ملک کا مستقبل: ہو گا وہی جو چاہے یہ حاکمِ فسطائی
اے رحمان
پچھلے ہفتے (۳۱ جولائی ۲۰۲۰) اس کالم کا مضمون میں نے اس جملے سے شروع کیا تھا: ’’آئندہ پانچ اگست کو جب وزیرِ اعظم ایودھیا میں چاندی کی اینٹ رکھ کر رام مندر کی بنیاد گزاریں گے تو دنیا کے لیے یہ پیغام جائے گا کہ ہندوستان اب مکمّل طور سے ہندو راشٹر ہے‘‘۔ گذشتہ کل مندر کے لیے بھومی پوجن وغیرہ کے موقعے پر اپنی تقریر میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کر بھی دیا ’’آج سے نئے بھارت کی نیو (بنیاد) رکھی جا رہی ہے‘‘ اور بعد کو وزیرِ اعظم نے اپنی جوشیلی تقریر میں ہر پہلو سے اس کی تصدیق و توثیق کر دی۔ آج کے نیو یارک ٹائمز میں ایک مفصّل مضمون شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رام مندر کی بنیاد گزاری نہ صرف ہندو قوم پرستی کی فتح بلکہ ہندوستان پر مودی کے مکمّل اقتدار اور تسلّط کی مہرِ تصدیق ہے۔ یعنی پوری دنیا اب اس حقیقت سے واقف ہو گئی ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو پامال کیا جا چکا ہے اور سیکولرازم کے خلاف تو پچھلے چھ سال سے مستقل ڈھول پیٹا ہی جا رہا ہے۔ یوں بھی ’’ہندو شناخت‘‘ پر مبنی قوم پرستی اور اور حب الوطنی کے دعوے تکثیریت اور سیکولر اقدار کی نفی کرتے ہیں۔
موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر دو اہم سوالات پر غور کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ پہلا یہ کہ ملک کا سیاسی مستقبل کیا اور کیسا ہو گا اور اس کے لازمی لاحقے کے طور پر دوسرا سوال جسے مسلمانوں کے لیے سوال نہیں مسٔلہ سمجھنا چاہیے، وہ یہ کہ مستقبل کا جو منظر نامہ تشکیل دے کر فریم میں جڑ دیا گیا ہے اس میں مسلمان کہاں اور کس حیثیت میں نظر آ رہے ہیں۔ اگلے دو اہم ترین اقدامات جو موجودہ حکومت یقینی طور پر کرنے جا رہی ہے وہ یہ ہیں۔ یکساں سول کوڈ بنا کر اس کا نفاذ۔ یاد رہے کہ اس کے لیے آئین میں پہلے سے ہی ہدایت بلکہ تلقین موجود ہے لہذٰا اس کے نفاذ میں کوئی چیز مزاحم نہیں ہو سکتی۔ بعض مسلمانوں کی طرف سے یہ نکات اٹھائے گئے ہیں کہ لاء کمیشن نے اس کو فی الحال غیر ضروری قرار دیا ہے نیز یہ کہ اس کا کوئی خاکہ یا مسوّدہ تک تیّار نہیں کیا گیا۔ یہ خوش فہمی قطعی لا علمی پر مبنی ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کے لیے حکومت کو کہیں جانے یا ماہرینِ آئین و قانون کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ آر ایس ایس کے پاس سول کوڈ کا مسوّدہ کب سے تیّار پڑا ہے۔ اس کے خدّ و خال دیکھنے ہوں تو منو سمرتی پڑھ لیجیے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ مسلم تنظیموں بشمول پرسنل لاء بورڈ نے اشاروں اشاروں میں اس کی ’مشروط ‘ حمایت بھی کر رکھی ہے۔ یکساں سول کوڈ نافذ کیے جانے کے عمل کی ابتدا ہوتے ہی دوسرا اقدام ہو گا شہریت ترمیمی قانون کے اصولِ ضابطہ(rules ) کا اعلان جسے پچھلے دنوں ’’وبائی صورتِ حال کے پیشِ نظر‘‘ تین ماہ کے لیے موخّر کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ دونوں اقدامات تقریباً بیک وقت کیے جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی آغاز ہو گا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مصائب و آفات کے ایک ایسے دور کا جس کی انتہا اور انجام کا ابھی اندازہ لگانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
میں نے اوپر نیویارک ٹائمز کے جس مضمون کا ذکر کیا گیا اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی معیشت ایک بہت گہرے کنویں میں گر چکی ہے۔ دس کروڑ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں اور کیوں کہ کورونا وبا کے قہر میں مستقل اضافہ ہو رہا جس کی وجہ سے معیشت میں سدھار کی کوشش نہیں کی جا سکتی (یہ تو ظاہر ہے ہی کہ حکومت کا اس طرف نہ ابھی التفات ہے نہ اس کی کوئی پروا) اس لیے بے روزگاری اور غریبی میں مستقل اضافہ ہو گا۔ معیشت کی مزید تباہی، ذرائع آمدنی کے فقدان اور بے روزگاری کا نزلہ سب سے زیادہ مسلمانوں پر ہی گرے گا کیوں کہ اس وقت وہ معاشرے کا ضعیف ترین عضو ہیں۔ ان کی ’کاریگری‘ اور ہنر بے قیمت ہو کر معدوم ہو چکے اور ان کے کاروبار ایک منصوبہ بند طریقے سے ختم کر دیے گئے۔ قومی معیشت کا اہم ترین حصّہ سمجھی جانے والی بیشتر عوامی کاروباری اکائیاں ملک کے چند سرمایہ دار، سرمایہ کار صنعتی گھرانوں کے ہاتھ فروخت کی جا چکی ہیں اور جو بچی ہیں فروخت کی جانے والی ہیں لہذٰا ان میں مسلمانوں کی حصّہ داری تو دور ملازمانہ شمولیت کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگ قومی سول سروس میں چندمسلمان بچوں بچیوں کی کامیابی پر ڈفلی بجا کر گویا یہ تاثر دیتے ہیں کہ قوم ترّقی کر رہی ہے اور یہی رفتار رہی تو سارے مسٔلے جلد ہی حل ہو جائیں گے۔ وہ لوگ شاید اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اوّل تو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز مسلمان آٹے میں نمک کی برابر ہیں اور اگر تعداداً وہ اس سے سو گنا بھی ہو جائیں تو قوم کے لیے نافع نہیں ہو سکتے اس واسطے کہ ہر سرکاری عہدیدار اس نظام کا حصّہ ہوتا ہے جس کے ظلم کا آپ ہدف ہیں۔ اور وہ اس نظام سے سرتابی نہیں کر سکتے۔ اپنے مذہبی ’رہنماؤں‘ کا ذکر کیجیے تووہ بڑی سے بڑی ابتلا میں چند دعائیں تجویز کر کے اور ’ظالموں‘ کو جہنّم کی بشارت یا بد دعا دے کر اپنے ہر فرض سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور سیاسی اقتدار کے ایسے ایسے بے ضمیر حریص موجود ہیں جو محض اپنی لیڈری چمکانے کے لیے کرائے کے چند ملّا مولوی جلو میں لے کر ’نظامِ مصطفیٰ‘ قائم کرنے کا نعرہ لگا کر سامنے آتے ہیں اور مصیبت زدہ مسلمانوں کی مصیبتوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس نکتے پر کہیں سے یہ صدا آسکتی اورکچھ لوگ مصرعہ بھی اٹھائیں گے کہ ’ہم اپنے آئینی حقوق کی جنگ لڑیں گے یہ کریں گے وہ کریں گے‘ تو عرض یہ ہے کہ اس ملک کا سیاسی ڈھانچہ مکمّل طور سے تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ یہاں فاشسٹ طرز پر یک جماعتی سیاسی نظام قائم کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کا اہم ترین آئیٹم ہے اور اس مقصد کے تحت موجودہ آئین کو ختم کر کے ایک نیا آئین (جو تیّار ہے) نافذ کیا جائے گا۔ اور کان کھول کر سن لیجیے یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ وہ نیا آئین منو سمرتی میں درج طبقاتی تقسیم اور اس سے متعلّق قوانین پر مبنی ہو گاجس کی رو سے مسلمان ووٹ کے حق سے محروم کر دیے جائیں گے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں اس قسم کی تبدیلیاں پہلے کی جا چکی ہیں جن کی موجودگی میں مسلمان وہی تعلیم حاصل کر سکیں گے جو حکومت کا منشا ہے یا ہوگا۔ اس پورے سیاسی اور معاشرتی ایجنڈا کی کامیابی میں اس لیے شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت پہلے ہی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے، حزبِ اختلاف کا کوئی وجود نہیں، ہر مطلوبہ تبدیلی کا عمل پورے زور سے شروع کر دیا گیا ہے، رام مندر کی تعمیر کے آغاز نے ہندو ازم اور ہندو شناخت کے احیا کی سو برس پرانی تحریک کو تازہ کر کے ان لوگوں میں بھی قوم پرستی کے جذبات کو پیدا کر دیا یا جگا دیا ہے جو اب تک اس کی مخالفت کرتے تھے۔ اگلے الیکشن تک عالیشان رام مندرکی تعمیر مکمّل ہو چکی ہو گی اور بی جے پی کو فتح کے لیے کسی بھی دیگر نعرے یا کارڈ کی ضرورت نہیں ہو گی ، نتیجتاً پارٹی پہلے سے بھی زیادہ قوّت کے ساتھ اقتدار حاصل کر لے گی۔ نیا ہندوستان وجود میں آ چکا ہے جس کے سیاسی نظام کو نہ مسلمان کا ووٹ چاہیے نہ ’وکاس‘ کے لیے اس کی مدد۔ مسلمان کی بقائے وجود بھی اربابِ اقتدار کی رہینِ منّت ہو گی۔ مستقبل کی اس تصویر پر اگر ابھی آپ کو یقین نہیں آ رہا تو اگلے دو سال میں آ جائے گا، جو کوئی ایسا طویل عرصہ نہیں۔ نہ تو ایسی کوئی سیاسی جماعت بچی ہے جو کسی قسم کی مدد کی استطاعت رکھتی ہو اور اگر ہو بھی تو آپ سے ہمدردی ہے کسے؟ آپ کے پاس ایک بھی سیاسی رہبر یا رہنما نہیں۔ ادھر وزیرِ اعظم مودی کی شکل میں ایک ایسا مطلق الحکم سیاسی سربراہ ابھرا ہے جس کا قول فرمان ہے لہذٰا فرمان روائی ہو گی۔ حکمِ حاکم مرگ مفاجات۔ خاتم الشعرا عبدالرحمن جامی کے شعر پر ختم کرتا ہوں؎
مرا کشتی و تکبیرے نگفتی
عجب سنگیں، ولے اللہ اکبر
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔