیا نہ صرف متاثر ہوا بلکہ مہم کا حصہ بھی بن چکا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں دراندازوں کا بڑا کردار ہے یا پھر ملک کے اہم راز افشا کرنے اور فوج کی جاسوسی کرنے والوں کا؟ کون ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے؟
پہلگام حملے کے بعد مرکزی ایجنسیوں نے بڑے پیمانے پر جاسوسی کرنے والوں کی گرفتاری کی ہے جن میں زیادہ تر افراد عام شہری ہیں اور ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں پیدائشی طور پر حب الوطنی کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔
آر ایس ایس دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی جڑیں حب الوطنی اور نیشنل ازم سے جڑی ہیں۔ دو سال قبل ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ سائنس داں پردیپ گرولکر کو پاکستانی کو اہم راز فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پردیپ گرولکر کا تعلق آر ایس ایس سے ہے اور وہ خاندانی طور پر سنگھ پریوار سے وابستہ رہے ہیں۔
حال ہی میں بی ایس ایف کے ایک جوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ خاتون یوٹیوبر کی گرفتاری پر میڈیا میں کوریج دیکھنے کو ملی۔ اس سے قبل پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمیشن میں تعینات ایک خاتون اعلیٰ افسر مادھوری گپتا کو پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ جب اس طرح کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کی گرفتاری ہوتی ہے تو ان کی مذہبی شناخت پر بحث نہیں ہوتی، مگر جب کسی مسلم شہری کی گرفتاری ہوتی ہے تو اس کی مذہبی شناخت کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ یہ سویلین شہریوں کے پاس فوجی راز کہاں سے آتے ہیں اور اندرون خانہ انہیں راز کون فراہم کرتا ہے؟ فوج کے نقل و حمل اور خفیہ دستاویزات کو انتہائی راز داری سے رکھا جاتا ہے، پھر بھی یہ راز دشمن ممالک کو فراہم کیے جا رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ادارہ جاتی خامیاں موجود ہیں۔ حال ہی میں جیوتری ملہوترا کی گرفتاری کی خبر سرخیوں میں تھی جس پر فوج کی اہم معلومات فاش کرنے کے الزامات تھے۔ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق جیوتری ملہوترا نے اعتراف جرم کر لیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جیوتری ملہوترا ایک سویلین ہے۔ ممکن ہے کہ نئی دہلی میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن میں دانش نامی ایک افسر نے جیوتری ملہوترا کو پھنسایا ہو اور پھر انہیں پاکستان کے لیے کام کرنے کی ترغیب دی ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جیوتری ملہوترا، جو ایک عام یوٹیوبر ہے اور سیاست دانوں سے تعلقات بھی رکھتی ہے، ملک کی سیکورٹی اور فوج کی آمد و رفت کا اتنا حساس علم، جسے بہت راز میں رکھا جاتا ہے، اسے کیسے حاصل ہوا؟ اس نے یہ معلومات حاصل کرنے کے لیے کس طرح کی کوشش کی؟
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار میں ملک کے خلاف جاسوسی کے الزام میں گرفتار افراد کے متعلق علیحدہ سے کوئی تفصیلی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج اہیر نے معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2014 سے 2016 تک آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت 50 مقدمات درج کیے گئے: 2014 میں 11، 2015 میں 9، اور 2016 میں 30 مقدمات (تمل ناڑو میں 8، پنجاب اور اتر پردیش میں 5-5) ان مقدمات میں ہندوستانی اور غیر ملکی شہری، خاص طور پر پاکستانی شہری شامل تھے جن پر دفاعی یا فوجی تنصیبات کی جاسوسی کا الزام تھا۔ مئی 2025 میں پہلگام دہشت گرد حملے (22 اپریل 2025) کے بعد جاسوسی کی سرگرمیوں پر سخت نگرانی کی گئی۔ رپورٹوں کے مطابق ہریانہ، پنجاب اور اتر پردیش میں 9 سے 12 افراد کو پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
جیوتری ملہوترا، ایک 33 سالہ ٹریول وی لاگر، ہریانہ سے 17 مئی 2025 کو گرفتار ہوئی جو ایک پاکستانی عہدیدار کے ساتھ واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور اسنیپ چیٹ جیسے انکرپٹڈ پلیٹ فارمز کے ذریعے فوجی معلومات شیئر کر رہی تھی۔ دیویندر سنگھ ڈھلون، پنجاب سے ایک 25 سالہ طالب علم، فوجی چھاؤنی کی تصاویر شیئر کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ نعمان الٰہی، ہریانہ سے ایک 24 سالہ سیکیورٹی گارڈ، پاکستان کی آئی ایس آئی کو معلومات دینے پر گرفتار ہوا۔ ارمان، ہریانہ کے نوح میں 16 مئی 2025 کو گرفتار ہوا۔ محمد مرتضیٰ علی، جالندھر میں موبائل ایپ کے ذریعے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ شاکر خان منگلیار، راجستھان کا سرکاری ملازم، 29 مئی 2025 کو آئی ایس آئی سے مبینہ روابط کے شبہ میں حراست میں لیا گیا۔ ان گرفتاریوں میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور BNS دفعہ 152 کے تحت الزامات عائد کیے گئے، جن پر مشتبہ افراد نے حساس فوجی یا دفاعی ڈیٹا شیئر کیا۔
جاسوسی کے بہت سے معاملات عوامی طور پر ظاہر نہیں کیے جاتے اور گرفتاریوں کا ڈیٹا اکثر نامکمل یا اعلیٰ پروفائل مقدمات تک محدود ہوتا ہے۔ اس لیے ان مقدمات میں کتنے افراد کو سزا دی گئی، اس حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات مادھوری گپتا کو محض تین سال کی سزا ہوئی تھی جب کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 کے تحت سزا عمر قید سے لے کر پھانسی تک ہو سکتی ہے۔ مگر ماضی میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے غلط استعمال کی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافی افتخار گیلانی کے خلاف ایک انگریزی اخبار کی خبر کی بنیاد پر گرفتاری ہوئی، لیکن بعد میں ان پر الزام ثابت نہ ہو سکا اور وہ رہا ہوگئے۔ چونکہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ’’خفیہ معلومات‘‘ کی تعریف بہت مبہم ہے، اس لیے اسے صحافیوں، مصنفین اور سماجی کارکنوں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا۔ کئی معاملات میں عدالتوں نے کہا ہے کہ محض اس بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کسی دستاویز کو خفیہ قرار دے کر افشا کیا گیا ہو۔
ملک کی قومی سلامتی کے مسئلے کو مذہبی شناخت کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے فرد کے ذاتی کردار اور معاملے کی جامع نوعیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ پہلگام حملے کے بعد ملک بھر سے این آئی اے اور دیگر ایجنسیاں بڑے پیمانے پر ملک کے راز فاش کرنے کے الزام میں گرفتاریوں میں مصروف ہیں جو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ چند روپے کی خاطر ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ذہنیت بہت خطرناک ہے اور اس پر جلد از جلد وسیع پیمانے پر کارروائی کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور اعلیٰ عہدیداروں کو مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک و شبہ کرنے اور انہیں غدار سمجھنے کی ذہنیت تبدیل کرنی ہوگی۔ بلکہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک و شبہ کرنے والے اور انہیں غدار سمجھنے والے ملک کی سلامتی کو خود خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس ذہنیت کی آڑ میں وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود حرص و طمع کے شکار ہوتے ہیں اور ملک کے اہم راز دوسروں کو فراہم کر دیتے ہیں۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو علیحدگی پسندانہ ذہنیت اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اپنے ملک سے محبت اور وفاداری کا درس دیتا ہے۔ یہ اپنے ملک کی سلامتی اور حفاظت کا حصہ بننے کی تلقین کرتا ہے۔ ملک سے سچی محبت وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کےدل و دماغ مادیت پرستی سے پاک ہوتے ہیں۔ روپیہ کو بھگوان مان کر اس کی پوجا کرنے والے کبھی بھی محب وطن نہیں ہو سکتے۔
***
***
اگر کسی مسلمان پر جاسوسی کا الزام ہو تو میڈیا اور ادارے اس کی مذہبی شناخت کو نمایاں کرتے ہیں، جبکہ غیر مسلموں کے معاملات میں خاموشی یا نرمی اختیار کی جاتی ہے۔ اس دوہرے رویے سے نہ صرف انصاف متاثر ہوتا ہے بلکہ ملک کی سالمیت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ بعض کیسوں میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کا استعمال مبہم بنیادوں پر کیا گیا ہے، جس کے تحت محض کسی صحافی یا شہری کے پاس دفاعی نوعیت کی عام معلومات ہونے پر بھی اسے مجرم قرار دیا گیا۔ اس قانون کی تعریفیں اتنی غیر واضح ہیں کہ اسے طاقت کے ناجائز استعمال کا آلہ بنا لیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات میں مذہبی شناخت کے بجائے ٹھوس شواہد، غیر جانب داری اور قانونی شفافیت کو بنیاد بنایا جائے۔ حب الوطنی کو کسی مخصوص شناخت سے جوڑنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ ملک دشمن عناصر کو چُھپنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025