ملک میں جبری سبزی خوری کی سیاست کا جوابی بیانیہ

عید الاضحیٰ کے موقع پر گوشت خوری پر تعصب اور اس کا سماجی و معاشی تجزیہ

0

سلمان احمد

بھارت میں مسلمانوں سے زیادہ گوشت کھانے والے غیر مسلم افراد ہیں : رپورٹ
ایک منصفانہ اور عدل پر مبنی معاشرے میں ہر فرد کو اپنی خوراک کے انتخاب کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے، بشرطیکہ وہ خوراک اس فرد یا معاشرے کے لیے کسی حقیقی نقصان کا باعث نہ بنے۔اگر ایک گروہ کسی خاص غذا کو ممنوع سمجھتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسے جائز قرار دیتا ہے تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی خوراک کی پسند دوسروں پر زبردستی یا جبر کے ذریعے تھوپنے کی کوشش کرے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں گوشت خوری اور غذائی پسند اکثر امتیاز، جبر حتیٰ کہ تشدد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیشتر افراد، خصوصاً وہ افراد جو سبزی خور یا ویگن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ یہ مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ بھارت بنیادی طور پر ایک سبزی خور ملک ہے اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ گوشت کھانے والے لوگ ہندوستانی ثقافت اور مذہبی اقدار کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایسی ذہنیت سماج میں گوشت کھانے والوں کو کمتر، ظالم یا غیر مہذب سمجھنے جیسے تعصبات کو جنم دیتی ہے۔
ایسا متعصبانہ طرزِ فکر بعض اوقات ان طبقات کے خلاف امتیازی سلوک اور دشمنی کو ہوا دیتا ہے جو گوشت خوری کے لیے جانی جاتی ہیں۔ جیسے کہ مسلمان، عیسائی، شیڈیولڈ کاسٹس (ایس سی) شیڈیولڈ ٹرائبس (ایس ٹی) شمال مشرقی علاقوں اور ساحلی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں ۔ایسے تعصبات نہ صرف معاشرے میں تفریق کو مزید گہرا کرتے ہیں بلکہ باہمی احترام اور بقائے باہمی جیسے اصولوں کو بھی سخت نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگرچہ ملک میں جبری سبزی خوری کی سیاست کئی پرتوں پر مشتمل اور کافی پیچیدہ ہے اس مضمون میں درج ذیل نکات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے
-1 عالمی غذائی رجحانات: دنیا بھر میں خوراک کی عادات اور ترجیحات کا جائزہ۔
-2 بھارت میں غذائی رجحانات: بھارت میں مختلف مذہبی طبقات، سماجی گروہوں، معاشی گروپوں، ریاستوں اور علاقوں کے درمیان خوراک کے استعمال کے رجحانات کا تجزیہ۔
-3 مذہبی نظریات: خوراک اور قربانی کے بارے میں بڑے مذاہب کا نقطۂ نظر۔
دنیا کے اہم مذاہب خوراک ، اس پر پابندیاں، ترجیحات اور جانوروں کی قربانی کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش۔
-4 کیا گوشت کھانا وحشی ہونے کی علامت ہے؟
گوشت خور افراد کے بارے میں موجود تعصبات اور تشدد آمیز تصورات کا تجزیہ۔
5 -نان ویجیٹیرین صنعت کا معاشی کردار:
گوشت کی صنعت کی معیشت میں شراکت داری، روزگار اور تجارت میں اس کا کردار۔
دنیا بھر میں غذائی رجحانات: IPSOS گلوبل ایڈوائزری سروے (2018) کے مطابق دنیا کی تقریباً 90-92 فیصد آبادی گوشت یا غیر سبزی خوراک استعمال کرتی ہے۔ یہ سروے 23 فروری سے 9 مارچ کے درمیان 28 ممالک میں 20,313 بالغ افراد پر مشتمل تھا۔
جن ممالک کو اس سروے میں شامل کیا گیا ان میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، بیلجیم، برازیل، کینیڈا، چلی، چین، کولمبیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، ہنگری، بھارت، اٹلی، جاپان، ملیشیا، میکسیکو، پیرو، پولینڈ، روس، سعودی عرب، سربیا، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، اسپین، سویڈن، ترکی، امریکہ شامل ہیں ۔
(جدول 1.1ملاحظ کریں)
حوالہ جات:
https://shorturl.at/t3AtG
بھارت میں غذائی رجحانات:
خواتین 70فیصد 70.6فیصد +0.6فیصد NFHS-5 کے مطابق 15 سے 49 سال کے مردوں میں 83.4فیصد اور خواتین میں 70.6فیصد افراد گوشت یا دیگر غیر سبزی خور غذائیں روزانہ، ہفتہ وار یا کبھی کبھار استعمال کرتے ہیں۔(ماخذ: قومی خاندانی صحت سروے (NFHS- 5)
2015 سے 2021 کے درمیان ہندوستان میں نان ویجیٹیرین خوراک استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مردوں میں 5فیصد اضافہ اور خواتین میں 0.6فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حوالہ جات :
https://shorturl.at/CY9y3
https://surl.li/upxibq
https://surl.li/yszavj
ہندوستان میں مختلف گروپوں کے خوراکی رجحانات:
مذہب، ذات اور معاشی حیثیت بھی خوراک کی رغبت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جدول 1.2ہندوستان میں مختلف گروپوں میں نان ویجیٹیرین آبادی کی فیصد کو ظاہر کرتا ہے۔
اس ضمن میں نیلینا سریش کی بھارت سے متعلق مارچ 2025 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تقریباً تمام مسلمان (99فیصد) عیسائی (99فیصد) اور بدھ/نئے بدھ مت (97فیصد) افراد گوشت کھاتے ہیں۔ ہندوؤں میں تھوڑا سا زائد از تین چوتھائی گوشت کھاتے ہیں۔ جبکہ جین اور سکھ برادریوں میں سب سے زیادہ تعداد سبزی خوروں کی ہے۔ صرف ایک چوتھائی جین اور آدھے سکھوں نے کبھی گوشت کھایا ہے۔
مذاہب کی بنیاد پر عیسائی سب سے زیادہ گوشت کھانے والوں میں شامل ہیں جن میں 15 سے 49 سال کی عمر کے 80فیصد مرد اور 78فیصد خواتین ہفتے میں کم از کم ایک بار گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے بعد مسلمان مرد (79.5فیصد) اور خواتین (70.2فیصد) کا نمبر آتا ہے۔رپورٹ کے مطابق دیگر مذاہب کے اعداد و شمار اس طرح ہیں:
ہندو مرد: 52.5فیصد، خواتین: 40.7 فیصد-سکھ مرد: 19.5فیصد، خواتین: 7.9 فیصد-بدھ/نئے بدھ مت مرد: 74.1فیصد، خواتین: 62.2فیصد-جین مرد: 14.9فیصد، خواتین: 4.3فیصد۔اسی طرح شیڈول کاسٹ (دلت) اور شیڈول ٹرائب (قبائلی) برادریوں میں بالترتیب 87فیصد اور 88فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں۔ جبکہ دیگر ذاتوں میں یہ شرح 72فیصد ہے۔
ریسرچ کے دوران یہ بھی پایا گیا کہ گوشت کھانے کی عادت زیادہ تر کم آمدنی والے طبقے میں پائی جاتی ہے۔ بھارت کی سب سے غریب 20 فیصد آبادی میں سے تقریباً 9 میں سے 10 افراد گوشت کھاتے ہیں۔ جبکہ سب سے امیر 20 فیصد میں یہ شرح تقریباً 7 میں سے 10 ہے۔
یہ فرق خاص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین میں زیادہ نمایاں دیکھا گیا ہے۔ دیہی بھارت کی امیر خواتین میں صرف آدھی سے تھوڑی زیادہ گوشت کھاتی ہیں، جبکہ مردوں میں یہ شرح تین چوتھائی ہے۔
حوالہ جات:
– "بھارت میں گوشت کے استعمال” از نیلینا سریش، ڈیٹا فار انڈیا (فروری 2025)
– قومی خاندانی صحت کا سروے 5 (2019-21) ، انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز
https://surl.li/xzjdlg
https://surl.li/wsbpiw
https://surl.li/qmefzg
بھارت کی مختلف ریاستوں میں غذائی رجحانات:
بھارت کی صرف چار ریاستوں میں سبزی خوروں کی اکثریت ہے،ان میں پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور گجرات کی ریاستیں ہیں۔
ساحلی ریاستوں میں سبزی خور افراد کی تعداد بہت کم پائی گئی ہے۔ جہاں صرف 5فیصد یا اس سے بھی کم لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی نان ویج نہیں کھایا، کرناٹک میں یہ تعداد 12 فیصد اور مہاراشٹر میں 18 فیصد ہے۔
(بھارت کی مختلف ریاستوں میں گوشت خور آبادی کا تناسب ، جدول 1.3میں ملاحظہ کریںجس میں موجود ڈیٹا 15 سے 49 سال کی عمر کے افراد کے لیے ہے۔ اس سروے میں مردوں اور عورتوں کی خوراک کے استعمال کا الگ الگ ریکارڈ رکھا گیا۔ مجموعی استعمال کا حساب لگانے کے لیے ریاستی ماڈیول کے گھریلو مرد و عورتوں (15-49 سال) کا ڈیٹا یکجا کیا گیا۔
حوالہ جات:
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 (2019-21) انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز
Meat consumption in India از نیلینا سریش، ڈیٹا فار انڈیا (فروری 2025):
https://www.dataforindia.com/meat-consumption/
مذہبی نقطہ نظر: گوشت خوری اور قربانی کا تصور
(نوٹ: مضمون کے اس حصے کا مقصد گوشت خوری کے حوالے سے مختلف مذاہب کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اسلام کے برعکس بہت سے دیگر مذاہب میں مذہبی صحیفوں اور ان کے مشمولات کو ہمیشہ دین کی بنیاد نہیں مانا جاتا۔ کئی مذاہب میں قدیم مذہبی صحیفوں کے مقابلے میں رسوم و رواج اور عملی روایات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ مزید برآں، اس حصے میں دیے گئے مذہبی حوالہ جات کو کسی بھی صورت میں توہین آمیز یا غیر مہذب انداز میں بحث جیتنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے)
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک عام مگر غلط خیال پایا جاتا ہے کہ صرف مذہب اسلام اور عیسائیت ہی گوشت کھانے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ دیگر مذاہب میں اسے ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ گوشت خوری صرف انہی دو مذاہب کے ماننے والوں تک محدود ہے۔ لیکن پہلے پیش کیے گئے تمام اعداد و شمار واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جین اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑے مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت گوشت کھاتی ہے۔ حتیٰ کہ جین اور سکھ برادریوں کے اندر بھی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں نان ویج کو اپنی خوراک کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار مختلف طبقات کی غذائی عادات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہندوستان کے بڑے مذاہب غذا اور خوراک کے انتخاب کے تعلق سے کیا تعلیم دیتے ہیں۔ آئیے اب ہم مختلف مذاہب کی مذہبی تعلیمات اور ثقافتی عقائد کے حوالے سے غذائی طریقوں اور ان کے انتخاب کا جائزہ لیتے ہیں:
ہندو مت:
بہت سے اہل علم کا ماننا ہے کہ اگرچہ ہندومت کے تمام فرقوں میں گوشت خوری کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن عموماً اسے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ بات اس پر منحصر ہے کہ ہندو مت کے کس فرقے یا روایت سے اس نظریے کا تعلق ہے۔ ہندو مذہبی صحیفوں میں ایسے دلائل بآسانی مل جاتے ہیں جو گوشت خور غذا اور قربانی کے حق میں بھی ہیں اور مخالفت میں بھی۔ معروف اسکالر، سوامی وویکانند نے کا کہنا ہے کہ:
"آپ کو حیرت ہوگی اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ قدیم رسومات کے مطابق وہ اچھا ہندو نہیں ہے جو بیف (گوشت) نہیں کھاتا۔ بعض مواقع پر اسے بیل کی قربانی دینی ہوتی تھی اور اُس کا گوشت کھانا پڑتا تھا۔”
حوالہ جات :
The Complete Works of Swami Vivekananda, جلد 3،
(کلکتہ: آدوائیت آشرم، 1997، صفحہ 536 )
مختلف ہندو مذہبی صحیفوں سے وہ حوالہ جات پڑھنے کے لیے درج ذیل کیو آر کوڈ کو اسکیان کریں جو گوشت خور غذا اور قربانی کے نظریے کی تائید کرتی ہیں:
https://surl.li/fqhdhw
https://surl.lu/zbvkfk
بدھ مت:
ہندو مت کی طرح بدھ مت میں بھی گوشت خوری کے حوالے سے ان کے علماء میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ تسمانیہ یونیورسٹی میں فلسفہ کی سینئر لیکچرر انیا ڈیلی اور سونم تھاکچو لکھتی ہیں کہ:
"کچھ بدھ مذہب کے پیروکار مکمل طور پر سبزی خور ہوتے ہیں جبکہ کچھ گوشت کھاتے ہیں۔ دونوں اپنے موقف کو بدھ مت کی تعلیمات اور متون کی بنیاد پر درست قرار دیتے ہیں۔ چین، تائیوان، ویتنام اور کوریا کے مہایان بدھ روایات میں گوشت کھانا ممنوع ہے۔ جبکہ کچھ تھیراوادی روایات اور تبتی بدھ مت میں گوشت کھانے کی اجازت ہے۔ بعض حالات میں صحت یا تانترک عمل کے لیے گوشت خوری کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔‘‘
تھیراوادی روایت میں گوشت کھانے کی اجازت کی کچھ قانونی وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے راہبوں کو جو بھی کھانا عام لوگ پیش کریں اسے بغیر کسی عذر کے قبول کرنا ہوتا ہے تاکہ کسی ذاتی خواہش سے دل نہ لگے۔ چنانچہ اگر کوئی راہب کو گوشت پیش کرے تو اسے کھانا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ راہب اس گوشت کو کھا سکتا ہے جو ‘پاک’ سمجھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جانور کی ہلاکت کو اس راہب نے نہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور یہ شک نہ ہو کہ وہ جانور خاص طور پر اس کے لیے مارا گیا ہو (اسے وہ کھاسکتا ہے )۔”
حوالہ :
https://surl.gd/ysewew
ڈی این جھا کی کتاب ‘Myth of the Holy Cow’ کے حوالے سے رام پنیانی لکھتے ہیں:
یہ کتاب ‘Myth of Holy Cow’ (مقدس گائے کا افسانہ) یہ ظاہر کرتی ہے کہ زراعتی معاشرے کے عروج کے ساتھ ہی گائے کی قربانی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس کا آغاز بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے کیا۔ اس پابندی کا بنیادی مقصد مویشیوں کی دولت کو محفوظ رکھنا تھا۔ بدھ مت کے پکے پیروکار اور مبلغ شہنشاہ اشوک نے اپنے ایک فرمان میں شاہی باورچی خانے کو حکم دیا کہ صرف اتنے ہی جانور اور پرندے ذبح کیے جائیں جتنے کہ کھانے کے لیے ضروری ہوں۔ اس اقدام کا مقصد برہمن مت کے رسوم و رواج میں شامل جانوروں کی قربانی کی روایت پر روک لگانا تھا۔ برہمن مت نے اس کے ردعمل میں گائے کو ’ ماں‘ کے طور پر پیش کرنا شروع کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ انہیں بھی مویشیوں کی فکر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ برہمن ازم اور اس سے جڑی سیاست نے گائے کو’ماں‘ کا درجہ دے دیا۔
جین مت:
جہاں تک جین مت کا تعلق ہے یہ گوشت خوری کو سختی سے منع کرتا ہے کیونکہ جین عقیدہ کے مطابق کسی بھی جاندار کو مارنا یا نقصان پہنچانا تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اصول نہ صرف جانوروں تک محدود ہے بلکہ زمین کے نیچے اگنے والے پودوں جیسے پیاز اور لہسن پر بھی لاگو ہوتا ہے کیونکہ ان کو اکھاڑنے سے ان کی ماحولیات میں رہنے والے کیڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسی سخت پابندیوں کے باوجود NFHS-5 کے مطابق تقریباً 15 فیصد جین مرد اور 4 فیصد سے زیادہ جین خواتین غیر سبزی خور غذا استعمال کرتے ہیں۔
حوالہ:
https://surl.li/ihhtve
عیسائیت:
عیسائیت میں عمومی طور پر گوشت کھانا جائز سمجھا جاتا ہے تاہم کچھ مخصوص پابندیاں بھی موجود ہیں۔ بائبل کے مطابق "خدا نے انسان کو طوفان کے بعد گوشت کھانے کی اجازت دی اور فرمایا: ‘ہر جاندار چیز جو چلتی پھرتی ہے وہ تمہارے کھانے کے لیے ہو گی، جیسے میں نے سبز بوٹیاں دی تھیں ویسے ہی میں نے تمہیں سب کچھ دیا ہے'” (پیدائش 9:3)۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ اگرچہ عیسائیت گوشت کے استعمال کی اجازت دیتی ہے لیکن نئے عہد نامے میں خاص طور پر کہا گیا ہے کہ مسیحی ان اشیا سے پرہیز کریں جو بتوں کے لیے قربان کی گئی ہوں ’ خون‘ اور گلا گھونٹے گئے جانوروں کے گوشت سے بھی پرہیز کی تاکید کی گئی ہے۔
اسلام:
اسلام میں غیر سبزی خور غذا یعنی گوشت کھانا شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ قرآن مجید میں حلال گوشت کھانے کی واضح ہدایت موجود ہے۔ لیکن ساتھ ہی جانوروں کے ساتھ رحم دلی کا برتاؤ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ مسلمان ان جانوروں کا گوشت کھا سکتے ہیں جنہیں اسلامی طریقے سے ذبح (حلال) کیا گیا ہو۔ اس طریقے میں جانور کی گردن کاٹ کر خون نکالا جاتا ہے تاکہ جلد اور فطری طریقے سے موت واقع ہو۔ اسلام میں کچھ جانوروں کا گوشت ممنوع ہے ۔ جیسے کہ سور (خنزیر) کا گوشت اور وہ جانور جو قدرتی موت مر جاتے ہیں بغیر ذبح کیے ہوئے۔ ایسے جانور حلال کے معیار کے مطابق نہیں ہوتے۔
سکھ مذہب:
سکھوں کےاعلیٰ مذہبی اختیارات کا حامل ’اکال تخت‘ نے اس موضوع پر رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام سکھوں کے لیے سبزی خور ہونے کا حکم نہیں دیتا لیکن یہ خاص طور پر ’کتھا گوشت‘ یعنی رسمِ ذبح کے ذریعے تیار کیا گیا گوشت ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکھ گُروؤں نے رسم و رواج کی بنیاد پر کی جانے والی رسومات کو مسترد کیا ہے اور انہیں روحانی ترقی کے لیے غیر ضروری سمجھا ہے۔ آسان لفظوں میں کہیں تو سکھوں کو کٹھا گوشت سے پرہیز کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن غیر ذبح شدہ گوشت کھانے کا فیصلہ فرد کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ سکھ مذہب کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ یہ سبزی خور ہونا لازمی قرار دیتا ہے۔ یہ خیال عام طور پر گردواروں میں ہونے والے لنگر کےویج کھانوں یا کچھ سکھ گروہوں کے کھانے کے طریقوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ تاہم سکھ مذہب اپنے پیروکاروں پر سبزی خور ہونے کا دباؤ نہیں ڈالتا۔
حوالہ جات
https://surl.lu/slhzgm
کیا گوشت کھانا وحشی پن کی نشانی ہے؟
گوشت کھانے کو ظلم اور وحشی پن سے جوڑنے کی کوشش کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے ۔ انسان لاکھوں سالوں سے ہر قسم کی خوراک کھاتا رہا ہے۔ رینگھم (2009) کے مطابق آگ پر پکانے اور گوشت پکانے کی مہارت نے کیلوریز کی مقدار بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جس سے اانسانی دماغ کی نشوونما ممکن ہوئی۔ اسی طرح ملٹن (1999) دلیل دیتا ہے کہ گوشت کھانا نہ صرف عام تھا بلکہ ابتدائی انسان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری بھی تھا۔ گوشت کھانے کو فطری طور پر وحشی سمجھنا انسانی ترقی میں اس کے بنیادی کردار کو نظرانداز کرنا ہے۔
حوالہ جات:
Wrangham, R. W. (2009). ‘Catching Fire: How Cooking Made Us Human’
Milton, K.(1999). "A hypothesis to explain the role of meat-eating in human evolution.” Evolutionary Anthropology: Issues, News, and Reviews, 8(1), 11-21.
خوراک کا انتخاب ثقافتی، جغرافیائی اور ماحولیاتی حالات سے گہرے طور پر جڑا ہوتا ہے۔ گوشت کی کھپت جب اخلاقی اور پائیدار طریقے سے کی جائے تو ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انسان جسمانی طور پر گوشت کھانے کے لیے موزوں ہیں۔ جیسے کہ ہمارے پاس کینی Canine نوالے دانت اور ایسی نظامِ ہضم ہے جو جانوروں کے پروٹین کو ہضم کر سکتا ہے۔ گوشت فراہم کرتا ہے
اہم غذائی اجزاء جیسے کہ وٹامن بی 12 آئرن اور اومیگا-3 فیٹی ایسڈز، جنہیں صرف پودوں پر مبنی خوراک سے حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بہت سے ثقافتی سیاق و سباق میں گوشت ایک لازمی غذائی جزو ہے جو ان علاقوں میں ضروری غذائیت فراہم کرتا ہے جہاں پودوں پر مبنی خوراک دستیاب نہیں ہوتی۔ ایسی غذائی عادات کو ’وحشیانہ‘ قرار دینا عالمی تنوع اور غذائی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
گوشت کھانے کو فطری طور پر ’ظالمانہ‘ کہنا تاریخی، ثقافتی، حیاتیاتی اور اخلاقی اعتبار سے حقائق کو نظر انداز کرنا ہے۔ انسانوں کی بقا، ثقافتی اظہار اور ماحولیاتی توازن کے لیے گوشت کا استعمال ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ اخلاقی مباحثے کو انسان دوستی کے معیار پر مرکوز ہونا چاہیے نہ کہ غذائی انتخاب کے بارے میں عمومی اور بے بنیاد فیصلوں پر۔ یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ خود فطرت ایک ’ فوڈ چین‘ کے اصول پر کام کرتی ہے اور انسان بطور انواع (Species) ہمہ خور (omnivore) کے طور پر ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ گوشت خوری کو ’ظلم‘ قرار دینا ثقافتی، غذائی اور ماحولیاتی حقیقتوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پودوں کی کاشتکاری بھی نقصان پہنچاتی ہے — جیسے جنگلات کی کٹائی، کیمیکل اسپرے (زہریلی ادویات) کا استعمال اور قدرتی مسکن (habitat) کی تباہی۔ سبزی خوری کی سیاست ان ماحولیاتی نقصانات اور ان جانوروں کی ہلاکتوں کو نظر انداز کرتی ہے جو پودوں کی کاشت کے دوران ہوتی ہیں۔ حقیقی ظلم گوشت کھانے میں نہیں بلکہ حقائق کو نظر انداز کرنے، اخلاقی معاملات کو حد سے زیادہ سادہ بنانے اور سبزی خوری کے نام پر ’ چُنیدہ لوگوں کی ہمدردی‘ کےنام پر اکثریت کو احساس جرم میں مبتلا کرنے میں ہے ۔
نان ویجیٹیرین صنعت کی معاشی اہمیت:
نان ویجیٹیرین خوراک کی صنعتیں بھارت کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔ یہ صنعتیں خاطر خواہ آمدنی پیدا کرتی ہیں، روزگار فراہم کرتی ہیں اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں سالانہ گوشت کی پیداوار تقریباً 6.3 ملین ٹن ہے۔ یہ پیداوار کے حجم کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ملک میں مویشیوں کی آبادی تقریباً 515 ملین ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ IMARC کے مطابق بھارتی گوشت کی مارکیٹ 2024 میں 55.3 ارب امریکی ڈالر کی ہے اور 2033 تک اس کے 114.4 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ گوشت اور پولٹری کی صنعتیں لاکھوں ہندوستانیوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں۔
زرعی اور پراسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (APEDA) جو وزارت تجارت و صنعت، حکومتِ ہند کے تحت کام کرتی ہے، کے مطابق حیوانی مصنوعات ملک کے سماجی و اقتصادی نظام میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔ یہ لاکھوں افراد کی روزی روٹی اور ملک کی غذائی سلامتی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ FAO کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت دنیا کا سب سے بڑا گوشت پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
بھارت میں 2021 میں دودھ کی پیداوار 250.58 ملین ٹن رہی جو دنیا بھر میں دودھ کی کل پیداوار کا 25 فیصد حصہ تھی۔ انڈے کی پیداوار 138.3 ارب رہی جو دنیا میں انڈوں کی کل پیداوار کا 7.25 فیصد تھا۔ گوشت کی پیداوار کے لحاظ سے بھارت میں 2021 میں 9.77 ملین ٹن گوشت کی پیداوار ہوئی جو عالمی سطح پر گوشت کی کل پیداوار کا 3 فیصدبنتا ہے۔
بھارت میں دنیا کی دودھ دینے والے جانوروں کی سب سے بڑی آبادی ہے ۔ 2019 میں 109.85 ملین بھینسیں، 148.88 ملین بکریاں اور 74.26 ملین بھیڑیں موجود تھیں۔ 2012 سے 2019 کے درمیان سب سے زیادہ افزائش کی شرح بھیڑوں میں 14.13 فیصد، بکریوں میں 10.14 فیصد اور بھینسوں میں 1.06 فیصد رہی ہے۔
ماخذ 20 :ویں لائیوسٹاک اعداد شماری – 2019)، (DAHD
جانوروں سے حاصل کردہ مصنوعات کی برآمدات بھارت کے زرعی شعبے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان مصنوعات میں بھینس کا گوشت، بھیڑ ، بکری کا گوشت، مرغ کی مصنوعات، جانوروں کی آنتیں، دودھ اور دودھ کی مصنوعات اور شہد وغیرہ شامل ہیں۔ 2023-24 میں بھارت میں جانوروں کی مصنوعات کی برآمدات 4,543.52 ملین امریکی ڈالر رہیں۔ جن کی تفصیل جدول 1.4میں ملاحظہ کریں)
حوالہ:
https://apeda.gov.in/AnimalProducts
3 بھارت کے چوٹی کے بیف ایکسپورٹرز:
ملک میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ صرف مسلمان ہی بیف کے کاروبار کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی بیشتر بڑی بیف ایکسپورٹ کمپنیاں غیر مسلموں کی ملکیت میں ہیں۔ ذیل میں بھارت کے بڑے بیف ایکسپورٹرس کی ایک مختصر فہرست دی جا رہی ہے:
علانا سنز پرائیویٹ لمیٹڈ – راشد سہراب کاظمی
الکبیر ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ – ستیش اور اتُل سبھروال
ایم کے آر فروزن فوڈ ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ – مدن ابوٹ
پی۔ایم۔ایل انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ – اے۔ ایس۔ بندرا
عربین ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ – سنیل کپور
اختتامیہ:
آخر میں یہ بات مکمل وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نہ دنیا اور نہ ہی بھارت اکثریتی طور پر سبزی خور ملک ہیں۔ دنیا کی غالب آبادی اور بھارت کی بھی اکثریت گوشت خور ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب اور ثقافتیں بشمول بھارت کی ثقافت، گوشت خوری اور جانوروں کی قربانی کی اجازت دیتی ہیں۔ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے جو گوشت خوری کو فطری طور پر تشدد، ظلم یا بربریت سے جوڑتا ہو۔عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو غیر سبزی خور خوراک کی صنعت ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے ، انسانی غذائیت کی تکمیل اور معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ غذا سبزی پر مشتمل ہے یا گوشت پر بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ بعض گروہ زبردستی یا جبر کے ذریعے اپنی غذائی ترجیحات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سبزی خوری کو فروغ دینے کے لیے گوشت خوری کی مخالفت معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی تقسیم اور سماجی انتشار کا سبب بن رہی ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ جبری سبزی خوری یا سبزی خوری کی برتری کی سیاست کو سختی کے ساتھ مسترد کیا جائے۔ اس کے بجائے ہمیں غذا کے انتخاب کے معاملے میں آزادی ، وسیع النظری ، تنوع اور باہمی احترام کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 جون تا 14 جون 2025